پیغمبروں کی عام زندگی کا اگر آپ مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنے ماننے والوں کے مقابلے میں اپنی زندگی کا معیار بلند نہیں رکھا ، یعنی کہ یہ نہیں کیا کہ چونکہ وہ پیغمبر ہیں تو ان کا مکان وسیع، عریض ،قطعہ راضی پر تعمیر ہو اور بلند اس قدر ہو کہ باقی آبادی ان کے قدموں میں آباد نظر آئے ۔ اپنے ماننے والوں کے مقابلے میں انہوںنے اپنی زندگی کو پر تعیش نہیں بنایا اللہ کے قریب ہونے کے باوجود دنیاوی خواہشات کی لسٹ تیار نہیں رکھی کہ جب بھی موقع ملا اللہ کے حضور عرض کردیں گے کہ فلاں فلاں سہولتیں عطا فرما دے ۔ بلند مرتبے کے ہوتے ہوئے معیار زندگی بلند نہیں رکھا۔ ایمان کی تعریف ہی یہی ہے کہ تقرب ہوا اور دنیا داری نہ ہو ، اسکا اظہار بھی نہ کیا جائے ۔ ہمارا یہ حال ہے کہ ایمان کوآرزوو¿ں اور دنیاوی خواہشات میں بدلنا چاہتے ہیں لیکن یہ چیک کیش نہیں ہوتا ، دنیاوی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے نماز اور تسبیحات شروع کرلی جاتی ہیں ، دولاکھ دفعہ درود پڑھا لیکن کار ابھی بھی دفتر سے نہیں ملی ، بھلا کار کا درود شریف کا تعلق ، درود کا تعلق تو منظوری سے ہے ، عافیت کی بہتری سے ہے ، دنیاوی خواہشات پوری کرنے کا سب سے کیا تعلق ، نمازیں پڑھ کے بھی کام نہیں ہوا ، اب یہاں سے انسان اکھڑ جاتا ہے ، نماز سے ذاتی مسائل حل کرنے کی بات نہیں ، مسائل کا نماز سے تعلق نہیں ، نماز کی بات ہی اور ہے یہ تو اللہ سے تعلق بنانے کی بات ہے ۔ قرآن پڑھنے کی خواہش پیدا ہوجائے تو یہ بڑی مقبولیت اور عافیت کی بات ہے ، ہم تو خوش قسمت ہیں کہ اللہ نے اپنے فضل وکرم سے سرکار دوعالمﷺ کی امت میں پیدا کیا ، محمدی ہونے کا شرف بخشا ، حضور کا غلام بناکر دنیا میں بھیجا ، ہمیں اپنے ایمان اور اللہ پر کامل یقین ہونا چاہیے ، ہمیں غریبی آئے تو مسلمان اور اللہ پر یقین رکھنے والے بنیں ، امیری ملے تب اس کا شکر یعنی غربت اور امیری دونوں صورتوں میں گلے شکوے اور حالات کی شکایتوں کے انبار نہ لگانا شروع کردیں ، صرف دعا نہیں دوا بھی استعمال کریں ، قرب الٰہی کی اگر خواہش ہو تو حالات کے بہتر ہونے یا بگڑنے پر تبدیلی حالات کا ذکر نہ ہوا اور نہ ہی کوشش ہو بس تقرب کی خواہش نیک اور صالح اعمال سادہ سوچ ، سادہ رہن سہن ہو ، اعتماد اللہ پر ور طلب دنیا کی یہ متضاد چیزیں ہیں ، ہم آخرت کے اور عاقبت کے سفر پر ہیں اور مانگتے دنیا ہیں ، قیام یہاں کا چاہیے ، ماضی حال مستقبل تو اللہ کے سپرد کردیں تو انسان سرخرو ہوجاتا ہے لیکن ان تینوں مراحل سے گزرنے کیلئے ہم اپنی کارہ گریاں کرتے ہیں ، اہم اپنے دشمنوں کو نیست و نابود کرنا چاہتے ہیں ، پرانے زمانے میں کہتے تھے کہ جرمنی کی توپوں میں کیڑے پڑجائیں کیونکہ عظیم جنگیں ہوئی تھیں ، دعاو¿ں سے کیڑے نہیں پڑتے بلکہ دفاعی طور پر مضبوط ہونے سے قوموںکا اور ملک کا دفاع ہوتا ہے ، تین سو تیرہ نے قوت ایمانی سے جنگ کا نقشہ بدل دیا کیا ہم اس ایمانی قوت کے معیار پر ہیں ، اللہ نے ہماری کوششوں اور دعاو¿ں کے بغیر اپنی رحمت سے ہمیں بصیرت عطا فرمائی، بسارت دی ، اعضا عطا فرمائے ، چلنے پھرنے سوچنے اور عمل کرنے کی طاقت اور صلاحیت عطا فرمائی وہ اللہ جس نے ہمیں بن مانگے بہت کچھ عطا فرمایا کیا ہمیں دنیا میں بھیج کر آسانیاں فراہم نہیں کرتے گا، یہ زندگی امتحان گاہ ہے وہ مالک دے کر بھی حساب لے گااور نہ دے کر بھی حساب لے گا، صبر اور شکر یہی مقام ہے کہ اس ذات کی مصلحت پر صابر اور شاکر رہا جائے ۔حقیقت میںہماری زندگی اور اس کے حالات پروردگار کے رحم ارو کرم پر ہیں۔ ہماری عادت ہے کہ پریشانیوں میں دکھوںاور تکلیفوں میں مقربین کی تلاش میں بھاگنا شروع کردیتے ہیں ، مقربین کی تلاش کو ہم نے فیشن بنالیا ہے ، مقرب سے مراد کیا ہے وہ یہ کہ جو پہلے زمانے کا ایمان تھا اس کیفیت میں موجودہ زمانے کے لوگ اسے اپنائیں اور عمل پیرا ہوں ، اس کیفیت کو زندہ کیا جائے ، تنہائیوں میں اللہ کی قربت رہے ، اللہ کے نیک بندوں کا تقرب اچھی بات ہے لیکن وہ اسلئے اچھی بات ہے کہ آپ کو بھی ان کے تقرب میں تقرب الٰہی ملے ، فرائض ایمانداری سے پورے ہوں ، ہلکا سا بخار ہوجائے تو بندہ بستر پر ڈھیر ہوجاتا ہے لیکن صحت مند ہوتے ہوئے اللہ کا شکر ادا ہو کہ اعضائے سلامت ہیں ، صحت بحال ہو اور اللہ کی یاد اور شکر انہ ہو تو تقرب الٰہی ہوتا ہے ، بچپن ہو جوانی ہو ، امیری ہو غریبی ہو ہر حالات میں اللہ کی یاد سے غافل نہ رہنا ہی تقریب ہے ، آج اللہ کو ماننے والا غیر اللہ سے ڈرتا ہے ، یہی ایمان کی کمزوری ہے ، جب زندگی کی حد مقرر ہے ، رزق مقرر ہے ، عزت اور ذلت بھی اسی کی طرف سے ہے تو پھر ڈر کس بات کا ہے ، صرف عمل پر عزت کا انحصار نہیں ، عزت اللہ کی طرف سے ہے ، عین ممکن ہے انسان بڑا نیک مشہور ہو لیکن کسی بھی مرحلے پر وہ بدنامی کے پھندے میں پھنس جائے ، یہ سب اس کے کرم کی باتیں ہیں ، جس شخص کو اپنی زندگی پسند نہ ہو اسے اللہ پر یقین نہیں ہوگا اس کا ایمان متزلزل ہوگا، یہ اللہ کی دی ہوئی زندگی ہے جس شخص کو زندگی میں ہر لمحے شکایتیں ہیں وہ خالق کے عمل کو پہچان نہیں رہا ، مان نہیں رہا ، اس کا ایمان کمزور ہوگا ، اللہ پر بھروسہ اور اعتماد یہ ہے کہ اللہ پر مکمل بھروسہ ہو چاہے جیسے حالات ہوں ، یہ مشکل کام ہے لیکن جو راتوں کی خاموشی میں دل گائے بیٹھے ہیں ، فکر والے غور کرنےوالے نیم شب کو اٹھنے والا خاموشی کی زبان سننے اور سمجھنے والے وہ دور کی آواز کو نزدیک سے سن لیتے ہیں ، وہ حقیقت کی آواز کو سننے کے قائل جاتے ہیں ، تعلق بن جائے تو راز کھلتے ہیں ، ایمان اور اعتماد بڑھتا ہے ، اپنی پہچان کرنے سے پہلے اپنے تعارف کی خواہش انسان کو اکثر نقصان پنچاتی ہے ، بہر حال یہ فطری بات ہے انسان اپنا تعارف ضرور کرواتا ہے اور اس پر وہ مجبورہے ، خود غرضی سے بچنا بڑی بات ہے ۔