کالم

5 اگست یوم استحصال کشمیر

اگست2019 کوبھارتی حکومت نے پارلیمنٹ میں ”جموں وکشمیرتنظیم نو“کے عنوان سے بل پیش کیاجسے اکثریت رائے سے پاس کیاگیاجس سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کوختم کرکے بھارت کاحصہ قراردیاگیا جسے کشمیریوں اور پاکستانیوں نے مسترد کرتے ہوئے اسے غیرقانونی قراردیا۔مقبوضہ کشمیر کے ممبران پالیمنٹ اور دیگرلوگوں نے اس بل کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ میں مقدمات بھی دائرکیے ہوئے ہیں۔بھارت جتنے مرضی ایسے غیرقانونی بل پاس کروالے لیکن جب تک کشمیریوں کوان کاپیدائشی حق حق خودارادیت نہیں دیتاتب تک کشمیرکی حیثیت کوکسی صورت تبدیل نہیں کیاجاسکتا۔ اب بھارت مقبوضہ کشمیر میں G20 کے اجلاس اور دیگرکانفرنسز کروا کر دنیاکے سامنے جوچہرہ پیش کرنے کی کوشش کررہاہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ عالمی دنیا کو اب سوشل میڈیاکے اس دور میں بے وقوف بناناکسی فردیاحکومتوں کے بس کی بات نہیں رہی۔مقبوضہ کشمیرکے سینکڑوں نوجوان جو تحریک آزادی کو کسی نہ کسی طرح لیڈ کررہے تھے کو اُن کے گھروں سے اٹھاکربھارت کی دوردراز جیلوں میں بندکیاگیاہے۔ کشمیری لیڈر شپ پر مختلف مقدمات قائم کرکے بھارتی جیلوں میں قید وبند کردیاگیا،ان پربغاوت کے مقدمات قائم کیے گئے ہیں،حکومت پر تنقید کرنا جمہوریت کاحسن کہلاتاہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں صورتحال ہی اس کے برعکس ہے جو بھی بھارتی حکومت پرتنقید کرے یااپنے بنیادی حق حق خودارادیت کی بات کرے اس کونامعلوم جگہ پرقید کردیاجاتاہے۔بھارتی حکمران یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیرمیں حالات معمول کے مطابق ہیں امن وامان کی صورتحال بہتر ہے، اگر سب کچھ ٹھیک ہو چکا ہے تو مقبوضہ کشمیرمیں خوف وہراس کاعالم کیوں ہے،کیوں پیلٹ گنوں کابے دریغ استعمال کرکے آزادی پسندوں کی آنکھوں کی بینائیاں چھینی جارہی ہیں،عورتوں کی عصمت دری کی جارہی ہے۔ مقبوضہ کشمیرمیں لوگوں کومذہبی آزادی کیوں نہیں دی جارہی؟ مقبوضہ کشمیرمیں حکومتی نظام مفلوج ہے اور بھارتی وزیرداخلہ اپنی زیرنگرانی گورنراور بیوروکریسی کے ذریعے حکومتی اختیارات کاناجائز استعمال کررہے ہیں۔کشمیری دفعہ 370 اور 35A کی بحالی چاہتے ہیں۔سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں میں استدعا کی گئی کہ اس فیصلے کو غیر آئینی اور غیرقانونی قرار دیا جائے کیونکہ اس میں کشمیریوں کی رائے شامل نہیں ہے۔انڈیا کی سپریم کورٹ کاپانچ رکنی بنچ دو اگست سے روزانہ کی بنیاد پرایسی درخواستوں پر سماعت کررہی ہے جن میں استدعا کی گئی ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق 5 اگست 2019 کو کیے گئے انڈین حکومت کے فیصلے کوغیر قانونی اورغیر آئینی قرار دیا جائے اور کشمیر کی خصوصی حیثیت یعنی دفعہ 370 اور 35A کو بحال کیا جائے۔جب دفعہ 370 اور35A کو ختم کیا گیا تب جموں کشمیر میں عوامی حکومت قائم نہیں تھی۔ 2018 میں بی جے پی نے محبوبہ مفتی کی حکومت کوختم کرکے جموں کشمیر میں صدارتی نظام نافذ کر دیا تھا۔ جب دفعہ 370 اور35A کو ختم کیا گیاتو بڑے بڑے کشمیری لیڈرجوتحریک آزادی کاحصہ نہیں تھے وہ بھی ان بھارتی اقدام کیخلاف بولے ، بھارت نے انھیں بھی جھوٹی تسلیوں پر رکھا ہوا تھا ۔ دفعہ 370 کے خلاف سپریم کورٹ میں داخل ان درخواستوں میں موقف اپنایاگیاکہ کشمیریوں کی مرضی کے بغیرانڈین پارلیمنٹ یکطرفہ طور ایسا فیصلہ نہیں کر سکتی۔دفعہ 370 کے تحت جموں کشمیر کا اپنا الگ آئین تھا، ٹیکس نظام الگ تھا، یہاں کی نوکریاں صرف یہاں کے مستقل باشندوں کےلئے مخصوص تھیں، انڈیا کے کسی بھی علاقے کا کوئی بھی باشندہ نہ یہاں ملازمت حاصل کر سکتا تھااورنہ ہی مقبوضہ کشمیرمیں زمین خرید سکتا تھا ۔ 2014میں جب نریندر مودی بھارت کے وزیراعظم بنے تو بی جے پی نے اعلان کیا کہ دفعہ 370 ختم کرکے مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کےلئے حل کیا جائیگا۔ 2019 میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے صرف دو ماہ بعد پارلیمنٹ میں دفعہ 370 اور 35A کو ختم کرنے کیلئے بل پیش کیاجو اکثریت رائے سے پاس ہوگیا۔دفعہ 370 اور 35A کوختم کرنے سے دو دن پہلے کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا، ٹیلیفون، موبائل فون اور انٹرنیٹ سہولیات معطل کردی گئیں اورکشمیری لیڈروں کوقید کردیاگیا۔ اس اعلان سے چند سال قبل ہی علیحدگی پسند جماعتوں کو کالعدم قرار دیا گیا تھا اور ان کی لیڈرشپ جیلوں میں قید تھی۔آج چار سال گزرنے کے باوجود حالات نارمل نہیں ہے کشمیرمیں کرفیوکاعالم ہے،لوگوں میں خوف وہراس طاری کیاگیاہے، علیحدگی پسندوں کو سیاسی منظر سے ہی ہٹادیاگیاہے۔ پانچ سالوں سے انڈین آرمی کی تعداد کومزید بڑھا دیا گیا ہے ۔مسلمانوں کومذہبی آزادی بھی حاصل نہیں ہے۔مقبوضہ کشمیرکے لوگ بھارتی حکومت کے اس غیرقانونی اقدام کوماننے کےلئے کسی صورت بھی تیارنہیں ہیں، بظاہرتو بھارت نے جی 20 کانفرنس کاانعقادبھی مقبوضہ کشمیرمیں کرواکرعالمی دنیاکویہ ظاہرکرنے کی ناکام کوشش کی ہے کہ مقبوضہ کشمیرمیں اب صورتحال نارمل ہے، لوگوں کوہرطرح کی آزادی ہے لیکن حالات اس کے برعکس ہیں۔دفعہ 370 اور 35A کے خاتمے کے بعد بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیرمیں مقبوضہ کشمیرسے باہرکے لوگوں کوڈومیسائل جاری کر رہی ہے اورانھیں زمینیں بھی الاٹ کررہی ہے بھارتی حکومت یہ سب اس لیے کررہی ہے کہ مقبوضہ کشمیرمیں مسلمانوں کواقلیت میں بدلا جا سکے اب چونکہ بھارتی سپریم کورٹ اس مقدمے کوروزانہ کی بنیاد پرسن رہی ہے تو مقبوضہ کشمیرکے لوگوں کی نظریں بھارتی سپریم کورٹ کی جانب ہیں وہ منتظرہیں کہ وہاں سے ہمیں انصاف ملے گا ۔ کشمیری عالمی امن کے اداروں اور عالمی دنیا سے مطالبہ کررہے ہیں کہ اقوام عالم مسئلہ کشمیر پر اپنی خاموشی توڑے اور کشمیریوں کواپنابنیادی حق حق خودارادیت دلوائے تاکہ کشمیرمیں لوگ آزادی سے زندگیاں بسر کر سکیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے