رواں سال جنوری میں سابق وزیرا علیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے وزارت اعلیٰ چھوڑ کر پنجاب کی اسمبلی تحلیل کی تو محسن نقوی کی صورت میں الیکشن کمیشن نے ہمیں نیا نگران وزیرا علیٰ پنجاب دیا۔ اُس کے بعد اب اس نگران سیٹ اپ کو آٹھ مہینے ہونے کو آئے ہیں مگر ابھی تک الیکشن کی تاریخ کا کسی کو علم نہیں ہے، اسی طرح جنوری 2023ئہی میں خیبر پختونخوا کے نگران وزیر اعلیٰ محمد اعظم خان نے حلف اُٹھایا اور آج تک وہ وزیر اعلیٰ ہیں۔ جبکہ وفاق میں کافی بحث و مباحثے کے بعد نگران وزیر اعظم کا نام انوارلحق کاکڑ کا آیا جو نسبتاََ غیر معروف تھے۔ لیکن شاید فیصلہ کرنے والے بزدار فارمولا لاگو کرنا چاہتے تھے اسی لیے انہوں نے خاموش طبیعت شخصیت کا انتخاب کیا۔ جس پر کسی نہ کسی جانب آوازیں بھی اُٹھ رہی ہیں اور مینگل جیسے رہنما پرزور احتجاج بھی کر رہے ہیں۔ اور پھر اسی طرح سندھ کو بھی جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر کی شکل میں نگران وزیر اعلیٰ ملا اور بلوچستان میں بھی آج کل فیصلہ ہونا باقی ہے۔
اب جبکہ ملک بھر میں نگرانوں کی حکومتیں قائم ہو چکی ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنرل الیکشن کب ہوں گے؟ اس پر گزشتہ روز کا ایک واقعہ قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں، جس سے قارئین کو اندازہ ہوجائے گا کہ الیکشن کروانے والے کس قدر سنجیدہ ہیں۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں سندھ کے ضلع شکارپور کے 3 صوبائی حلقوں میں حلقہ بندیوں کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن عام انتخابات کب کروا رہا ہے؟ جس پر ڈی جی لائالیکشن کمیشن نے کندھے اچکا دئیے۔ چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ یعنی ابھی انتخابات کی کوئی تاریخ ہی طے نہیں ہوئی۔چیف صاحب کی یہ مسکراہٹ خاصی حیران کن اور بے بس نظر آئی اور دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے وہ صورتحال جاننے کے باوجود خاموشی اختیار کیے ہوئے تھے۔ خیر یہ فیصلہ تو ہوچکا ہے کہ الیکشن نئی حلقہ بندیوں کے بعد ہی کروائے جائیں گے، اور اگر ایسا ہوا تو سب سے پہلے پورے پاکستان سے اس حوالے سے پرپوزل مانگی جائیں گی، پھر اُس پر عمل درآمد کے لیے اقدامات کیے جائیں گے تب جا کر نئی حلقہ بندیوں کا تعین ہو سکے گا اور اس کے لیے 4سے 5مہینے درکار ہوں گے۔ اور پھر اُس کے بعد الیکشن پراسس کو کم از کم 2ماہ کا وقت درکار ہوگا۔ یعنی اگست 2023کے بعد فروری 2024ئمیں الیکشن ہو سکتے ہیں۔ اور اگر فروری میں بوجوہ الیکشن نہ ہوسکے تو پھر عید الفطر کے بعد یعنی اپریل مئی میں ہوں گے۔ لہٰذافی الوقت فوری الیکشن کا خیال ہمیں ذہن سے نکال دینا چاہیے۔
ہاں اس پر بحث ضرور ہونی چاہیے کہ کونسا نگران عہدیدار کس قدر ”فرمانبردار“ ثابت ہوگا یا کس قدر اصول پسند! لیکن اس وقت اسلام آباد میں لابنگ کے لیے اور نگران سیٹ اپ کے لیے مختلف وزرائاپنے قریبی رفقائکو وزیر لگانے کے لیے خاصے متحرک نظر آرہے ہیں۔ اور کاکڑ صاحب کی شکل میں ویسے بھی کئی لوگ بغلیں بجاتے رہ گئے تھے کہ نہ جانے اب کیا ہونے والا ہے۔ حالانکہ نگران وزیر اعظم کے لیے سابق وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے چند قریبی سعادت مندوں کے ناموں کو مارکیٹ کی نذر کرنے کی کوشش کی تو ایسا ردِعمل آیا کہ امید وار خود حیران اور پریشان ہو کر رہ گئے کہ آخر ایسا ردِ عمل کیونکر آیا؟ ایسے میں وزیراعظم ان کے لیے لابنگ اور اقتدار تک ان کی راہ کیسے ہموار کر پاتے۔ بالخصوص اسحاق ڈار اور فواد حسن فواد جیسے نام سامنے آنے پر ایک لطیفہ بے اختیار یاد آگیا۔ کلاس میں ٹیچر نے ایک بچے سے سوال کیا کہ پانچ ایسے جانوروں کے نام بتاو ¿ جو پانی میں رہتے ہیں تو بچے نے فرفر جواب دیا کہ مچھلی‘ مچھلی کے پاپا‘ مچھلی کی ماما‘ مچھلی کی پھپھو اور مچھلی کی خالہ۔ اس تناظر میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے زیادہ سے زیادہ اور کیا نام آسکتے تھے۔ اقتدار اور وسائل کا بٹوارا ہو یا کلیدی عہدوں کی بندر بانٹ‘ یہ خاندان سے باہر نہیں جاتے۔ کوئی امر مانع ہو تب کہیں جاکر سعادت مندوں اور سہولت کاروں کو باری دینے کا رِسک لیتے ہیں۔ تاہم ان کی تدبیریں اور ترکیبیں اُلٹی پڑنے کی اطلاعات بھی عام اور گردش میں ہیں۔ اطلاعات کے ساتھ ساتھ یہ خود بھی گردش میں آسکتے ہیں۔
قصہ مختصر کہ نگران وزیراعظم کی تعیناتی کا فیصلہ بلاشبہ آنے والے فیصلوں کی خبر دے رہا ہے۔ فیصلے کسی اور کے، قلم کسی اور کا اور دستخط کسی اور کے؟نگران وزیراعظم کی تعیناتی کاہے کا سرپرائز ہے؟ ایسا کیا ہوا ہے جس کی توقع نہ تھی۔ کیا یہ غیر متوقع ہے کہ نگران وزیراعظم کا فیصلہ راجہ ریاض اور شہباز شریف کے ہاتھوں ہوا ہے؟ یا یہ کہ یہ فیصلہ خود اُن کے لیے بھی توقع کے خلاف تھا؟ بات مقتدرہ کے اختیار کی نہیں، سیاسی خانوادے کے انحصار کی ہے۔حیرانگی کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ آخر ایسا کیا کام ہے جو انوارالحق کاکڑ نہ کر سکیں گے جو عمران خان اور شہباز شریف نے نہیں کیا؟ کاکڑ صاحب اسٹیبلشمینٹ کے حامی ہیں تو اس وقت اسٹیبلشمینٹ مخالف کون ہے؟ ن لیگ خوش ہے تو تحریک انصاف بھی غیر مطمئن نہیں۔
بہرکیف ملک کے آٹھویں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نفیس اور پڑھے لکھے سیاسی ورکر ہیں۔ یہ عہدہ ان کے لیے بہت سے چیلنجز لے کر آیا ہے۔ اس وقت ملک کا سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے اس لیے ان کے لیے چیلنجز بھی کٹھن ہوں گے۔اُن کو سب سے بڑا چیلنج ان کی غیر جانبداری ہو گا۔ انہیں جس دن نگران وزیراعظم نامزد کیا گیا تھا، وہ اس روز بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر اور سینئر رہنما تھے۔ الیکشن ایکٹ 2017ئکی شق 230 میں صاف طور پر لکھا ہے کہ نگران وزیراعظم غیر جانبدار ہو گا۔ کاکڑ صاحب اب سینیٹ اور اپنی پارٹی کی رکنیت سے مستعفی ہو چکے ہیں مگر اتنا کافی نہیں ہے۔ انہیں بہرحال غیر جانبداری نہ صرف دکھانا بلکہ ثابت بھی کرنا ہو گی۔ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ بہتر مراسم رکھنا ہوں گے اور سب سے بڑھ کر پی ٹی آئی کے ساتھ غیر جانبداری کے تمام تقاضے پورے کرنے ہوں گے۔ اسی میں جمہوریت کی جیت ہے۔اس کے علاوہ اُن کے لیے ایک اور بڑا چیلنج غیر جانبدار اور غیر متنازع کابینہ کا قیام ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ایسے وزیر چن لیے جائیں جو الیکشن ایکٹ 2017ئکی شق 230 پر پور ے نہ اتر سکیں۔ یقینا کابینہ کی تشکیل ایک مشکل مرحلہ ہے اور اقربا پروری سے اجتناب بھی ضروری ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کابینہ کے ارکان سیاسی جماعتوں کے رہنما ہوں یا ان کو کسی سیاسی رہنما کی اشیرباد حاصل ہو۔ نگران کابینہ میں پڑھے لکھے پروفیشنلز کو موقع ملنا چاہیے تاکہ ملک کے مسائل حل ہو سکیں۔
نگران حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج معیشت کی بحالی اور مہنگائی کا خاتمہ ہو گا۔ اس وقت معیشت ٹریک پرنہیں ہے، اور گزشتہ رات سے پٹرول ایک بار پھر ساڑھے سترہ روپے فی لیٹر بڑھ چکا ہے، ڈالر 7روپے سے زائد بڑھ چکا ہے، نومبر میں آئی ایم ایف کا نیا جائزہ ہونا ہے اس کے بعد ایک ارب ڈالر کی قسط موصول ہو گی۔ اس کے بعد اگلا جائزہ فروری 2024ئمیں ہو گا۔ اُس وقت بھی ملک میں نگران حکومت ہی ہو گی‘ اس لیے ضروری ہے کہ فیصلے وہ کیے جائیں جو وقت کی ضرورت اور ملکی مفاد میں ہوں۔ اگر اس بار آئی ایم ایف معاہدے میں رخنہ آیا تو عوام یہ بوجھ برداشت نہیں کر سکیں گے۔ مہنگائی آخری حدوں کو چھونے لگے گی اور پیداواری سرگرمیوں کی نا? مکمل ڈوب جائے گی۔ ملک کے معاشی حالات سنجیدگی کا تقاضاکرتے ہیں‘ اس لیے وزیرخزانہ کا تجربہ کار ہونا بہت ضروری ہے۔نگران وزیراعظم کو سیاسی استحکام کا چیلنج بھی درپیش ہو گا۔ گزشتہ ڈیڑھ سال سے ملک سیاسی طور پر شدید عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔ کبھی سٹرکیں بند ہو جاتی تھیں اور کبھی ریلیاں نکالی جاتی تھیں، کبھی لانگ مارچ کیا جاتا تھا اور کبھی دھرنے کی دھمکیاں دی جاتی تھیں۔ ملک کی سیاسی فضا میں شدت پسندی کا راج تھا۔ اب نگران حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی استحکام کے فروغ کے لیے کام کرے۔ تمام سیاسی جماعتوں سے تعلقات بہتر کرے تاکہ حالات مزید خرابی کا شکار نہ ہو سکیں۔
نگران وزیراعظم کو نو مئی کے پرتشدد واقعات کے چیلنج کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ ہزاروں افراد اس وقت جیلوں میں بند ہیں۔ کسی کے ساتھ بھی ناانصافی نہیں ہونی چاہیے۔ جو افراد شرپسندی میں ملوث ہیں، اور عادی مجرم ہیں، اُنہیں سزا ملنی چاہیے، مگر جن کا ریکارڈ کریمنل نہیں ہے، اُنہیں چھوڑ دینا چاہیے، انہیں بلاوجہ مقدمات کی چکی میں نہیں پیسنا چاہیے۔ وہ اس وقت نگران حکومت کے قیدی ہیں۔ جیل میں جو سہولتیں ایک سابق وزیراعظم کو ملتی ہیں‘ انہیں بھی ملنی چاہئیں۔بہرحال ”نگرانو!“ اس ملک کو مزید پرتشدد ہونے سے بچا? اور بیچ کا راستہ نکال کر سیاستدانوں کی عزتیں بحال کروانے میں مدد کرو۔ ورنہ یہ یہاں کوئی کسی قابل نہیں رہے گا اور ملک خاکم بدہن خانہ جنگی کی طرف چلا جائے گا!
٭٭٭٭٭