پاکستان خاص خبریں

27 اکتوبر- تاریخ عالم کا سیاہ ترین دن

یہ تاتاریوں کے مسلم کُش حملے ہوں، بالکن جنگوں میں مسلمانوں کو ففتھ کالمسٹ قرار دے کر اُن کے نسل کشی کے بھیانک واقعات ہوں، ہسپانوی تسلط کے دوران فلپائن کے مسلمانوں پر مظالم کی بات ہو، فرانس میں جرمن نازیوں کی طرف سے عرب مسلمانوں کے نابود کرنے کی مذموم مہم ہو، روہنگیا مسلمانوں کی منظم نسل کشی ہو یا فلسطین میں اسرائیل کے نہتے مظلوم مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ، تاریخ عالم میں کچھ ادوار اور کچھ ایام ایسے ہوتے ہیں جو سیاہ حروف سے لکھے اور عالمی ضمیر پر ایک داغ کی حیثیت سے یاد رکھے جاتے ہیں۔
ایسا ہی ایک سیاہ ، تاریک اور داغدار دن ۲۷ اکتوبر ۱۹۴۷ کا دن ہے ۔ یہ وہ تاریک وقت تھا جب ڈوگرا فوج، راشٹریا سویم سیوک سنگ اور ہندوستان کی ریاستی فوج نے مل کرکم و بیش ۲۵۰،۰۰۰ کشمیری مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ اور ضمیر داغدار کئے تھے۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد وقوع پذیر ہونے والی پہلی بڑی نسل کشی کی واردات تھی جس نے کشمیر میں جموں کی مسلم آبادی کا تناسب ۶۱فیصد سے گھٹا کر ۳۳ فیصد کر دیا تھا۔
تقسیم ہند کے بعد ریاست کشمیر میں سیاسی افراتفری اور بد امنی کی فضا تھی اور کشمیر چھوڑ دو ایک عوامی مطالبہ تھا۔ تاہم ریاست کے اُس وقت کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے ۲۷ اکتوبر ۱۹۴۷ کو ریاست کے ہندوستان سے الحاق کا غیر قانونی اور غیر اخلاقی اعلان کر دیا۔
یوں تو ۲۷ اکتوبر کو ہونے والے اس غیر اخلاقی اعلان جس نے عالمی قوانین کی بھی دھجیاں اُڑا دیں کا پس منظر بہت پیچھے تک جاتا ہے لیکن اس خون آشام سانحے کا باقاعدہ اور منظم آغاز اُس وقت ہوا جب ۱۴اکتوبر کو آر ایس ایس اور اکالی دل کے غنڈے جموں میں داخل ہو کر بہت سے دیہاتوں میں داخل ہو چکے تھے جہاں انہوں نے ہزاروں مسلمانوں کو قتل کیا اور ان کی املاک لوٹ کر گھروں کو آگے لگا دی۔ گو شہر میں کرفیو لگا دیا گیا تھا لیکن آر ایس ایس کے غنڈوں اور ہندوستانی فوجیوں کو اسلحے کے انبار لے کر گاڑیوں میں بیٹھ کر شہر بھر میں گھومنے کی آزادی تھی۔ جموں شہر کے دو بڑے محلوں تالاب کھٹیکاں اور استاد محلہ کا محاصرہ کر کے رہائشیوں کی خوراک اور پانی کی ترسیل بند کر دی گئی تھی تاکہ لوگ بھوک اور پیاس سے ہی تڑپ تڑپ کر مر جائیں۔ جب ان علاقوں کے لوگوں نےبہادری سے مقابلہ کیا اور ہار ماننے سے انکار کر دیا تو انہیں پاکستان جانے کی اجازت دی گئی لیکن جیسے ہی ان بدنصیب لوگوں کے ٹرک شہر سے باہر پہنچے تو ہندو اور سکھ انتہا پسندوں اور ہندوستانی فوج نے ان نہتے لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا اور ان کی خواتین کو اغوا کر لیا گیا۔
۹نومبر ۱۹۴۷ کے ایک برطانوی کمیشن کے مطابق جموں کی اس مسلم نسل کشی میں مارے جانے والے مسلمانوں کی تعداد قریب ۷۰ ہزار تھی۔ اسکالر این کوپ لینڈ کے مطابق یہ تعداد ۸۰ ہزار کے لگ بھگ تھی جبکہ آسٹریلین اسکالر کرسٹوفر سنیڈن کے مطابق قتل و غارت گری کا نشانہ بننے والے ان مسلمانوں کی تعداد بیس ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان تھی۔ دی ٹائمز نے اپنی ۱۰ اگست ۱۹۴۸ کی اشاعت میں یہ تعداد ۲۳۷،۰۰۰ بتائی ہے جبکہ دی سٹیٹس مین کے ایڈیٹر این سٹیفینز کا دعویٰ تھا کہ یہ تعداد ۵۰۰،۰۰۰ مسلمانوں پر مشتمل تھی۔
اس خونی داستان کا اگلا باب آئینی دہشت گردی اور بربریت سے رقم ہے جس کا آغاز ۵ اگست ۲۰۱۹ کو اُس وقت ہوا جب ہندوستان کی فاشسٹ مودی حکومت نے ہندوستانی آئین میں بہت سی ترامیم کیں۔ ان ترامیم میں سب سے اہم آئین کی شق ۳۷۰ کی منسوخی اور شق ۳۵۔اے کی تبدیلی ہے۔ ان ترامیم سے ایک طرف تو ہندوستانی حکومت نے جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کر کے اس علاقے کو ریاست سے مرکز کے زیر تصرف علاقے میں تبدیل کیا اور دوسری طرف لداخ کو جموں و کشمیر سے الگ کر کے تقسیم کا بیج بویا۔
سن ۲۰۲۰ عیسوی کا نام نہاد کشمیر ری آرگنائیزیشن آرڈر اس سلسلے کی اگلی کڑی ہے جو کہ چوتھے جنیوا کنوینشن کی خلاف ورزی ہے۔
ریاست جموں و کشمیر میں ہندوستان کے مظالم کی داستان فلسطین میں اسرائیلی مظالم سے اگر زیادہ طویل اور بھیانک نہیں تو کسی طور کم بھی نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے ۱۹۴۸ کے ریزولوشن کے مطابق استصواب رائے کشمیریوں کا حق ہے اور جنیوا کنونشن کے مطابق قابض ریاست کو مقبوضہ علاقے میں اپنی شہری آبادی منتقل کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی لیکن کشمیر اور کشمیریوں کے معاملے میں ہندوستان ان تمام قوانین کو روندتا آیا ہے اور آج تک پامال کر رہا ہے۔
اگر ہندوستانی فاشسٹ حکمران مودی کی شخصیت کا موازنہ تاریخ کی کسی شخصیت سے کیا جا سکتا ہے تو وہ صرف ہٹلر کی شخصیت ہے۔ مودی کی سوچ وہی ہے جو ہٹلر کی سوچ تھی ، مودی کا طریقہ کار بھی وہی ہے جو کہ ہٹلر کا پسندیدہ طریق کار تھا اور اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ مودی کے اپنے الفاظ میں ہٹلر اُس کی پسندیدہ شخصیات میں سے ایک ہے۔
ہندوستانی افواج کے ہاتھوں کشمیریوں کا قتل عام اور اُن پر کیا جانے والا بد ترین تشدد کوئی ڈھکی چھپی یا نئی بات نہیں ہے جبکہ جنیوا کنونشن کا آرٹیکل ۳ واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ انسانی شخصیت یا زندگی کے خلاف کسی بھی طرح کا تشدد، کسی بھی طرح کا قتل، مسخ کرنا، یا بد سلوکی کرنا اراکین ممالک کے لئے غیر قانونی ہے۔
ہندوستانی آئین میں سے شق ۳۷۰ کا حذف کرنا اقوام متحدہ کے ریزولوشن (بنام یو این ایس سی آر ۳۸، ۴۷،۵۱،۹۱ اور ۱۲۲ ) کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ علاوہ ازیں ریاست جموں و کشمیر کی حیثیت کو یک طرفہ طور پر تبدیل کرنے کا عمل ۱۹۷۲ عیسوی میں ہندوستان پاکستان کے درمیان ہونے والے شملہ معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے۔
ہندوستانی آئین کی شق ۳۵۔اے کی ترمیم کے بعد ہندوستانی حکومت نے انتہائی سرعت سے کشمیر کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی مہم پر کام شروع کر دیا ہے اور اب تک قریب بیالیس لاکھ جعلی ڈومیسائلز کا اجراٗ کیا جا چکا ہے۔ ہندوستانی حکومت انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی سے غیر کشمیری ہندوستانیوں کو کشمیری جائیدادیں سستے داموں فروخت کر رہی ہے ۔
سن ۱۹۹۱ عیسوی کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ (اے ایف ایس پی اے) نافذ ہے جس کی مدد سے کشمیریوں کو قابو میں رکھنے کے لئے وہاں نو لاکھ کی تعداد میں ہندوستانی فوج تعینات ہے جس کی وجہ سے صورت حال یہ ہے کہ آج کشمیر میں فوج اور سول آبادی کا تناسب ایک اور بارہ کا ہے یعنی ہر۱۲ نہتے کشمیریوں کے مقابلے میں۱ مسلح ہندوستانی فوجی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری جاگے۔ ضمیر عالم جاگے۔ تمام ممالک کشمیریوں کے لئے ، نہتے بے گناہ انسانوں کے لئے، مظلوم کے لئے آواز اٹھائیں۔ عالمی عدالت انصاف قدم اٹھائے اور جیسے یوگوسلاویہ اور روانڈا میں ، جہاں ریاستی قوانین اور اخلاقیات معطل ہو چکی تھیں، اقدامات کئے گئے ویسے ہی کشمیر میں اقدامات کئے جائیں ۔ کشمیریوں کے حوصلے تو بلند ہیں، تمام مظالم کے باوجود کشمیریوں کی آواز اور جذبہ حریت کو دبایا نہیں جا سکا اور نہ دبایا جا سکتا ہے لیکن کیا اقوام عالم کا ضمیر سویا ہی رہے گا۔
قلم کار ملکی سیاست اور علاقائی حالات حاضرہ پر نظر رکھتے ہیں اور قومی اہمیت کے امور پر کالم لکھتے ہیں۔ کالم نگار سے براہ راست رابطہ کے لیے ان کا ای میل ایڈریس درج ذیل ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے