کالم

12 جولائی کا فیصلہ – حقیقی نظر ثانی لازم ہے!

شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کے بعد آئینی ترمیم کی جائیگی: عرفان صدیقی

تحریر: عرفان صدیقی
معلوم نہیں شاعر کون ہے اور پورا شعر کیا ہے؟ لیکن فارسی زبان کا ایک مصرع ضرب المثل کا مقام حاصل کر چکا ہے۔
چوں کفراز کعبہ برخیز دکجا ماند مسلمانی
(جب نعوذ باللہ ، کعبہ ہی سے کفر پھوٹنے لگے تو مسلمانی کہاں جائے؟)
آئین کی محافظ اور اس کی تشریح و تعبیر کی ضامن عدلیہ کے حالیہ زیر بحث فیصلے پر اس سے زیادہ پر مغز معنی خیز اور برجستہ و بر محل تبصرہ ممکن نہیں ۔ 12 جولائی کے شاہر کار فیصلے کی کوکھ سے جنم لینے والے بحران کا سادہ و معصوم مفہوم یہ ہے کہ اگر کچھ جج صاحبان تعبیر و تشریح کے اختیار کوحد تصور سے بھی کہیں آگے تک وسعت دیتے ہوئے اپنی مرضی کا آئین لکھنا شروع کر دیں ، آئین کے نہایت واضح ، غیر مبہم اور دو ٹوک آرٹیکلز کو کچراٹوکری میں ڈال دیں، پارلیمنٹ کی طویل ریاضت اور اتفاق رائے سے بنائے گئے قوانین کو غیر مستعمل کپڑوں والی کوٹھڑی میں پھینک دیں اور آئین کے ایک حصے کو معطل کرتے ہوئے محض اپنے جذبات کی مستی میں واضح طور پر آئین و قانون سے متصادم فیصلے کرنے لگیں تو ریاست کس خیمہ عافیت میں پناہ لے اور آئین کی ماں، پارلیمنٹ کس دیوار گریہ سے سر ٹکرائے؟
آئین و قانون سے متصادم اور جذبہ و احساس کی ترنگ میں دیا گیا ایک شاہکار فیصلہ مئی 2022 میں آیا۔ دو جمع دو چار کی طرح واضح آرٹیکل 63 اے قرار دیتا ہے کہ چند مخصوص معاملات میں، اگر کوئی رکن پارٹی ہدایات کے خلاف ووٹ دے تو وہ نا اہل قرار پائے گا۔ بات یہاں ختم ہو جاتی ہے۔ یہ آرٹیکل 1997 میں اتفاق رائے سے منظور کی گئی چودھویں ترمیم کا حصہ تھا۔ 217 ارکان پر مشتمل قومی اسمبلی میں سے 191 نے اس کے حق میں ووٹ ڈالا ۔ مخالفت میں کوئی ووٹ نہ آیا ۔ 2010 میں اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے اسے مزید واضح شکل دی گئی ۔ تب اٹھارھویں ترمیم کو 342 میں سے 292 ووٹ ملے۔ مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا۔ ستائیس سال سے آئین میں موجود اس آرٹیکل کا معاملہ جسٹس عطا بندیال کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی بینچ کے سامنے آیا تو جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آئین واضح ہے۔ ارکان نا اہل ٹھہریں گے اور بس جسٹس عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر کی معروف تکون نے از خود آئین میں ایک اضافی شق ڈالتے ہوئے فیصلہ دیا کہ ایسے ارکان کے ووٹ بھی شمار نہیں ہوں گے۔ شاید ان کے پیش نظر بھی مکمل انصاف کا ملکوتی تصور تھا کیونکہ ایک نئی شق ڈالے بغیر نہ حمزہ شریف کی حکومت ختم ہو سکتی تھی نہ چوہدری پرویز الہی وزارت اعلی کی کرسی سنبھال سکتے تھے۔ دو کے مقابلے میں تین بچوں کے فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ عملا صرف ایک حج نے اس آئینی شق کے چیتھڑے اڑا دیے جسے مجموعی طور پر دو قومی اسمبلیوں کے 483 ارکان نے اپنی پر جوش حمایت سے آئین کا حصہ بنایا تھا۔ اگر اس وقت امریکہ، برطانیہ اور بھارت کی طرح ہمارے ہاں بھی آئین شکنی کی اس واردات پر ہاہا کار مچتی اور پارلیمنٹ مقدور بھر مزاحمت کرتی تو شاید 12 جولائی کو وہ فیصلہ سامنے نہ آتا جس نے نہایت دیدہ دلیری کے ساتھ نہ صرف الیکشن ایکٹ 2017 کی دھجیاں اڑا دیں بلکہ آئین کی متعدد شقوں کو بھی معطل ، مفلوج اور مسخ کر کے مکمل انصاف کا طلسمی کبوتر ہوا میں چھوڑ دیا اور کہا اسے عدالت کا
فیصلہ مجھو۔ قانون کا ایک عام سا طالب علم بھی اتنی بات جانتا ہے کہ تشریح و تعبیر کے نام پر نہ آئین کی واضح شقوں کو مسخ کیا جا سکتا ہے، نہ مرضی کا آئین لکھا جا سکتا ہے۔ افسوس کہ آٹھ بج صاحبان نے یہ سب کچھ کیا۔
آئین کہتا ہے کہ انتخابی کامیابی کا نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد تین دن کے اندر اندر ہر آزاد رکن کو کسی سیاسی جماعت میں شامل ہو جانے یا آزاد رہنے کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ 80 آزاد ارکان آئینی تقاضا پورا کرتے ہوئے 22 فروری 2024 کوسنی اتحاد کونسل نامی جماعت میں شامل ہو گئے ۔ اس حیثیت میں 28 جولائی کو قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف بھی اٹھا لیا۔ سنی اتحاد کونسل کی باقاعدہ پارلیمانی پارٹی وجود میں آگئی۔ زرتاج گل صاحبہ پارلیمانی پارٹی لیڈر بن گئیں ۔ کہانی تمام ہوگئی ۔ اس کے بعد کوئی ایک بھی رکن اپنی حیثیت تبدیل کرنے کے لئے ہائی کورٹ گیا، نہ سپریم کورٹ ، الیکشن کمشن سے رجوع کیا نہ پیکر سے ایسی کوئی استدعا کی۔ انہیں معلوم تھا کہ ہم نے پانچ سال کے لئے اپنے سیاسی مقدر کا فیصلہ کر لیا ہے۔ سنی اتحاد کونسل نے البتہ خصوصی نشستوں کے لئے عدالتوں سے رجوع کیا۔ پشاور ہائیکورٹ جے پی ۔ ٹی۔ آئی ہمیشہ پناہ گاہ بجھتی رہی ) کے پانچ رکنی بینچ نے اتفاق رائے سے یہ پیشن مستر د کر دی اور قرار دیا کہ آئین وقانون کے تحت آپ کسی خصوصی نشست کے حقدار نہیں۔ سپریم کورٹ میں اپیل آئی تو پی۔ٹی۔ آئی جانتی تھی کہ وہ جنگ ہار چکی ہے ۔ سو اس نے عدالت سے رجوع ہی نہ کیا۔ کنول شوذب ذاتی حیثیت سے گئیں لیکن ان کی استدعا بھی یہ نہ تھی کہ خصوصی نشستیں پی ۔ ٹی۔ آئی کو دی جائیں۔ ان کے وکیل سلمان راجہ نے کچھ پر جوش حج صاحبان کی اکساہٹ کے باوجود یہی کہا کہ میرا مطالبہ پی ٹی آئی کو نشستیں دینے کا نہیں۔ آپ خود دے دیں تو آپ کی مرضی ۔ سونح صاحبان نے آ دیکھا نہ تا ، اپنی مرضی کے لئے آئین و قانون کی متعدد شقیں معطل کر دیں۔ درخواست گزار سنی اتحاد کونسل سے سماری نشستیں چھین لیں اور پی ٹی آئی کی گود میں ڈال دیں۔ بالکل ایسے جیسے کسی راہ چلتے کو پکڑ کر کہا جائے _ آ آ تمہاری دس کروڑ روپے کی لاٹری نکل آئی ہے۔ وہ کہتا رہے کہ کیسی لاٹری میں نے تو کبھی کوئی ٹکٹ ہی نہیں خریدا ؟ اسے پکڑ دھکڑ کر بنک لایا جائے اور دس کروڑ روپے اس کی جیبوں میں ٹھونس دیے جائیں۔ اس لاٹری فیصلے نے آئین کے آرٹیکل 187 کو اسم اعظم بنا کے رکھ دیا ہے۔ رسوائے زمانہ نظریہ ضرورت اور نظریہ سہولت کے بعد اگر اس اسم اعظم کو بھی نظیر بنا لیا گیا تو آئین کے باقی 279 آرٹیکلز مفلوج و معطل ہو کر رہ جائیں گے۔
اس صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر وکلا کے سب سے معتبر ادارے، پاکستان بار کونسل نے اپنی قرارداد میں پارلیمنٹ کی بالا دستی کو اجاگر کرتے ہوئے عدلیہ کو پیغام دیا ہے کہ وہ آئینی وقانونی حدود میں رہے۔ بینچ کے دو معزز جج صاحبان ، جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم افغان کے اختلافی نوٹ نے چودہ طبق روشن کر دیے ہیں اور یہاں تک کہہ دیا ہے کہ کسی بھی آئینی ادارے پر اس غیر آئینی فیصلے کی پاسداری لازم نہیں ۔
کیا یہ ممکن ہے کہ نظر ثانی کی درخواستیں سنتے ہوئے ، آٹھ بج صاحبان واقعی پورے خلوص، نیک نیتی اور سنجیدگی کے ساتھ اپنے فیصلے پر نظر ثانی فرمائیں۔ ان میں سے چار معزز جج صاحبان کو چیف جسٹس کے پر وقار منصب پر بیٹھنا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ان کے کندھوں پر اس بے حد متنازع اور خلاف آئین فیصلے کا بوجھ نہ ہو اور وہ زندگی بھر اس کی صفائیاں نہ پیش کرتے رہیں ۔ وکلا کہتے ہیں کہ نظر ثانی کے لئے
سطح پر تیرتی ہوئی Floating on the surface) کوئی غلطی دکھائی دینی چاہیے۔ اس فیصلے میں تو آئین کے کتنے ہی آرٹیکلز اور قانون کی متعدد شقیں بے جان لاشوں کی طرح تیرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ ان کی مسیحائی آٹھ بج صاحبان پر لازم ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے