حلقہ احباب سردار خان نیازی کالم

آرمی چیف باجوہ ۔۔۔جنرل فیض کی محنت اور طالبان خان کاچھکا

Halq-e-Ahbab

عمران خان کو لوگوں نے طالبان خان ہونے کا طعنہ دیا وقت نے اس طعنے کو عمران خان کا اعزاز بنا دیا۔ طالبان خان ، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید اور ان کے دیگر رفقائے کار بالخصوص ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل افتخار بابر ۔۔۔ ان سب نے دیانت ، محنت اور مسقتل مزاجی سے پاکستان کے مفادات کا تحفظ کیا اور آج یہ سب وقت کی ، عوام کی اور ضمیر کی عدالت میں سرخرو ہیں۔بھارت چیخ رہا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ کابل میں طالبان آ گئے ہیں۔ بھارتی ریٹائرڈ فوجی افسران وحشت کے عالم میں چیخ و پکار کر رہے ہیں اور اس فتح کو پاکستان کی فتح قرار دے رہے ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا میں امریکہ سے سوال پوچھا جا رہا ہے کہ ڈھائی ہزار امریکی فوجی اور چار ہززار کے قریب مغربی کنٹریکٹرز مروا کر اور اکیس ہزار امریکی فوجی زخمی کروا کر اور 978 ارب ڈالر خرچ کر کے امریکہ کو کیا ملا؟ طالبان تو پھر واپس آ گئے۔سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل مرحوم نے میرے پروگرام ” سچی بات ” میں کہا تھا کہ آئی ایس آئی نے امریکہ کے ساتھ ملکر روس کو شکست دی اور اب انشاء اللہ امریکہ سے ملکر امریکہ کو شکست دے گی ، بھارت نے سمجھ لیا تھا کہ افغانستان کے ذریعے پاکستان کا بازو مروڑے گا۔ بلوچ عسکریت پسندی کو اس نے ہوا دی۔ پاکستان کے لیے مسائل پیدا کیے۔ افغانستان کو پاکستان مخالف پراکسی کا میدان بنایا لیکن اللہ کے فضل و کرم سے اور اس کے بعد طالبان خان ، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید اور ان کے دیگر رفقائے کارکی محنت اور افسران اور جوانوں کی قربانیوں کے طفیل آج یہ دن دیکھنا نصیب ہوا ہے کہ بھارت کی افغانستان میں ہونے والی ساری سرمایہ کاری غرق ہو گئی ہے ۔ موجودہ آئی ایس آئی کے چیف جنرل فیض حمید ایک قابل ایماندار اور محنتی آدمی ہیں،بھارت کا دیا گیا اسلحہ اب طالبان کے قبضے میں ہے۔ پاکستان دشمن گروہوں کے لیے جو مراکز مہیا تھے وہ نہیں رہے۔ بھارت اگر سٹپٹا رہا ہے تو یہ بلاوجہ نہیں۔ یہ افواج پاکستان کی محنت اور قربانیوں کا پھل ہے جو قوم کو مل رہا ہے۔اس اہم مرحلے پر سیاسی قیادت افواج پاکستان کی دست و بازو رہی۔ عمران حکومت نے افواج کا ساتھ دیا اور ایسے دیا جیسے دینے کا حق ہوتا ہے۔ آسانی تھی یا مشکل قومی بیانیے پر سب کھڑے رہے۔ آج اللہ نے یہ دن دکھایا ہے تو یہ احساس بھی ہو رہا ہے کہ قومی سیاسی قیادت اور عسکری قیادت کا ایک پیج پر ہونا کتنا ضروری ہوتا ہے اور جب یہ سب ایک پیج پر ہوتے ہیں تو پھر کیسے یکسوئی حاصل ہوتی ہے اور جب یکسوئی حاصل ہوتی ہے تو پھر کامیابیاں قدم چومتی ہیں۔مجھے وہ دن یاد آ رہے ہیں جب میں اور برادرم ر اعجاز الحق پاکستانی وفد کے ساتھ افغانستان گئے تھے۔ وہاں احمد شاہ مسعود اور گلبدین حکمت یار صاحبان سمیت دیگر افغان قیادت سے بھی بات ہوئی۔ احمد شاہ مسعود اب اس دنیا میں نہیں لیکن گلبدین حکمت یار زندہ ہیں اور طالبان سے ان کی مشاورت جاری ہے۔طالبان قیادت بھی ہمارے لیے اجنبی نہیں۔ ذبیح اللہ بہت اچھے آدمی ہیں۔ ان سب میں جو قدر مشترک ہے وہ یہ ہے کہ یہ پاکستان کے دشمن نہیں ہیں۔ یہ امر اللہ صالح اور عبد اللہ عبد اللہ جیسی سوچ نہیں رکھتے نہ ہی یہ ان کی زبان میں بات کرتے ہیں۔ یہ آزاد منش قیادت ہے یہ بھارت کی پراکسی نہیں ہے۔ بھارت نے پاکستان کے گرد جو شکنجہ کسا تھا وہ ٹوٹ چکا ہے۔یہ ایک غیر معمولی کامیابی ہے۔ اس خطے میں پاکستان پر بہت مشکل وقت رہا ۔ اب مشکلات کے یہ بادل چھٹتے جا رہے ہیں۔ کل جس عمران خان کو طالبان خان کہا جاتا تھا اور طعنے کے طور پر کہا جاتا تھا آج یہ نسبت طعنہ نہیں رہی۔ عمران خان کی بصیرت کا آئینہ دار بن گئی ہے۔ عمران پہلے دن سے امریکہ اور مغربی قیادت کو یہی سمجھا رہے تھے کہ جنگ اس مسئلے کا حل نہیںہے اور آخر میں امریکہ کو طالبان خان کی یہ بات ماننا پڑی کہ جنگ اس مسئلے کا حل نہیں۔اسی لیے امریکہ نے جانے سے پہلے دوحہ میں طالبان سے مذاکرات کیے۔دوحہ مذاکرات عمران خان کی فکر کی جیت تھی۔یہ اس بات کا اعتراف تھا کہ پاکستانی قیادت جو بات کرتی رہی وہی درست تھی۔اب اس خطے میں انشا اللہ خوشحالی کا دور آئے گا۔چین روس ترکی پاکستان اور دیگر مقامی ممالک مل کر خوش ھالی اور ترقی کا سفر کریں گے۔انشاء اللہ اسی جذبے سے ہم مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرائیں گے اور پاکستان میں لازوال امن قائم کریں گے

]]

>

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے