کالم

قصہ 2 وائرل ویڈیوز کا…!! ”توبہ توبہ ”

دو ویڈیوز آجکل بہت وائرل ہیں،ایک میں انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس کانسٹیبل پاسنگ آوٹ پریڈ پر کانسٹیبل سے ان کی تعلیم کا پوچھ رہے ہیں اور دوسری وڈیو ڈاکٹر امجد کی دنیا سے رخصتی کے سفر پر وارل ہے۔پہلی وڈیو میں آئی جی پولیس کانسٹیبل سے پوچھ رہے ہیں آپ کی تعلیم کیا ہے؟ ایک نے بتایا کہ وہ الیکٹریکل انجینئر ہے، دوسرے نے بتایا مکینیکل انجینئر اور تیسرے کا جواب ماسٹر آف کمپیوٹر سائنس… یہ وڈیو یہی پر بند ہو جاتی ہے۔ہو سکتا ہے آگے چل کر کسی نے یہ بھی بتایا ہو وہ ڈنگر ڈاکٹر ہے۔لیکن اس کے بعد انٹرویوز کا سلسلہ نہیں دکھایا گیا کہ سسٹم پر کءسوالیہ نشان نہ اٹھ جائیں جب کہ اٹھ چکے ہیں یہ وہ زرخیز دماغ ہیں جن کے پاس پروفیشنل ڈگریاں تھیں اور چلے آ? کانسٹیبل بھرتی ہونے۔یہ سن کر دیکھ کر رونا آتا ہے اگر یہ اپنی فیلڈ میں کسی مکینک کی ہی جاب پر بھرتی ہوئے ہوتے تو اس پولیس کی جاب سے بہتر تھا پھر کوئی ان سے سوال بھی نہ پوچھتا مگر یہ پروفیشنل ڈگری کے ساتھ کانسٹیبل کےلئے بھرتی کیوں ہوئے؟ ویسے بھی کانسٹیبل کی پوسٹ پر ان کی ڈگریوں کی پولیس میں ضرورت بھی نہیں ہے۔سمجھ نہیں آتی کہ کیا سوچ کے انہیں کانسٹیبل کے لے محکمہ والوں نے بھرتی کیا۔ اس پر مختلف رائے سننے کو ملیں کسی نے کہا بیروزگاری کی وجہ سے بھرتی کیا گیا کسی نے کہا اعلی تعلیم کے ہونے سے انہیں جلد پروموشن مل جائے گے کسی نے کہا یہ ڈگریاں والے نہیں ڈپلومہ والے ہونگے یا جعلی ڈگریوں والے ہونگے پولیس میں۔ کسی نے کہا پولیس میں رشوت کے چکر جلد امیر بننے کےلیے بھرتی ہوئے ہیں۔ بحرحال اب یہ بھرتی ہو چکے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کانسٹیبل کی پوسٹ کیلیے کیا میٹرک سے کم مڈل پاس کو کبھی کسی نے بھرتی کیا ہے۔جواب نہیں میں ملتا ہے۔میٹرک یا ایف اے کی تعلیم سے زیادہ تعلیم والوں کو کیوں بھرتی کیا گیا ہے۔ لگتا ہے انہیں کانسٹیبل اس لیے بنایا گیا ہے کہ بچارے یہ بے روزگار تھے۔پھر سوال ہے کیا پولیس فلاحی ادارہ ہے جو بے روزگاروں کو بھرتی کا اختیار رکھتی ہے جب کہ ایسا نہیں ہے۔ جس طرح سے میٹرک سے کم والا مناسب نہیں سمجھا جاتا ایسے ہی اس سے زیادہ تعلیم کا حامل بھی موزوں نہیں سمجھا جاتا۔جنھوں نے انجینئرنگ کر رکھی ہے وہ اپنی ہی فیلڈ میں کام کرتے تو بہتر تھا۔اب لگتا ہے ان پروفیشنل ڈگریوں والوں نے اپنے والدین کے پیسے استاتذہ کا اور اپنا وقت ضائع کیا ہے۔ یہ لوگ تو ذہنی طور پر ہی ٹھیک نہیں لگتے۔ بطور کانسٹیبل کے جاب کرنا اور انہیں کانسٹیبل کی جانب دینا دونوں پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں اور سمجھ سے بالا تر ہے۔ انسپکٹر جنرل پولیس نے ان سے تعلیم کا پوچھ کر کیا بتانے کی کوشش کی ہے ۔ کیا ایسا کرنے سے پولیس کا معیار بلند ہو گیا ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہوا۔ استاد ذوق یاد آ گئے
برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہو گا؟
پولیس کا معیار بلند دکھانے یا ان پر ترس کھا کر انہیں بھرتی کیا ہے کہ یہ بچارے بیروزگار ہیں تو ہمیں بھی ان کی سلیکشن کرنے والوں پر محکمہ پر ترس آ رہا ہے۔ اللہ ہی ان کا حامی و ناصر ہو۔ اب ضروت یہ بھی ہے کہ جس تعلیمی ادارے کی ڈگریاں ہیں ان کی چھان بین کی جائے کہ ڈگریاں انکی جعلی ہیں یا اصلی؟ یہ سچ ہے ہمارے ہاں ایسے ادارے بھی ہیں جن میں کسی ڈگری کی ضرورت نہیں بس ہوشیار، چالاک اورعزت بے عزتی کی پرواہ نہ کرنےوالا ہو۔جعلی ڈگری کے ساتھ ان خوبیوں کے مالک لوگ اب سیاستدان وکیل، فوجی، پولیس، لیکچرار، ڈاکٹر، انیجینیر، ڈاریکٹر ایکٹر بزنس مین ہیں. یہ سچ ہے پیسے کو سب کچھ سمجھنے والوں کا نہ دماغ ہوتا ہے اور نہ ضمیر اور نہ ہی یہ بےعزتی کو معیوب سمجھتے ہیں۔اس لئے انکا سب کچھ ہی پیسہ ہوتا ہے اس کیلئے یہ کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔ لہٰذا ان سے بچا جائے ان سے دور رہا جائے۔عجیب بات ہے کہ انسان موت سے ڈرنا ہے اور موت سے بچنے کی کوشش کرتا ہے مگر جہنم میں جانے سے بچنے کی کوشش نہیں کرتا۔جب کہ جہنم میں جانے سے بچا جا سکتا ہے مگر موت سے نہیں بچ سکتے۔ پیسے کی لت جس کو پڑی جاتی ہے وہ انسان نہیں رہتا رسوا ذلیل و خوار ہو جاتا ہےانجام برا ہوتا ہے ۔ دوسری وڈیو ایک ایسے ہی کریکٹر (شخصیت) کی وائرل ہے جسے دیکھنے والا کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے توبہ توبہ کرتا ہے! جب یہ شخص بیماری کی حالت میں اسپتال میں داخل تھا۔اس کی بیماری کو دیکھ کر ڈاکٹروں نے اسے بتا دیا تھا کہ زندگی کے دن تیرے بہت کم ہیں لہٰذا اپنے معمولات زندگی ٹھیک کر لیں کیونکہ روز اسپتال کے باہر اس مریض کے خلاف اس کے ڈسے ہوئے لوگ جلوس نکالا کرتے تھے۔ یہ وہ مریض تھا جس کا باپ ڈپٹی کمشنر رہ چکا تھا یہ خود ڈاکٹر تھا۔ ایڈن ہاﺅسنگ سوسائٹی کا مالک تھا۔ نیب میں اس پر بی او آئی اور ہا¶سنگ سوسائٹی کے کیس بھی چل رہے تھے۔ پیسے کی لالچ اور فراڈ سے یہ مظلوموں کے کروڑوں نہیں اربوں کھا چکا تھا۔اب اسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں تھا اس کی بخشش کے دروازے ابھی کھلے تھے مگر اس نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا اور یہ بد قسمت انسان مظلوموں کو رقمیں واپس لوٹائے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہوگیا اور مظلوم بیچارے روتے ہی رہ گئے۔ مرنے کے بعد یہی مظلوم بینرز اٹھائے اس کا پیچھا کرتے قبرستان تک پہنچ گئے،یہ قبر کے باہر کا خوفناک منظر کا وڈیو آج بھی وارل ہے۔ شائد اسے یقین تھا کہ میرے بیٹے کا سسر جو سابق چیف جسٹس پاکستان اور اس کا اپنا سسر سابق آئی جی پنجاب پولیس کے رشتہ دار ہونے پر مجھے قبر میں لیٹنے سے کوئی روک نہیں سکے گا۔ اس سے قبل بھی چیف جسٹس اسے اور اس کے بچوں کو عدالتوں سے مکھن کے بال کی طرح نکال کر ملک سے باہر جانے میں مدد کر چکے تھے۔ اس کے مقدمات میں اس کی مدد کر چکے تھے اب بھی مرنے کے بعد انہوں نے اس کا اتنا ساتھ دیا کہ پولیس کی موجودگی میں اسے قبر میں اتر جانے میں اس کی مدد کی۔ایسے واقعات سے جوڈیشری اتنی بد نام ہو چکی ہے کہ لوگ اب کہتے ہیں کیس میں وکیل کیا کرنا ججز کر لیا کرو ۔ اس بات میں وزن اس وقت دیکھنے میں آیا جب ایڈن سوسائٹی کے مالک ڈاکٹر امجد نے اپنے کیس ختم کرانے پریشر کم کرنے کیلئے اسی فارمولے کو عملی شکل دیے کر اس سے بھی دو ہاتھ آگے بڑھ گیا جب سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اس کے کیس پر سو موٹو لیا تھا کہا جاتا ہے ڈاکٹر امجد کے وکیل نے چیف جسٹس سے اس کیس کے دوران ملزم امجد سے ملایا پھر یہ ملاقات رشتے میں بدل گئی۔ کسی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ جج صاحب ایسے بندے سے ملیں گے جن کا کیس ان کے پاس لگا ہو اور اسے رشتہ دار بنا لیں گے۔ مگر ایسے ہوا۔یہی وجہ ہے ان کے بعد جتنے بھی چیف جسٹس آ ئے سب نے مختلف انداز کے اپنے اپنے گل کھلائے۔لگتا ہے یہ پہلا واقع تھا جب مظلوموں نے مریض کو اس کے اسپتال میں داخل ہونے کے دوران اور پھر اس کی قبر میں دفنانے تک اس کا پیچھا کئے رکھا ہو جلوس نکلا احتجاج کیا ہو۔قبر میں جانے سے روکتے رہے ہوں۔اس کی ارب پتی اولاد باپ کو دفنانے نہ آئی اس کیلئے لوگ ہم سے ہمارے باپ کی دی گئی رقوم ہم سے چھین لیں گے،ہمیں مار دیں گے۔بچوں نے ناجائز دولت کا تو خیال رکھا مگر اولاد نے اپنے باپ کا خیال نہ رکھ سکی یہ وڈیو عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے کافی ہے جو کہتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ پیسہ ہی عزت ہے بپیسہ ہی سب کچھ ہے مگر یہ غلطی پر ہیں۔اس واقعہ نے ثابت کر دیا کہ ایسا کرنے والوں کو نہ انہیں اس دنیا میں ارام ملا اور نہ اخرت میں آرام ملے گا۔ بطور انسان کے جہاں غلط کام ہوتا ہوا دیکھیں اسے روکیں، سمجائیں اس پر بات کریں، تنقید برائے اصلاح کریں۔ایسا کرنا یہ آپ پر فرض ہے معاشرے میں فرد بن کر رہتے ہوئے اپنا رول کم از کم اس چڑیا جیسا ہی ضرور ادا کریں جو پیغمبر حق حضرت ابراہیم علیہ السلام کیلئے جلائی گئی آگ نمرود کو بجھانے کیلئے اپنی چونچ میں پانی لا کر ڈالتی تھی۔ شعر عرض ہے، نہ بنا¶ گھر اپنے بادشاہ جیسے شہنشاہ جیسے۔ اس دنیا نو کچی تاں سمجھو نہ کہ پکا مکاں سمجھو، انسان نو انسان سمجھو نہ کہ مجھ گاں سمجھو۔ ہم ایف بی ار کو تو حساب دے نہیں سکتے، آخرت کا حساب ہم کیا دیں گے۔ چرند پرند جانور ہم سے بہتر ہیں جو مال اکھٹا نہیں کرتے ۔ جبکہ انسان مال اکٹھا کرتا ہے اس لیے وہ اپنے مال اور اعمال کا حساب بھی دے گا ۔ نادان ہے انسان پھر بھی گڑبڑ کرتا ہے۔ توبہ نہیں کرتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے