تحریر: عرفان صدیقی
کیا پاکستان واقعی کسی آتش فشاں کے دہانے پہ کھڑا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اور کھولتا ہوا لاوہ سب کچھ خاکستر کر دینے کو ہے؟ کیا ہم واقعی کسی ایسے سنگین بحران سے دوچار ہیں جس سے نکلنے کی کوئی راہ ہمیں سجھائی نہیں دے رہی؟ کیا کوئی دیو ہیکل سونامی اپنے ہوناں اپنے خونخوار جبڑے کھولے ہماری طرف بڑھ رہا ہے اور ہم کسی آن غرقاب ہونے کو ہیں؟ کیا یہاں واقعی حکومت نام کی کوئی چیز نہیں؟ کیا تمام ریاستی ادارے مفلوج ہو گئے ہیں؟ کیا ہمارے جمہوری پارلیمانی نظام اور نظم اجتماعی کا تانا بانا بکھر چکا ہے؟ کیا انار کی کاسیل تند روکسی لمحے قومی سلامتی کی فصیلوں سے ٹکرانے والا ہے؟
الحمد للہ ! ایسا کچھ بھی نہیں ۔ ہم اسی نوع کے عمومی مسائل سے دوچار ہیں جو نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک کو در پیش ہیں۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ ہماری صورت حال آج بھی وہی ہے جو ایک مدت سے ہمارے معمولات کا حصہ بن چکی ہے۔ دلاور فگار نے کہا تھا
حالات حاضرہ نہیں گو مستقل مگر
حالات حاضرہ کوکئی سال ہو گئے
اپنی بقا کے لئے کسی بحران کے متلاشی اور کوشاں قبیلے کی تمام تر کوششوں کے باوجود حالات حاضرہ کو بحران میں بدلنے، ہیجان بپا کرنے اور طوفان اٹھانے کا کوئی حربہ کارگر نہیں ہو رہا۔ یہ سرفروشانہ جدو جہد اپریل 2022 سے ذرا پہلے شروع ہوئی اور آج تک جاری ہے۔ سائھر لہرانے اور فوج کے کچھ کرداروں کو میر صادق اور میر جعفر قرار دینے کا معرکہ بھی ناکام رہا۔ وزارت عظمی سے بے دخلی کے بعد زمان پارک میں قلعہ بند ہونا اور سینکڑوں فدائین کی صف بندی بھی اکارت گئی۔ پشاور سے اسلام آباد تک کا مارچ ، خوش آمدیدی عدالتی بینچ کی اشیر باد کے باوجود بے ثمر رہا، جنرل عاصم منیر کی تقرری کا راستہ روکنے کے لئے 25 نومبر کو راولپنڈی پر حملہ آور ہونے کا منصوبہ بھی خواب پریشاں ہو گیا۔ جھنجھلاہٹ میں آکر یکا یک دو اسمبلیاں توڑنا اور اپنی حکومتیں ختم کر دینا بھی لاحاصلی کا نوحہ بن کر رہ گیا۔ بحران اٹھانے کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی تو ایک بغاوت کی سازش تیار کی گئی۔ اس کے لئے وہ دن طے پایا جب قانون نافذ کرنے والے ادارے، فدائین کی طرف سے ریڈ لائن قرار دیے گئے عمران خان پر ہاتھ ڈالیں گے۔ 9 مئی کی شام دو سو سے زائد دفاعی تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں پر دشمنانہ عزم کے ساتھ حملوں سے توقع باندھی گئی کہ فوج یہ غارت گری روکنے کے لئے لاشیں گرائے گی لیکن عسکری قیادت کے متحمل نے اس منصوبے پر بھی پانی پھیر دیا۔ بحران بپا کرنے کی سب سے بڑی سازش ناکام ہوگئی تو بھی بحران کی آرزو پہم سلگتی رہی۔ اندرون اور بیرون ملک مہم چلائی گئی کہ آئی ایم ایف پاکستان کا معاشی مقاطعہ کرے۔ خط لکھے گئے ۔ آئی ۔ایم ۔ ایف ہیڈ کوارٹرز کے سامنے مظاہرے کئے گئے۔ پاکستان کے دیوالیہ پن سے بحران کشید کرنے کی یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھی ۔ بحران جوئی کی مہم جاری دورہی۔ یہاں تک کہ 8 فروری کے انتخابات نے آلیا۔ پی ٹی آئی کے فدائین نے اسے ووٹوں سے نہال کر دیا۔
اپریل 2022 میں محروم اقتدار ہونے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ پی۔ ٹی آئی کوئی ”بحران ”پیدا کرنے کی حکمت عملی سیدستکش ہو کر، دانش و حکمت کا راستہ چنتی اور عوامی حمایت کو ایک بار پھر کسی مہم جوئی کی بھٹی میں نہ جھونکتی لیکن اپنی دیرینہ روایت کے مطابق اس نے بے ہنری کا سفر جاری رکھا ۔ پیپلز پارٹی نے اسے پیشکش کی کہ ہمارے ساتھ مل کر حکومت بنالو۔ یہ ایک سنہری موقع تھا کہ پی ٹی آئی وفاقی حکومت بنا کر سارا سیاسی منظر نامہ بدل ڈالتی۔ لیکن بحران کے عشق میں طلائی طشتری میں سجا کر پیش کئے جانے والا یہ تحفہ بھی پائے حقارت سے ٹھکرا دیا۔
دوسرا سیاسی راستہ یہ تھا کہ اس کے منتخب ارکان ، صوبوں میں تھے یا مرکز میں ، حلف نہ اٹھاتے اور فی الواقع ایک حقیقی بحران پیدا کرنے کے لئے ایوانوں کو ادھورا اور نامکمل چھوڑ کر سڑکوں پر متحرک ہو جاتے جیسا کہ 1977 کے انتخابات کے بعد اپوزیشن نے کیا تھا۔ مگر پی ٹی آئی نے یہ راستہ بھی نہ اپنایا اور بحران کا ایک سنہری موقع گنوا دیا۔ اب وہ فارم 47 کا جتنا بھی ماتم کرے یا اسمبلیوں کے اندر جیسا بھی شور و غل مچائے ، فروری 2024 کے انتخابی نتائج پر تصدیق کی مہر لگ چکی اور وہ معتبر قرار پا چکے۔ اس لئے کہ پی۔ٹی۔ آئی تمام ایوانوں کا حصہ بن چکی۔ ایک صوبے میں اس کی حکومت قائم ہو چکی ہے۔ مرکز میں عددی اکثریت کی بنا پر اتحادیوں کی حکومت تشکیل پاچکی ہے۔ یہ اتحاد عددی اکثریت کی بدولت اپنا وزیر اعظم ، اپنا سپیکر اور اپنا ڈپٹی سپیکر منتخب کر چکا ہے۔ اس اتحاد کے امیدوار، آصف علی زرداری، پی ٹی آئی کے نامز د صدارتی امید وار محمود خان اچکزئی کو 181 کے مقابلے میں 411 دوٹوں سے شکست دے کر ایوان صدرمیں مورچہ سنبھال چکے ہیں ۔ اب فارم 47 کی قوالی ، 2018 والے آر۔ ٹی۔ ایس کی ٹھمری کے سوا کچھ نہیں۔
معیشت کا ایک شدید بحران ، خود پی ۔ٹی ۔آئی ورثے میں چھوڑ گئی تھی ، اب اس کی شدت میں بھی کمی آرہی ہے۔ تمام عالمی مالیاتی ادارے مسائل کی نشان دہی کے ساتھ ساتھ ، مثبت اور امید افزا امکانات کی خبر دے رہے ہیں۔ مہنگائی کی شرح میں تیزی سے کمی آنے لگی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آرہی ہے۔ برآمدات بڑھ رہی ہیں۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے ترسیل زر میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ سٹاک ایکھینچ تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھوتی ہوئی پچہتر ہزار کی حد عبور کر چکی ہے۔ روپے کی شرح مبادلہ متحکم ہے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات اچھے ماحول میں چل رہے ہیں۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) داخلی اور بیرونی سرمایہ کاروں کے اعتماد کا مضبوط کھونٹا بن چکی ہے۔ ان کے وفود پاکستان کا رخ کر رہے ہیں۔ ہولے ہولے ہمارے بارے میں دنیا کا زاویہ نگاہ کے اعتماد کا مضبوط ھوتا
بہتر ہو رہا ہے۔ مایوسی اور نا امیدی کی دھند چھٹنے لگی ہے۔ مطلع صاف ہو رہا ہے۔ تو پھر بحران کہاں ہے؟
بحران صرف پی ۔ٹی ۔آئی کی صفوں میں ہے۔ بند گلی میں صرف عمران خان کھڑے ہیں، وہ بھی محض اپنی بے ہنری کے سبب۔ بے پر کی اڑانے والا طرار میڈیا اسے قومی بحران باور کرانے کے جتن کر رہا ہے یا کبھی کبھی کوئی دانشور ایسی ہی ہانک لگا دیتا ہے۔ گرفتاریاں، مقدمے سزائیں ، قید خانے نہ تب بحران بنے جب نواز شریف اپنی بیٹی اور درجنوں مسلم لیگیوں کے ہمراہ پیشیاں بھگت اور جیلیں کاٹ رہا تھا، نداب یہ معمولات بحران قرار پاسکتے ہیں۔ اپنے قائد کی بے تدبیریوں کا ڈسا قبیلہ اگر دشتِ بے اماں کے تھپیڑے کھا رہا ہے تو یہ اس کا بحران ہے، پاکستان کا نہیں۔
پاکستان کو خطرہ بحران باور کرا کے سرمایہ کاروں کو ہراساں اور عالمی مالیاتی اداروں کو گریزاں کرنے کی یہ کوششیں صرف اس قبیلے کی ذہنی ساخت کا ٹیڑھ ہے جو خود کو پاکستان سے بالا تر خیال کرتا ہے۔ جس کا نعرہ یہ ہے کہ عمران نہیں تو پاکستان بھی نہیں ۔ وہ اس خلجان سے نکلنے اور ٹھوس زمینی حقیقتوں کا ادراک کرنے پہ آمادہ نہیں اور وقت اس کا انتظار کئے بغیر ریت کی طرح اس کی بند مٹھی سے سرکتاجا رہا ہے۔ بحران بس اسی قدر ہے۔
کالم
یہ آپ کا بحران ہے، پاکستان کا نہیں !
- by Daily Pakistan
- مئی 20, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 560 Views
- 1 سال ago