کالم

14اگست۔۔۔۔۔تجدےد عہد کا دن

ماہ اگست نئے شگوفے پھوٹنے، ہری بھری گھاس کے نمودار ہونے کا موسم ہے، اسی ماہ آزادی کی خاطر بہت مسلمان شہےد ہوئے، بہت بچھڑ گئے،بہت سی آنکھوں مےں شائد آج بھی اپنوں سے ملنے کی آس باقی ہو۔ وطن عزےز پاکستان کے معرض وجود مےں آنے کا بدلہ لےنے کےلئے سےنکڑوں مسلمان مردو زن کو تہہ تےغ کر کے خون کی ندےاں بہا دی گئےں، مسلمان لڑکےوں کو بے آبرو کر کے نےزوں کی انےوں پر چڑھا دےا گےا لےکن ان کی مدد کو کوئی نہ پہنچ سکا۔ سچ ہے غلامی اﷲ کی مخلوق کے فطری اور جبلی تقاضوں سے لگا نہےں کھاتی۔ ےہی سبب رہا کہ حضرت انسان اپنی محبوب ترےن شے ےعنی متاع حےات بھی آزادی پر نچھاور کرتا رہا۔ مسلمانان ہندنے بھی دوہری غلامی سے نجات حاصل کرنے کےلئے فقےدالمثال قربانےاں دےں۔ ےہ خطہ اس لئے حاصل کےا گےا کہ ےہاں عدلےہ آزاد ہو گی، سےاست آزاد ہو گی، آئےن کی بالا دستی ہو گی لےکن افسوس گزشتہ برسوں مےں اس آزاد مملکت کےلئے قائد اعظم کے راہ نما اصولوں سے محرومی ہی مقدر رہی۔ کہنے کو ہم اےک آزاد قوم ہےں اےک آزاد، خود مختار، مقتدر اور زندہ قوم۔ قدرت نے بھی ہمےں اپنی تمام تر نعمتوں سے نوازاہے درےا ، پہاڑ ، رےگستان ، آبنائے، معدنےات، بہت اہم محل وقوع، جوہری توانائی کا حامل لےکن آزاد ہو کر بھی ہم ابھی تک خوئے غلامی سے نجات حاصل نہےں کر سکے۔ ہم سب کچھ لٹا کر بھی ابھی تک غلام ہےں۔ذاتی مصلحتوں پر قومی مفادات کی قربانی بھی غلامی کی اےک شکل ہے۔ہم نے دو قومی نظرےہ سے منہ موڑ لےا۔ بانی پاکستان کا ےہ ارشاد کہ ہم پاکستان اس لئے حاصل کرنا چاہتے ہےں تاکہ اسلام کے اصول حرےت و اخوت اورمساوات کا عملی نمونہ دنےا کے سامنے پےش کر سکےں لےکن ہم نے اس کے برعکس آزادی کا مطلب مادر پدر آزادی ےعنی حصول مفاد کی آزادی اور نظم و ضبط سے آزادی ہی لےا۔ ہم ہمےشہ اپنی آزادی کے تہوار کو بے ہنگم شور موسےقی مےں اپنی ناکامےوں کو چھپا کر مناتے رہے۔ آزادی ےقےناً نعمت کبریٰ ہے اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے لےکن حصول آزادی کے صرف چوبےس سال بعد ہی وطن عزےز دو لخت ہو گےا۔ در اصل ہم اپنی آزادی کی حفاظت مےں ناکام رہے۔ آج بھی پاکستان مےں وزارت داخلہ پر اےف بی آئی اور وزارت خزانہ پر عالمی بنک اور آئی اےم اےف قبضہ جمائے ہوئے ہےں۔ آج کا تلخ سوال ےہی ہے کہ آےا پاکستان بن جانے کے بعد پاکستان بنانے کے عظےم مقاصد کو حاصل کر لےا گےا ہے۔ اس کا جواب ےہی ہے کہ وہ مقاصد حاصل نہےں کئے جاسکے۔ آج بھی وطن عزےز کے باسی بے حساب محرومےوں اور ماےوسےوں کا شکار نظر آتے ہےں۔ وطن عزےز کا مراعات ےافتہ طبقہ دولت کے ہر قسم کے وسائل پر پوری طرح قابض ہے۔ آج بھی کروڑوں کی تعداد مےں ےہاں کے باسی غربت کی سطح سے نےچے زندگی بسر کر رہے ہےں۔ ان کو غربت، بےماری، بے روزگاری اور جہالت نے بری طرح جکڑ رکھا ہے۔ حکومتےں بنتی ہےں، ٹوٹتی ہےں مگر ان کی حالت مےں کوئی تبدےلی رونما نہےں ہوتی ان کے بچے تعلےم سے محروم اور ان کے علاج کےلئے علاج گاہےں ناےاب ہےں۔ ہم تو غالب کے اس شعر کی مانند ہےں
رومےں ہے رخش عمر کہاں دےکھئے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب مےں
وطن عزےز کی ڈگمگاتی ناﺅ فقط اﷲ کے بھروسے پر بے رحم تھپےڑوں کی زد مےں بہتی چلی جا رہی ہے۔ دنےا مےں جو قومےں اپنے لئے کوئی لائحہ عمل، دستور اور منشور مرتب کر کے اس پر عمل پےرا ہوتی ہےں وہی دنےا مےں کامےاب اور سرخرو ہوتی ہےں۔1945 ءکی عالمی جنگ نے کورےا کا بدترےن حشر کےا لےکن آج وہ دنےا کی دس بڑی صنعتی قوتوں مےں شامل ہے باوجود اس کے کہ اس ملک کے پاس کوئی معدنی دولت نہےں اس کی فی کس آمدنی اٹھارہ ہزار ڈالر سے زائد ہے۔ جرمنی اور جاپان کی مثالےں بھی ہمارے سامنے ہےں ان قوموں نے زرعی استعداد نہ ہونے کے باوجود ٹےکنالوجی مےں اس قدر ترقی کر لی کہ ان کی معاشی صورتحال صنعت کی بنےادوں پرہے۔ تامل سنہالہ تنازعہ نے سری لنکا کی چولےں ہلا کر رکھ دےں لےکن ان حالات مےں بھی اس کی فی کس آمدنی پاکستان اور بھارت کے مقابلہ مےں ستر فےصد سے زےادہ رہی۔ چےن جو ہم سے بعد مےں آزاد ہوا کےمونسٹ انقلاب کے وقت وہ بھارت سے بھی پسماندہ تھا مگر آج وہ دنےا کی تےسری بڑی عالمی قوت ہے۔ آزادی کے وقت ملائےشےا کی شناخت ٹن کی معدنےات اور پام آئل تھی اور اس کا شمار پاکستان سے بھی زےادہ غرےب ممالک کی صف مےں ہوتا تھا لےکن آج وہ جنوبی مشرقی اےشےا کا ترقی ےافتہ ملک کہلاتا ہے۔ بھارت نے بھی جمہوری و اقتصادی لحاظ سے کچھ ترقی کر لی ہے لےکن مملکت خداداد پاکستان آج کس مقام پر کھڑی ہے؟ ہم تو ابھی تک اپنے سےاسی، سماجی اور معاشی نظام کا تعےن ہی نہےں کر سکے۔ ہر دور مےں ہماری تغےر پذےر پالےسےوں، الجھاﺅ، تضادات، انتشار اور بے ےقےنی کی کےفےت نے ہمارے فکرو شعور کو پختہ ہی نہ ہونے دےا۔ہم ہنوز اپنی آزادی کی بقاءاور نظرےاتی و تہذےبی تشخص کی حفاظت کی جدوجہد مےں مصروف ہےں ہم نے تو ہمےشہ جمہورےت کو پامال کےا سےاست کو قابل نفرت بناےا قومی مفاد ذاتی مفاد سے مقدم نہےں جانا بغض، حسد، صوبائےت، علاقائےت اور لسانےات کو پروان چڑھاےا۔ مختلف جرائم کا قلع قمع نہےں بلکہ آبےاری کے سامان کئے، سماج مےں امےر اور غرےب مےں تفاوت کو آسمان بنا دےا، دہشت وحشت اور تشدد کو شعار بنا لےا۔ آج اندھا دھند گولےاں، بم دھماکے اور خودکش بمبار معصوم اور بے گناہ انسانوں کو کو موت کے منہ مےں دھکےل رہے ہےں، اب تو کوئی فرد خود کو محفوظ نہےں سمجھتا۔آج چودہ اگست کا دن ہم سے سوال کر رہا ہے کہ فلاح، خےر، انسانےت، بے تعصبی، نےکی اور وسےع النظری کب ہمارے سماج کا حصہ بنے گی؟ آزادی کی بقا کےلئے پاک فوج کی قربانےاں لازوال ہےں جو ہمےشہ ےاد رکھی جائےں گی۔ دہشت گردی کے خاتمے کی ملک دشمنوں سے جنگ مےں پاک فوج اور دےگر شہادت پانے والوں کا جو لہو جو وطن کی آزادی قائم رکھنے مےں بہہ رہا ہے ہم انہےں سلام عقےدت پےش کرتے ہےں۔ حقےقی جشن آزادی منانے کا مزہ اسی وقت آئے گا جب ہم من حےث القوم اےک دوسرے کا دکھ درد سمجھےں گے اور باہمی احترام اور روا داری قائم کرینگے ۔ آج چودہ اگست کا دن ہم سے متقاضی ہے کہ ہماری قےادتےں اور اشرافےہ اپنی ماضی کی غلطےوں کا اعتراف کرےں، اپنے اندرونی تضادات ذاتی اور وقتی مفادات سے بالا تر ہو کر ملکی استحکام کےلئے آئےن و قانون اور مےرٹ کی بالا دستی کو ممکن بنائےں، ملکی تعمےر نو مےں اپنا فعال کردار ادا کرےں۔ نئی آنےوالی حکومت سے عوام نے بہت سی توقعات وابستہ کر لی ہےں ۔ماضی اس امر پر شاہد ہے کہ اقتدار کی فصےلوں سے غرےبوں کےلئے کبھی کوئی خےر کی خبر نہےں آئی اس طبقے کو تو بس اقتدار بچانے ،ہتھےانے ،سنبھالے رکھنے اور اس کےلئے جوڑ توڑ کرنے کی ہی سوجھتی ہے ۔غرےب کے درد کا کوئی درماں نہےں بنتا ،چارہ گری نہےں کرتا ورنہ اےسی تو کوئی بات نہےں تھی کہ درد کے دن پھےلتے ہی جاتے اس ملک مےں آزادی کے ثمرات سے وہی فےض ےاب ہوئے جن کا آزادی مےں کوئی حصہ نہےں تھا
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گرےز تھا
ورنہ جو دکھ ہمےں تھے ، بہت لادوا نہ تھے
14اگست آزادی کاےہ دن اسی تجدےد عہد کا دن ہے اور اس کا پےغام اور سبق ےہی ہے۔
دل نا امےدنہےں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے