کالم

یہ ادب کیا ہے؟

ماضی میں صحافت ایک ایسا روشن ستارہ تھا جس کی ضیا سے نو آموز لکھاری بھی ضیا پاتے تھے۔ان کی تحریروں کی درستی کرکے چھاپا جاتا تھا۔ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ ان کی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے لیے ان کی تحریروں، مضامین، کالمز یا کہانیوں کی نوک پلک سنوار کر اخبار،رسائل اور میگزین کی زینت بنایا جاتا،یوں وہ معاشرے میں مقام حاصل کر لیتے تھے۔درجہ بدرجہ وہ اچھے لکھاری بن جاتے تھے۔ ایڈیٹرز کی خاص محبت و شفقت کے سبب وہ مقام حاصل کرلیتے تھے جو باعث فخر و اعزاز ہوتا تھا۔ایسے استاد الا ساتذہ ایڈیٹرز کا بنایا ہوا ایک لکھاری میں خود بھی ہوں جسے ایڈیٹرز نے بنایا، سنوارا، تراشا اور اس قابل بنا دیا کہ آج میں جو کچھ بھی ہوں ،انہی کے دم قدم سے ہوں اور آپ کے سامنے بطور لکھاری، موجود ہوں۔ یہ جہاں اساتذہ کی محنت،ایڈیٹرز کی شفقت ہے، وہیں والدین کی دعا¶ں کا بھی نتیجہ ہے کہ جو آج یہ مقام ملا ہے۔حق اور سچ بیان کرنا مجھے انہی کے طفیل ملا ہے اور یہی میرا سرمایہ حیات ہے ۔ اسے بیان کرنے سے نہ میں کبھی گبھرایا ہوں اور نہ پریشان ہوا ہوں،چہ جائیکہ تکلیفیں ضرور سہیں، مگر کامیابی پھر بھی میرا ہی نصیب ٹھہری،وجہ اور کچھ بھی نہیں،اللہ پر ایمان اور یقین محکم اور ایک جذبہ توانا،جو سوچا کردیا ، کبھی باطل کے سامنے جھکا نہیں،حق کے ساتھ رہا ہوں اور رہوں گا جس بات کو محسوس کیا،اس کو بغیر لگی لپٹی ویسے ہی پیش کیا،ظالم جابر حاکم سے لے کر اس دھرتی کے ہر فراڈئیے، بہروپیے کو بے نقاب کیا،ہر فاسق ، ظالم کو جھنجھوڑا۔ہر ظلم اور فریب کو سامنے لایا ۔ سیاسی راہ داریوں سے لے کر صحافتی گزر گاہوں تک جو دیکھا بے خوف اور بے دھڑک بیان کیا کیو نکہ میں اپنے ضمیر اور تربیت کے مطابق سچ لکھتا ہوں۔مجھے کسی اعزاز و اکرام یا ایوارڈ کا لالچ نہیں،مجھ پر خائن ہونے کا کوئی دھبہ نہیں تو میں کیوں نہ لکھوں اور بتا¶ں کہ یہ لوگ خیر خواہ بنے بیٹھے ہیں مگر یہ مفاد پرست ہیں۔دولت اور شہرت کے لیے آپ کو سیڑھی بنا رکھا ہے۔جھانسہ یہ آپ کو دولت اور شہرت دینے کا دیتے ہیں لیکن درحقیقت وہ آپ کی آڑ میں خود شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور پھر آپ جیسے سادہ لوح لوگوں کو مختلف ترغیبات کا لالچ دے کر خود دولت و شہرت ہتھیانے کےلئے پرکشش نعروں کو لے کر میدان ہوس میں آجاتے ہیں۔یہ میدان ہوس کے سوار ہیں۔آپ گھوڑے۔آپ چاہیں تو ان سواروں کے اشاروں پر چلیں یا ان سواروں کو اوندھے منہ گرادیں۔جب آپ ان کو گرائیں گے۔انکی ہوس چکنا چور ہو جائے گی۔پھر نظر دوڑائیں۔آپ کے اردگرد ایسے سوار بہت ہیں جو بغیر کسی لالچ آپ کا ہاتھ تھام کرآپ کو منزل تک پہنچائیں گے۔ان کے پاس پرفریب نعرے نہیں۔میں بھی ایسا ہی ایک میر کاررواں ہوں جو آپ کو اپنے قافلے کا حصہ بنانا چاہتا ہوں۔میں نے ہمیشہ وہ بیان کیا جو کم ہی کسی کے حصہ میں آیا اور نصیب ٹھہرا ۔ ایک ایسے دور میں جب کوئی کسی سے مخلص نہیں ہے، ہر طرف منافقت اور ریا کاری ہے ، دورنگی اور جہالت ہے۔ سچ و حق کا جس حد تک حتی الوسع دیا جلائے رکھا ، جتنا ممکن ہوا اس علم کو اٹھائے رکھا ۔ لوگوں نے راستے میں رکاوٹیں بھی بننا چاہی،تکلیفیں و پریشانیاں بھی دینا چاہیں مگر سب گوارہ کیا لیکن وہ سحر جس کاسب کو انتظار ہے اس کے نمودار ہونے کی جستجو میں لگا رہا،ان شاءاللہ بہت جلد اجالے کی تمنا رکھتا ہوں۔ میری کامیابی میں یہ سارا کرم اللہ کا ہے، میرے والدین، دوست احباب اور اساتذہ کی دعا¶ں کا ہے کہ آج حق اور سچ کے میدان میں تن تنہاکھڑا کام کررہا ہوں ۔آج کے دور میں ایسے افراد موجود ہیں، جو ایسی صورت ضرور رکھتے ہیں مگر اب ان کی تعداد نہ ہونے جیسی ہو گئی ہے اور صحافت میں خاصی حد تک اس کا فقدان نظر آتا ہے۔ بدقسمتی سے کہہ رہا ہوں کہ پہلے صحافت ایک خدمت کا درجہ رکھتی تھی اور اب تجارت کا روپ دھار چکی ہے اور زمانے کے انداز بدلنے کی طرح صحافت کے طور اطوار بھی بدلنے لگے ہیں۔ اب اجلی صاف شفاف صحافت اور افراد کی جگہ کچھ داغ دار افراد آگئے ہیں جو صحافت کوگدلا کیے ہوئے ہیں۔سب سے پہلے صحافت میں غلط لوگ خدمت کے نام پر آئے اور پھر صحافت میں فراڈ اور دھوکہ دہی کی دراڑیں ڈالنا شروع کردیں۔ کئی افراد نے صحافت کی آڑ لے کر اپنی تجوریاں بھرلیں اور کچھ صحافتی کرتا دھرتا بن گئے جن کا حقیقی صحافت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ فراڈ اور خود ساختہ صحافی لوگ مختلف النوع طریقے خود ساختہ ایوارڈ، میڈلز، شیلڈ،تعریفی اسناد ، کتاب فراڈ میں تحریر لگوا¶کے نام پر لوٹنے لگے اور کچھ نے انعامی جھانسے کے نام پر اپنے پیٹ بڑے کرلئے اور جو باقی بچے انہوں نے صحافت کے نام پر ہی جیسے ممکن ہو سکا،پیسے بنانا شروع کردیے۔ ایسے میں صحافت میں سب کچھ آگیا مگر صحافت صحافت نہ رہی،افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان خود ساختہ فراڈ صحافیوں کا ساتھ چند حقیقی صحافیوں نے دیا۔اس طرح یہ کھلم کھلا خود کو صحافی کہنے لگے اور جھوٹی عزتیں کمانے اور مال بنانے لگے۔
(……..جاری ہے)
صحافت مفاد پرستوں کی عیش گاہ بن گئی،صحافت کم ایک دھندہ زیادہ بن گئی ہے۔ جس طرح فلم اور ٹی وی انڈسٹری اداکاروں ، اداکارا¶ں کے اسکینڈلز کے باعث خوار اور بدنام ہوگئی ہے اسی طرح صحافت میں بھی نئے نئے میل فی میل رائٹرز کی آمدصحافت کو گرہن ہی لگا گئی ہے کیونکہ فراڈ مافیا نے ان کے ساتھ سکینڈلز بنانے شروع کر دئیے ہیں۔انہیں ابھی قلم کے ہنر سے آشنائی کی ضرورت ہے۔ان صحافتی کاروباری افراد کو پیسے دے کر وہ شائع تو ہو جاتی ہیں لیکن صرف اشاعت سے آپ کا حقیقی قد یا معیار نہیں بڑھتا۔بلکہ اچھا لکھنا سیکھیے۔آپ کی تحریر آپ کے ہنر کی غماز ہے۔اسے کسی استاد کو دکھائیں۔اس کی نوک پلک سنواریں اور پھر کسی کے کندھے کا سہارا لینے کی بجائے خود شائع کرنے کےلئے بھیجیں۔پھر حقیقی خوشی حاصل کریں۔افسوس کہ اب فلم انڈسٹری کی طرح کے لیلیٰ مجنوں صحافت میں بھی جنم لینے لگے ہیں اور ایک عجب نظارہ پیش کر رہے ہیں۔چشم فلک تب سے لے کر اب تک مرد و خواتین کے اشتراک سے بنی اس فلم کے ایسے منظر سامنے آچکے ہیں کہ آنکھیں شرما جائیں، دل و دماغ گھوم جائیں۔نئی لکھاری خواتین کو شہرت کا جھانسا دے کر اپنے جال میں پھنسایا جاتا ہے۔پھر مداح سرائی سے جھوٹی محبت کا کھیل رچایا جاتا ہے۔پھر لکھاری خواتین کے ساتھ بے ہودہ گفتگو سے لے کر بے ہودہ حرکات تک پہنچا جاتا ہے۔یہ سانپ ان کی عزتوں کو داغ دار کر رہے ہیں۔جب سے یہ انکشافات میرے علم میں آئے ہیں۔میں ایک رات بھی چین سے سو نہیں پایا۔میرے وطن کی بہنیں جھوٹی شہرت اور نام و نمود کے لیے ان کے جال میں پھنس جاتی ہیں۔ ہم نے فلمسٹار حسینہ کی طرح صحافتی خواتین لکھاریوں کو بھی صحافت میں جی آیاں نوں کہتے محض آنکھوں کا تارا بنادیا ہے۔صاحب حیثیت خواتین کی بھرپور تعریف اور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ موجودہ صحافت اس کی واضح مثال ہے۔آپ اس کے جس پرت اور حصے کو اٹھا کر دیکھ لیں شرم کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ ہر حصے، پرت میں عورت ہی عورت کا ذکر و فکر ہے۔ گروپوں، محفلوں، دفتروں اور ہرمقام پر عورت ہی کی بات ہے۔ معاملہ اتنا سنگین ہے کہ جیسے عورت بغیر یہ صحافتی جہاں کچھ بھی نہیں ہے۔اس صحافتی دنیا میں عورتوں کو شہرت کے لیے دل لبھا دینے والی کہانیاں اور لوریاں سناتے حیوان نما انسان دیکھنے کے لائق ہیں، بے شرمی اور ڈھٹائی کی آخری حد تک عورت کے سحر کا شکار نظر آتے ہیں۔ کسی بھی نئی فی میل رائٹر کو آتے ہی اپنے جلو¶ں سے ”نیڑے آ ظالما وے میں ٹھر گئی آں” کی تصویر بنانا چاہتے ہیں۔صحافت میں ہر روز صبح سے لے کر شام تک جو جو کچھ ہوتا اور ہو رہا ہے رونگٹے کھڑے کردینے والا ہے جو بیان کے لائق نہیں ہے۔ میں نے اور متعدد احباب نے ایسے نظارے ”ہم دونوں ہوں اک کمرے میں بند اوربجلی چلی جائے“ جیسے نظارے ضرور دیکھے ہوں گے۔ کچھ نے تو روشنی میں بھی بہت کچھ فلماتے نظارے کسی نہ کسی صورت اندر باہر آتے جاتے ضرور دیکھے ہوں گے۔ یہ بے شرم فلمی کہانی کی طرح بدترین صحافتی داستان ہے۔ کسی بھی صحافتی محاسن پر بیٹھا شخص بڑے آرام سے کسی بھی خواتین لکھاری کو اچانک سے ہی اس مقام پر پہنچانے کی باتیں کرتا ہے جہاں چاہ کر وہاں بیٹھا شخص تصور بھی نہیں کرسکتا۔ کچھ افراد کو تو چاند تارے توڑ کر لانے کی باتیں تک کرتے سنا ہے۔ کچھ تو اس عالم مدہوشی میں پتہ نہیں کیا کیا تک اتار دیتے ہیں۔ کچھ کے فی میل کو کئے واٹس ایپ میسجز اتنے ”کمال“کے ہوتے ہیں کہ ”عش عش“کرنے کو دل کرتا ہے۔ دل اور اس کو سنبھالا نہ جائے تو پتہ نہیں کیا کر بیٹھے۔ ان کچھ صحافتی کرتا دھرتا¶ں کی صحافتی خدمات ذرا ملاحظہ فرمائیں کہ پہلے خواتین کو گروپ میں شامل کرتے ہیں یا خواتین بسا اوقات تحریر لگانے کےلیے خود ہی پرسنل نمبر پر رابطہ کرلیتی ہیں۔ پھر تحریر لگاتے ہیں۔ جب لگ جاتی ہے تو اگلا کام تصاویر کے ساتھ لگانے کا ہوتا ہے۔ کچھ تو شناختی کارڈ نمبر تک لے لیتے ہیں۔ کچھ عرصہ یوں ہی کالمز، افسانے، نظمیں لگتے رہتے ہیں، جب یہ سمجھتے ہیں کہ اب حصار میں پھنس چکی ہے تو ادبی حصار کے انداز میں اسے پیارے بھرے لہجے میں کہتے ہیں ویڈیو کال پہ بات ہوسکتی ہے؟ کیوں کہ کم از کم پتا تو چلے ہم کن کے مضمون لگا رہے ہیں وہ خود بھی یا نہیں؟ پھر ویڈیو کال سلسلہ میں کامیاب ہوجائیں تو اگلا مرحلہ مکمل دل و جان دینے تک پہنچ جاتا ہے۔ آفس میں کام کرنے، جاب دینے، ڈیوٹی پہ لگانے کے بہانے ملاقات کرکے معاملہ مکمل کرنے تک ہوتا ہے۔ جب کہ ان میں سے اکثر رسائل و اخبارات اے بی سی سے رجسٹرڈ ہی نہیں ہوتے جن کے ہر صفحے پر نمایاں اپنے ذاتی نمبر ہوتے ہیں جن کے ذریعے نئی نئی خواتین لکھاریوں کو پھنسایا جاتا ہے جبکہ درست قانونی طریقہ یہ کہ ای میل بنا¶، اس پہ ذاتی ای میل سے آرٹیکل بھیجو۔ جب کہ یہاں تو اپنے واٹس اپ نمبروں کے ذریعے کالم مضامین لگانے کےلئے کہا جاتا ہے۔ یادرکھیں! یہ اکثر اخبارات پی ڈی ایف ہوتے ہیں جو نوسر بازوں نے بنائے ہوتے ہیں۔ درست اخبار وہی ہے جو اے بی سی یا کسی قانونی ادارے سے این او سی کے تحت چل رہا ہے اور کسی بھی ادارے کو اجازت نہیں کہ اس کے ایٹریڑ ہر صفحے پر اپنے نمبر دیتے پھریں مگر کچھ میگزین میں ایسا بھی دیکھنے کو ملا ہے اور یہ وہ موصوف ہیں جو اپنے آپ کو سو فیصد قلم قبیلہ سے بتاتے ہیں اور ان کا عالم یہ ہے کہ ان کے گروپ کی لڑکی اگر کوئی دوسرا اپنے گروپ میں شامل کرلے تو دوسرے کے نام واٹس ایپ میسج کرکے گلہ کرتے ہیں کہ کیا بات ہے کہ ہمارا دل ویران کرکے اپنا گھر بسا لیا، میں نے تو اجازت لے کر شامل کیا تھا، تم نے بن اجازت ہی اسے چرالیا، یہ صریحاً زیادتی اور صحافتی بد دیانتی کا کھلم کھلا ارتکاب ہے۔ کچھ گروپوں میں خواتین کی بھرتی ہے۔بیچاری گروپ کو تیزگام کی طرح چلاتی ہے،مسلسل انعامات جیسے جھانسوں کی گرفت میں ہوتی ہیں مگر تحقیر آمیز ذلت کا شکار بن جاتی ہیں۔جو محبت کا فریب اور عزت کا لیبل لگا کر پیش کرتے ہیں۔ اگر کسی کو میری بات پر یقین نہ آئے تو ثبوت تو پڑے ایک طرف، خدا کو حاضر ناظرجان کر، خود کو خود ہی سے آئینے میں دیکھ لیں، سارا منظر نمایاں نہ ہو جائے تو پھر کہنا۔اگر غصہ نہ کیجیے تو حقیقت بیان کرتا جا¶ں جو تلخ اور کڑوی ہے کہ آج کا صحافتی ادب بس آخر میں لکھی ان چند سطور میں ہی سمایا ہوا ہے اس سے باہر نکلتا ہی نہیں ہے اور کسی طرف راستہ جاتا نہیں ہے۔ یہ ادب کیا ہے؟ہاں مشہور اخبارات اور میگزین میں بھی ایسے شہرت کے پجاری ہیں جو لڑکیوں کے لیے دل و جان وا کیے بیٹھے ہیں۔پیسے اور تعلقات ساتھ ساتھ چلاتے ہیں۔اخبارات کے اصل مالکان کو ہوا نہیں لگنے دیتے کہ کس ہوس و نشاط کا بازار گرم کر رکھا ہے۔
یا واہ واہ کیے جا
یا گاتا جا
یا ہائے ہائے کیے جا
یا دل کی بھڑاس نکالے جا
یا محبوب کے جسم کے خدوخال کو بیان کیے جا۔
آج صحافتی وادبی کرتا دھرتا¶ں کے نزدیک یہی انتہاءہے اور یہی فناءہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے