اسلحہ لائسنس اجرا ء کیلئے نئی پالیسی خوش آئند
وفاقی وزارت داخلہ نے اسلحہ لائسنسوں کا اجراء عارضی طور پر روک دیا، اسلحہ لائسنسوں کے لئے نئی پالیسی تشکیل دی گئی ہے جس کی منظوری کے بعد لائسنسوں کا اجراء شروع کیا جائے گا،نئی پالیسی میں درخواست گزار کے لئے ٹیکس کی شرح میں اضافہ تجویز کیا گیا ہے، ، ذراءع کے مطابق وزارت داخلہ نے ممنوعہ و غیر ممنوعہ بور کے اسلحہ لائسنسوں کے اجرا ء کے لئے نئی پالیسی مرتب کرلی ہے جس کی منظوری تک عارضی طور پر اسلحہ لائسنسوں کا اجراء روک دیا گیا ہے ، نئی پالیسی میں درخواست گزار کے لئے ٹیکس کی شرح میں اضافہ تجویز کیا گیا ہے ، سابقہ پالیسی میں غیر ممنوعہ بور کے لائسنس کی درخواست دینے والے کے لئے کم ازکم ایک لاکھ سالانہ جبکہ غیر ممنوعہ لائسنس حاصل کرنے کے لئے کم ازکم پچاس ہزار سالانہ ٹیکس کی حد مقرر کی گئی تھی ۔ ماضی میں اسلحہ لائسنسوں کا جمعہ بازار لگاکر رکھ دیا تھا اور تھوک کے حساب سے اسلحہ لائسنس جاری کئے گئے ، وزارت داخلہ سے ایک ایک شخص کے نام پر بیس ، بیس لائسنسوں کا اجراء بھی دیکھنے میں آیا ، اسلحہ کے ہاتھ میں آتے ہی معاشرے میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ، چوری ، ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ۔ موجودہ وزیر داخلہ کی جانب سے اسلحہ لائسنسوں کے اجراء کیلئے نئی پالیسی کی تشکیل یقینا ایک حوصلہ افزا اور تاریخی اقدام ہے جو جرائم کے انسداد پر قابو پانے میں مدد دے گا، اسلحہ لائسنسوں کے اجراء کی حوصلہ شکنی اور روک تھام نہایت ضروری ہے کیونکہ جب ریاست کے پاس سیکورٹی فورسز کی کثیر تعداد موجود ہے تو پھر ہر ایرے غیرے کو لائسنس جاری کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے ۔
اسلام کے حقیقی چہرے کو دنیا میں متعارف کرانے کی ضرورت
وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری نے کہا ہے کہ پاکستان ترکی کے امام خطیب اسکولوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، اسلام کے اصل چہرے اور تعلیمات کو دنیا میں متعارف کروانا اصل چیلنج ہے ۔ وفاقی وزیر کی یہ بات بالکل درست ہے اور وزیر اعظم پاکستان بھی علماء و مشاءخ سے یہ بات کہتے چلے آرہے ہیں کہ صرف اندرونی ملک بلکہ بیرون ممالک میں ہ میں اسلام کا حقیقی تشخص دیکھنانے کی ضرورت ہے کیونکہ قرآن کریم ام الکتاب ہے اور اس میں انسانیت کی بھلائی کا درس دیا گیا ہے مگر کچھ طبقات نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک اسلام کے تشخص کو صحیح انداز میں پیش نہیں کررہے ،اسلام ایک روشن خیال مذہب ہے جس کی تعلیمات ہر دور کیلئے ہیں مگر یہ عاقبت نا اندیش طبقات اسلام کو محدود انداز میں پیش کررہے ہیں ، اگر آج سے سو سال پہلے اس پر کام شروع کیا جاتو عالمی سطح پر نہ صرف بین المذاہب ہم آہنگی کی فضا پیداہوتی بلکہ ہ میں ان مسائل سے بھی نہ گزرنا پڑتا اور نہ ہ میں یہاں بیٹھ کر کسی ملک کیخلاف احتجاج کی ضرورت پیش آتی چنانچہ علماء کرام اور مشاءخ عظام کو اس حقیقت کو جان کر کام کرنا چاہیے ۔
]]>