کالم

قائدےن کی نگاہ التفات کے منتظر حقےقی تابعدار

syed-dildar

سوچ ہی رہا تھا کہ آج کالم کےلئے کس موضوع کا انتخاب کےا جائے ۔وطن عزےز کے مسائل پر لکھ لکھ کر تو قلم کی سےاہی خشک ہو گئی ،بھلا لکھنے سے بھی کہےں مسائل حل ہوئے ہےں بقول شاعر’اثر اس کو ذرا نہےں ہوتا ،رنج راحت فزا نہےں ہوتا ۔گو مگو مےں اچانک ذہنی افق پر اےک لفظ ”تابعدار“ کا نزول ہوا سوچا چلو اس پر ہی قلم آرائی کر لےتے ہےں ۔معزز قارئےن آپ بھی لفظ” لوٹا“ کی تکرار سے ےقےنا اکتا چکے ہےں ۔وطن عزےز مےں لوٹا کرےسی کی اصطلاح اتنی قدےم ہے کہ بار بار اسے استعمال مےں لاتے ہوئے خود بھی اےک طرح کی شرمندگی کا احساس ہوتا ہے اپنے قارئےن کے تفنن طبع ،ذائقے کی تبدےلی اور اےک ہی لفظ لوٹا پر مرکوزےت سے انہےں نجات دلانے کےلئے اس کے متبادل لفظ ”تابعدار “ ہی من کو بھاےا ۔چونکہ تابعدار بھی لوٹے کی تمام صفات کا حامل ہوتا ہے ۔عرف عام مےں وفادارےاں تبدےل کرنے والے کو لوٹا کہتے ہےں ۔ےہ صفات تو تابعدار مےں بھی بدرجہ اتم موجود ہوتی ہےں ۔رےاکاری ،عےاری ،مکاری اور بد عہدی کی خصلتےں دےکھنی ہوں تو صرف اےک تابعدار کو ہی دےکھ لےں وےسے بھی لوٹا چونکہ طہارت کےلئے استعمال ہونے والا برتن ہے اور بے ضمےروں کو اس لوٹے سے نسبت دےنا لوٹے کی توہےن ہے ۔انگرےز کا نو آبادےاتی نظام جو ابھی تک ےہاں جاری و ساری ہے اس وقت سے آج تک سرکاری عہدے داروں کو خطوط اور درخواستےں ارسال کی جاتی ہےں ان کے آخر پر لفظ آپ کا تابعدار لکھا جاتا ہے ۔ احساس کمتری کی نشانی اور قول و فعل کے تضاد کا مظہر ےہ لفظ ہمےں بطور انگرےز کی نشانی ورثے مےں ملا ۔کبھی تابعدار لکھنے سے بھی انسان کسی کا تابعدار ہوا ہے ۔ہماری عوام آزادی کے بعد بھی بےداری سے محروم رہی اور ابھی تک خود کو غلامانہ سوچوں کا ہی خادم بنا رکھا ہے ۔ےہ زندگی کے جمود کی علامت ہے ۔ناظرےن بات کدھر چلی گئی ۔ اگر تابعدار کا باس کہے کہ اس نے رات کے وقت سورج کو اپنی پوری آب تاب کے ساتھ چمکتے دےکھا ہے اور ساتھ ےہ دعویٰ بھی کرے کہ اس نے دن کے سمے تاروں کی بارات بھی جاتے ہوئے دےکھی ہے تو تابعدار جھٹ سے کہے گا کہ مےں خود اس کا چشم دےد گواہ ہوں ۔حقےقی تابعدار کبھی بے وفا نہےں ہوتا ،کبھی دھوکہ نہےں دےتا ،وفاداری تو انسانےت کا جوہر خاص ہے ۔مرزا غالب نے بھی وفاداری کو موضوع سخن بناتے ہوئے کہا ۔
وفاداری بشرط استواری اصل اےماں ہے
مرے بت خانے مےں تو کعبے مےں گاڑو برہمن کو
وطن عزےز مےں تابعداروں کی فصل بہتات سے تو ہے لےکن بے مےل محبت،بے رےا ارادت اور بے غرض عقےدت رکھنے والے تابعدار ےہاں حال حال نظر آتے ہےں ،برعکس اس کے غرض کے تابعدار کثرت سے ہےں ۔وفاداری بشرط استواری پر کامل اےمان رکھنے والے تابعدار سرد و گرم موسم کی چےرہ دستےوں کے باوجود کبھی وفاداری نہےں بدلتے ۔اکثرےت ہوا کے رخ کی طرح اپنا قبلہ تبدےل کرتی رہتی ہے ۔بعض عالم و فاضل سےاسی مدبر اپنے لےڈر کے سفرو خضر کے ساتھی ،خلوت و جلوت کے راز داں ،کبھی خدمت گزارانہ ،جاں نثارانہ اور تابعدارانہ اوصاف سے متصف تھے لےکن ان کے جی مےں کےا آئی کہ وہ تابعدار نہ رہے ،حلےف سے رقےب بن گئے ۔ےہ بھی تو انسانی فطرت ہے کہ انسان بدلتے حالات کے ساتھ خود کو بدلنے کی کوشش کرتا ہے ۔ہم انہےں الزام نہےں دے سکتے ،ان سے بے وفائی کا گلہ بھی نہےں کر سکتے کےونکہ جو بدلتے حالات کی پرواہ نہےں کرتے وہ دنےاوی دوڑ مےں پےچھے رہ جاتے ہےں ۔چونکہ تابعداران حالات کی نزاکت سے غافل نہےں ہوتے وہ آندھی اور طوفان سے قبل ہی اپنی چےزوں کو سمےٹنے کی خو رکھتے ہےں اور اپنے نقصان سے قبل ہی موقع محل کو جانچ لےتے ہےں ۔جس لےڈر کی گود مےں بےٹھ کر ےہ تابعدار پروان چڑھتے اور جوان ہوتے ہےں ،وقت پڑھنے پر اسے بھی کک لگانے سے درےغ نہےں کرتے ۔کوئی انہےں فصلی بٹےرے کہتا ہے اور کوئی موقع پرست سے تشبےہ دےتا ہے ۔کوئی کچھ کہتا پھرے انہےں کوئی فرق نہےں پڑتا ۔بہر حال تابعدار کی معراج ذہانت کی داد دےنا پڑتی ہے ،ان کو اپنے مفاد ہی عزےز ہوتے ہےں اس لئے پانسے پلٹنا ان کی مجبوری خےال کی جانی چاہئے ۔انہےں دوش دےنا ،ان پر الزام دھرنا نا انصافی ہو گی ۔تابعدار ہمےشہ پےارے وطن کےلئے مارشل لاءلگوانے کا سبب رہے اور جنرلوں کے ساتھ مل کر نئی پارٹےوں کی داغ بےل ڈالنے مےں ان کا کردار مسلمہ رہا ۔ان کے سروں پر ہمےشہ جنرلوں کا دست شفقت رہا ۔ےہ اپنے لےڈر کے ہم خےال تابعداری کے حلقے سے بغاوت کر کے آمروں کی ہمنوائی مےں جا بےٹھتے ہےں اور ان کے اتنے نزدےک آجاتے ہےں کہ لےڈر کے بےٹھنے کےلئے بھی جگہ نہےں رہتی ۔کئی دےار غےر سے آمدہ ےعنی امپورٹڈ تابعدار شان و شوکت سے وطن مےں نزول فرما کر طلوع ہوتے ہےں لےکن غروب کے وقت بھی دےار غےر کا ہی انتخاب کرتے ہےں اور اےسے پسپا ہوتے ہےں کہ دوبارہ وطن عزےز کی طرف مڑ کر دےکھنے کے بھی روادار نہےں رہتے ۔ہم ان تابعداروں کے تصوراتی کردار تلاش کرنے والے ےہ نہےں جانتے کہ کہ ےہ کردار بھی آمد کی طرح ہوتے ہےں ۔اپنے لےڈر سے پےمان وفا توڑ کر ےہ ڈکٹےٹر کی راہ مےں آنکھےں بچھاتے ہوئے اس طرح بچھ جاتے ہےں کہ راہ کے اچھے لگتے ،پسند آتے اور من کو بھاتے ہےں ۔انہوں نے ہی اےوب خان کو جواز دےا ،اس کے ہاتھ مضبوط کئے ،حکمرانی کے گر سکھائے اور ےہی ےحےیٰ خان کے دست و بازو ٹھہرے ۔اسی نوع اور افتاد طبع کے تابعداروں نے ضےاءالحق کو طاقت فراہم کی ۔اس سے وزارتےں ،نوازشےں ،مراعات ،الطافات بٹورے ۔اسی قماش کے تابعداروں نے نواز شرےف کی چھتر چھاﺅں ،سر پرستی اور پشتی بانی مےں پرورش پائی اور جب ان پر آزمائش کی گھڑی آئی تو ےہی تابعدار جنرل مشرف کی زلف گرہ گےر کے اسےر بن گئے ۔ےہی کچھ عمران خان کے تابعداروں نے ان کےساتھ کےا ۔کہتے ہےں کہ ضرورت مند دےوانہ ہوتا ہے ۔اسی اصول کے تحت کبھی تو تابعداروں کی بڑی آﺅ بھگت ہوتی ہے اور کبھی ان سے سخت بےزاری اور نفرت کا اظہار کےا جاتا ہے ۔اپنی وابستگےاں اپنی قربان گاہ پر لٹکانے والے ان تابعداروں کے ڈسے ہوئے لےڈر اصولوں پر سودے بازی نہ کرنے کے عہد و پےمان باندھتے نظر آتے ہےں اور کبھی بے وفا تابعداروں کو اپنا اغوا شدہ گروپ ثابت کرنے کی بھرپور ترجمانی ثابت کرتے ہوئے خود بھی تابعداروں کی صف مےں شامل ہو جاتے ہےں پھر عوام کو ان کے انقلاب کے نعرے صرف ان کے اپنے اقتدار کی بقاءکے نعرے ہی نظر آتے ہےں ۔ےہ بے وفا تو مستقبل مےں خود ان کی طرف دوڑنے کی تےاری مےں تھے ۔کبھی ان تابعداروں کی تمام بہارےں وردی کے تحفظ سے مربوط ،معمون ،موسوم اور منسوب تھےں ۔ان بے وفاﺅں کو تو آج گلے لگانے والے لےڈر کی مخالفت کے ووٹ ملے تھے ۔ان کی اصولی سےاست جس کا ےہ نعرہ لگاتے ہےں کا بھرم بھی اسی وقت قائم رہ سکتا ہے کہ جس نعرے کے ساتھ انہوں نے عوام سے مےنڈےٹ لےا اسی نعرے کو نبھاتے ۔اگر وہ اپنے راستے کی تبدےلی کے خواہاں تھے تو استعفیٰ دے کر اپنے ووٹرز کے پاس جاتے ۔معزز قارئےن ہم بھی کتنے احمق ہےں کہ بے وفاﺅں سے وفاﺅں اور اصولوں کی توقع رکھتے ہےں ۔کالم کا آغاز تابعدار سے کےا تھا تو آئےے قارئےن آپ کی ملاقات اصلی و حقےقی تابعداروں ،جاں نثاروں اور وفاداروں سے بھی کرا دےں ۔حقےقی تابعدار عہدو پےمان کے سچے ،سےاسی اندھےروں مےں اجلے ،تارےکےوں مےں روشنی کی کرن صرف سےاسی کارکن ہی ہوتے ہےں جو ہمےشہ سےاسی پارٹےوں کو الےکشن سے قبل مطلوب لےکن اقتدار کے اےوانوں مےں پہنچنے کے بعد غےر ضروری ہوتے ہےں ۔ےہ سےاسی کارکن زندگی گال دےتے ہےں لےکن اپنے نظرےے اور سےاسی وابستگی سے سر مو انحراف نہےں کرتے ۔وہ مطلب پرست لےڈروں کا گلہ شکوہ کرتے نظر آئےں گے لےکن جب بھی سےاسی پارٹی کو ضرورت پڑے ےہ سب کچھ بھول کر پھر نعروں اور جلوسوں مےں آ داخل ہوتے ہےں ۔ےہ ہمےشہ برسر پےکار ،قےد خوانوں سے شناسا ،نان جوےں پہ گزر لےکن پارٹی کےلئے خون بہانے پر ہر دم آمادہ ۔کوئی حرےف سےاستدان ان کو خرےد نہےں سکتا ۔ہمےشہ اپنے اےک ہی موقف پر ہر دم ڈٹے رہنا ان کا شےوہ ۔ان کی باگےں ،ان کی طنابےں دوسروں کے ہاتھ مےں ہوتی ہےں ۔ےہ لےڈر کی ہر بات کو حکم سمجھ کر لبےک کہتے ہوئے اپنی جان قربان کر دےنے سے بھی گرےز نہےں کرتے ۔آج توجہ کا مستحق ےہی طبقہ ہے اور اپنے لےڈران کی نگاہ التفات کا منتظر ہے ۔ان کے قائدےن سے ہم بھی درخواست گزار ہےں کہ خدا را اس نظر انداز کمےونٹی کے حالات سدھارنے کی طرف خصوصی توجہ دےں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے