کالم

9مئی کی دہشتگردی اورآڈیو لیکس کا ”سچ “

مبصرین کے مطابق اس امر میں یقینا کوئی شبہ نہےں کہ شخصی آزادی کی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی فرد کی آزادی قومی سلامتی اور ملکی سالمیت کےلئے جب خطرے کا سبب بننے لگے توذاتی آزادی یقینا پس پشت چلی جاتی ہے اور قومی سلامتی کو پہلی ترجیح حاصل ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہےے۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے غیر جانبدار حلقوںنے رائے ظاہر کی ہے کہ پچھلے چند ماہ سے آڈیو اور ویڈیو لیکس سکہ رائج الوقت بن چکی ہےںاور اس ضمن میں قومی سطح پر ایسے ایسے انکشاف سامنے آرہے ہےں جن کا تصور بھی کچھ عرصہ پہلے تک محال تھا مگر آفرین ہے ایسی شخصیات پر کہ وہ ریاست کے اعلیٰ آئینی عہدوں پر براجمان ہونے کے باوجود اس امر میں ذرا بھی عار محسوس نہےں کرتے کہ قومی مفادات کو آگے رکھنے کی بجائے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کو مدنظر رکھیں بھلے ہی اس کے نتیجے میں ملک کو کتنا ہی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو ۔
اس امر کی ایک مثال تو ایک برس قبل تب سامنے آئی تھی جب سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور شاہ محمود ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ ”ابھی تو ہم نے اس سے مزید کھیلنا ہے “۔دوسری طرف پچھلے چند ہفتوں میں منصفی کے اعلیٰ منصب پر فائز شخصیات کے قریبی عزیز و ں کی باہمی گفتگو کی آڈیو لیکس بھی منظر عام پر آچکی ہےں جن کی بابت ہر کوئی بخوبی آگاہ ہے۔
ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ ان کی بابت یہ عذر تراشا جارہا ہے کہ یہ سب آزادی اظہار ہے اور انسانی حقوق کا مسئلہ ہے ۔
حالانکہ کسے نہےں پتہ کہ جب امریکہ میں 9/11کا سانحہ پیش آیا تھا تو وہاں کی سول سوسائٹی اور حکومت نے کیسا ردعمل دیا تھا علاوہ ازیں جب برطانیہ میں7/7کی دہشتگردی ہوئی تو وہاں کی ریاست نے کس طورفوری طور پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ہر قسم کی شخصی آزادیاں ختم کر دی تھیں ۔ایسے میں وطن عزیز میں 9مئی کے سیاہ ترین دن کو ہونے والی دہشتگردی اور شر پسندی کو معمول کی کاروائی سمجھ کر نظر انداز کر نا کہاں کا انصاف ہے ۔توقع کی جانی چاہےے کہ اس حوالے سے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے جائیں گے تاکہ ایک جانب مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے البتہ اس معاملے میں کسی بے گناہ کو نقصان نہ پہنچے ۔
مبصرین کے مطابق کپتان اور ان کے ہمدرد غالبا ًاس امر کو فراموش کر بیٹھے تھے کہ پاکستان میں پاک افواج کے ساتھ عوام کی بھاری اکثریت دل و جان سے محبت کرتی ہے اور مسلح افواج کے امیج پر کوئی بھی آنچ آئے تو بھلا عام پاکستانی کیسے لاتعلق رہ سکتا ہے کیوں کہ سبھی جانتے ہےں کہ اللہ کی مہربانی کے بعد پاک افواج ہی ملک وقوم کو ہر قسم کی آفت سے محفوظ رکھنے کی ضامن ہے۔زمانہ امن ہو یا جنگ ،زلزلہ ہو یا سیلاب،مشکل کی ہر گھڑی میں ہو قوم کے شانہ بشانہ موجود ہوتی ہے اور پھر 9مئی کو تو جو دلخراش سانحہ پیش آیا اس دوران ایک مخصوص حلقے نے جس طرح لاہور کے جناح ہاﺅس،میانوالی میں ایم ایم عالم کے تاریخی جہاز کو جلانے کی ناپاک سعی کی ، جی ایچ کیو میں وحشت کا ماحول پیدا کیا ، پشاور میں ریڈیو کی تاریخی عمارت کو جلایا گیا،، یہ اپنے آپ میں بدترین دہشتگردی کی مثالیں ہےں جن کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ ایسے میں انصاف کے اعلیٰ منصب پر فائز شخصیات کو بھی سوچنا ہوگا کہ اگر پاکستان ہے تو ہم سب ہےں ورنہ کچھ نہےں۔گویا
تازہ ہوا کے شوق میں اے ساکنان شہر
اتنے نہ در بناﺅ کہ دیوار گر پڑے
یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ پرائیوسیی اور آزادی رائے کے نام پر بعض دانشور یہ بھول بیٹھے ہےں کہ خدا نہ کرئے کہ کسی قوم کی آزادی سلب ہو جائے تو پھر اس کا حشر وہی ہوتاہے جو مقبوضہ کشمیر کے نہتے شہریوں اور بھارت میں موجود مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا ہو رہا ہے۔بدقسمتی سے اس کے باوجود تا حال کچھ گروہ اپنی منفی روش پر قائم ہے گویا
خوش فہمیوں کے سلسلے اتنے دراز ہےں
ہر اینٹ سوچتی ہے کہ دیوار مجھ سے ہے
اس ضمن میں یہ امر بھی پیش نظر رہے تو بےجا نہ ہو گا کہ کپتان صاحب اور ان کے ہم رکابوںنے ملک کے اندر تقسیم در تقسیم کا ماحول پیدا کرنے میں اپنی پوری توائیاں صرف کی ہےں گویا
تقسیم بھی تقسیم نہےں لگتی کسی کو
دیوار اٹھانے کا سلیقہ ہے تیرے پاس
مگر انتہائی حوصلہ افزا امر یہ ہے کہ پاکستانی عوام کی بہت بھاری اکثریت نے پچھلے ایک ہفتے میں اس امر کو اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان کی فوج اور عوام ایک دوسرے کےساتھ لازم و ملزوم ہےں اور انشااللہ رہےں گے ۔یہ بھی کھلا سچ کسی سے ڈھکا چھپا نہےں کہ یہ قومی سلامتی کے ادارے ہی تھے جن کے کندھوں پر سوار ہو کر موصوف نے اپنے عروج کی منزلیں طے کی تھیں جنہےں آج وہ برا بھلا کہتے نہےں تھکتے اور لوگوں میں قومی سلامتی کے اداروں کےخلاف نفرت پھیلاتے رہے اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اور دیگر اداروں میں اعلانیہ فوج کےخلاف پروپیگنڈہ کرتے رہے اور کہتے رہے کہ بیٹا ارسلان اس کو بھی غداری سے جوڑ دو لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ بھول گئے کہ
دریا کے تجاوز کا برا ماننے والے
دریا کا ہی چھوڑا ہوا رقبہ ہے تیرے پاس

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri