کالم

یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے

riaz chu

ہر دور کا اک ابراہیم ہوا کرتا ہے اور ہر دور اپنے اس ابراہیم کی تلاش میں ہوتا ہے، جو آتشِ نمرود میں بے خطر کود پڑتا ہے۔ جو سود و زیاں سے ماوریٰ اور انجام سے بے پروا ہوتا ہے۔ اس دور کے ابراہیم ارضِ مقدس کے باسی ہیں۔علامہ اقبالؒ نے کہا تھا:
یہ دَور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ
نہاں اندر دو حرفے سرِّکار است
مقامِ عشق منبر نیست، دار است
براہیماں زنمرودان نترسند
کہ عودِ خام را آتش عیار است!
امتحانِ پاک مرداں از بلاست
تشنگاں راتشنہ ترکردن رواست
درگذر مثلِ کلیم از رودِ نیل
سوے آتش گام زن مثلِ خلیل!
(پاک مردوں کا بلاو¿ں کے ذریعے سے امتحان لیا جاتا ہے اور اس امتحان گاہ میں پیاسوں کو اور پیاسا کرنا روا ہے تاکہ انھیں آزمایا جاسکے لہٰذا اے مسلمان تو حضرت موسیٰ کلیم اللہ کی طرح سے دریائے نیل سے گزر جا اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہما السلام کی طرح سے آگ کی طرف قدم بڑھا۔اسرائیل نے حالیہ جنگ میں غزہ میں فلسطینیوں پر ہر نوعیت کے فضائی حملوں کی انتہاءکر دی۔ اسرائیل نے مظالم کا کوئی ایسا ہتھکنڈہ نہیں ہوگا جو فلسطینیوں کیخلاف استعمال نہ کیا ہو۔ غزہ میں خواتین‘ بچوں سمیت فلسطینیوں کا قتل عام کیا اور مساجد‘ سکولوں‘ مدارس‘ ہسپتالوں‘ مارکیٹوں اور دوسرے پبلک مقامات پر بمباری کرکے سب کچھ تہس نہس کر دیا۔ایک ہی روز میں مزید 433 فلسطینیوں کو شہید کردیا جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔اب تک شہید فلسطینیو ں کی تعداد 3 ہزار 4 سو سے زائد ہوگئی جبکہ 12 ہزار سے زائد افراد زخمی ہیں۔ اسرائیلی حملوں کے باعث سوا چار لاکھ فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں۔ اسکے باوجود فلسطینیوں کے حوصلے بلند ہیں اور وہ اسرائیلی حملوں پر سخت مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں ۔اسرائیلی طیاروں نے غزہ پر حملوں میں ممنوعہ سفید فاسفورس استعمال کیا۔ وائٹ فاسفورس سے زمین پر وسیع علاقے میں آگ بھڑک اٹھتی ہے جو انسانی جسم کے پٹھوں اور ہڈیوں تک کو جلادیتا ہے۔ ان دنوں فلسطینیوں کا جذبہ ایمانی عروج پر ہے۔ فلسطین میں حماس کے بزرگ وجوانوں کے حوصلے تو بلندہیں ہی کہ وہ تباہی اور غموں کے پہاڑ تلے دب کر بھی اللہ تعالی کے ذکر اور اس سے مدد مانگنے میں مصروف ہیں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہاں کے بچے بھی تباھی دیکھ کر اپنے گھروں کے کھنڈرات پر بیٹھ کر تلاوت قرآن میں مصروف ہیں۔ایسی قوم کبھی شکست نہیں کھاسکتی۔ اس کی ایک مثال ایک دس سالہ فلسطینی بچے کی ویڈیو سامنے آئی ہے جو اپنے گھر کے ملبے پر بیٹھا قرآن پاک کی موجودہ صورتحال سے متعلقہ آیات کی تلاوت کر رہا ہے ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ فلسطینی اپنی قوت ایمانی سے یہودیوں کیخلاف جہاد کر رہے ہیں۔ اپنے ہی ٹوٹے گھروں کے ملبے پر بیٹھ کر یہ آیات تلاوت کرنا محض فہم کی پختگی کا ثبوت نہیں بلکہ مضبوط حوصلوں کی بھی دلیل ہے۔ اتنا آسان نہیں ہوتا جن گلیوں اور چوباروں میں انسان نے اپنا بچپن بتایا ہو اسی ملبے پر بیٹھ کر صبر و استقامت کی باتیں کرنا۔ اس بچے کے پیارے لہجے میں صبر و استقامت کے مفہوم والی یہ آیات اگر کوئی سمجھ پائے تو ہزاروں دروس سے بھاری ہیں۔ اب ذرا ایک دوسرے بچے کی بات سنیے ۔ وہ کہتا ہے کہ اسرائیل جب بھی بمباری کرتا ہے تو ہم گھر کے درمیانی حصے میں جمع ہو جاتے ہیں۔ دروازے اور کھڑکیوں سے دور۔ اس کے بعد میری ماں کی آواز آتی اور وہ پوچھتی ہے کہ کیا اس جنگی جنون کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کرتا؟ کسی ملک کا حکمراں مداخلت کیوں نہیں کرتا؟ کیوں سب خاموش ہیں؟ کیا وہ دیکھ نہیں رہے کہ یہاں کیسا قتلِ عام ہو رہا ہے؟ میں اماں سے کہتا: ” ماں جی، پلیز ایسی باتیں مت کریں۔” ” ہم کسی سے کچھ نہیں چاہتے۔” ” خدا کی قسم، اگر سیدنا جبریل علیہ السلام بھی ہمارے پاس اتر آئیں اور ہم سے پوچھیں کہ تم لوگ کیا چاہتے ہو ؟”” تو ہم جبریل کو وہی جواب دیں گے جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے آتشِ نمرود کے شعلوں میں گھر کر دیا تھا۔” ہمیں آپ سے کچھ نہیں چاہئے۔ ہاں، اللہ جل شانہ کی مدد، تو ہم اسی سے مدد چاہتے ہیں، کسی اور سے نہیں! فلسطین اور اسرائیل کی جنگ شاید اتنی گھمبیر صورتحال اختیار نہیں کرتی اگر امریکہ اسرائیل کی پشت پناہی نہ کرتا۔ ایک ذمہ دار ملک ہونے کے ناطے اسے معاملہ فہمی سے کام لیتے ہوئے دونوں کے مابین مذاکرات کی راہ ہموار کرنی چاہیے تھی مگر اس نے اسرائیل کا بھرپور ساتھ دیکر اس آگ کو مزید بھڑکا دیا جس سے حالات سنبھلنے کے بجائے مزید گھمبیر ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اسی تناظر میں عرب لیگ کے وزرائے خارجہ نے امریکہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کی مدد کرکے معاملے کو مزید خراب کر دیا ہے۔ اس وقت تمام مغربی ممالک اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہیں جبکہ مسلم امہ اب بھی مصلحتوں کا شکار نظر آرہی ہے۔ اگر امریکی لے پالک ریاست اسرائیل کی دہشت گردی کی حمایت میں الحادی قوتیں متحد ہو سکتی ہیں تو مسلمان ممالک کے متحد ہونے میں کیا امر مانع ہے۔
٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے