اداریہ کالم

اپنے ڈوپامین اورسیروٹونین کیسے بڑھائیں

idaria

حکومت نے باالاخر وہی کیا جس کا خدشہ تھا،شیڈول کے مطابق یکم تاریخ آنے سے قبل ہی پیٹرولیم منصوعات کی قیمتوں میں یکلخت بڑے اضافے کا اعلان کرتے ہوئے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں 35، 35 روپے فی لیٹر اضافہ کردیا۔آئی ایم کے دباو¿ پریہ اعلان حکومت کی نااہلی کی ماری عوام پر بم بن کر گرے گا ،اور اشیا خوردونوش کی قیمتوں کا آگ سی لگ جائے گی۔شہبازحکومت کی جانب سے مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل کی قیمت میں بھی 18، 18 روپے فی لیٹر کا اضافہ کردیا گیاہے۔پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان وزیر خزانہ اسحق ڈار کی جانب سے کیا گیا جب کہ ایسا پہلی بار دیکھا گیا کہ پیٹرولم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اچانک صبح کے اوقات میں کیا گیا، عام طور پر قیمتوں میں اضافے کا رات کے اوقات کیا جاتا رہا ہے،لیکن پٹرول پمپوں نے تیل کی فروخت گزشتہ رات نو بجے ہی روک دی تھی،تاکہ عوام کی جیبوں پر ہاتھ صاف کیا جا سکے۔پٹرولیم مصنوعات میں خوفناک اضافے کے اعلان کے باوجود اسحاق ڈار قوم کو یہ احسان بھی جتلاتے رہے کہ گزشتہ ہفتے پاکستانی روپے کی قدر میں بڑی کمی دیکھنے میں آئی، حکومت نے گزشتہ 4 مہینوں میں یعنی اکتوبر سے 29 جنوری تک پیٹرول کی قیمت میں اضافہ نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس دوران پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں انیس، بیس روپے کی کمی کی گئی ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ عالمی سطح پر پیٹرول کی قیمت میں اضافے اور اسٹیٹ بینک کے اقدامات کے باعث روپے کی قدر میں ہونے والی کمی کے باوجود وزیر اعظم کی ہدایت پر اوگرا کےساتھ مشاورت کے بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کم از کم اضافے کا فیصلہ کیا گیاہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں پیٹرولیم مصنوعات وافر مقدار میں موجود ہیں اور معمول کے حالات میں کوئی وجہ نہیں تھ کہ قلت ہوتی، میڈیا کی قیاس آرائیوں میں کہا گیا کہ 80 روپے تک اضافہ متوقع ہے، اس صورتحال کے باعث فوری طور پر قیمتوں کا اعلان اور اطلاق کیا گیا اور بد قسمتی سے انہیں اس کا فائدہ ہوگیا۔اسحق ڈار کے اعلان سے قبل ہفتے کے روز پیٹرول کی قیمتوں میں زبردست اضافے کی افواہوں کے نتیجے میں ملک کے کئی حصوں میں پیٹرول پمپس پر لمبی قطاریں لگ گئیں۔ دوسری طرف اطلاعات ہیں کہ حکومت نے تعطل کا شکار قرض پروگرام بحال کرنے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ کے مطالبات تسلیم کرنے کے چند روز بعد 200 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کے لیے 2 مسودہ آرڈیننس تیار کرلیے ہیں۔رپورٹس کے مطابق حکومت پاور سیکٹر کی سبسڈی کو ختم کرنے اور ایکسپورٹ سیکٹر خاص طور پر ٹیکسٹائل صنعت کاروںکے لیے خام مال پر سیلز ٹیکس لگانے پر بھی غور کر رہی ہے۔ یہ ایسے اقدامات جو انتخابات کے سال میں مسلم لیگ (ن)کو سیاسی اعتبار سے بھاری پڑ سکتے ہیں، بجلی اور گیس کے نرخوں میں مزید اضافہ بھی حکومت کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ ملک کی اعلی ٹیکس مشینری کی جانب سے تیار کردہ ان دونوں مسودہ آرڈیننس میں سے ایک آرڈیننس 100 ارب روپے کے نئے ٹیکسز اور دوسرا درآمدات پر 100 ارب روپے کے فلڈ لیوی کے نفاذ سے متعلق ہے۔اس سے ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح اور لگژری آئٹمز پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافہ ہوگا، علاوہ ازیں روپے کی قدر میں بڑے پیمانے پر کمی سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کےلئے اضافی آمدنی کی بھی توقع ہے۔ ایف بی آر کی جانب سے درآمدات پر فلڈ لیوی وصول کی جائے گی جسے پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی میں کمی کو پورا کرنے کےلئے استعمال کیا جائے گا۔ آئی ایم ایف نے پی ڈی ایل سے متعلق 300 ارب روپے کے شارٹ فال کا تخمینہ لگایا ہے اور وزارت خزانہ سے کہا ہے کہ وہ پیٹرول اور ڈیزل پر فی لیٹر لیوی 35 روپے سے بڑھا کر 50روپے کرے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے ان پالیسی اقدامات پر عمل درآمد کی یقین دہانی کے بعد 31جنوری کو بات چیت کے لیے آئی ایم ایف ٹیم کی اسلام آباد آمد متوقع ہے۔اس سارے مل کے بعد موجود شدید مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا جو خود حکومت کے لئے تباہ کن ہو گا، آئی ایم ایف کی جانب سے قرض دینے سے انکار کے بعد حکومت کو آئی ایم ایف کی شرائط ماننا پڑ رہی ہیں۔ اسحق ڈار نے ستمبر میں عہدہ سنبھالنے کے فورا بعد آئی ایم ایف اور حکومتی ٹیم کے چند عہدیداروں کی شدید مخالفت کے باوجود ڈالر کو قابو کرنے کےلئے اپنی حکمت عملی پر عمل کیا لیکن مکمل ناکام رہے۔اس ناکامی کا وبال عوام کو بھگتنا پڑے گا۔
سندھ طاس معاہدے سے بھارت کو بھاگنے نہ دیا جائے
بھارت سندھ طاس معاہدے سے فرار کےلئے روایتی حربے استعمال کرنے لگا ہے۔بھارت نے عالمی بینک کی ثالثی عدالت میں کیس کمزور ہونے پر قانونی عمل رکوانے کی کوششیں شروع کردی گئی ہیں۔کشن گنگا اور راتلے ہائیڈرو پاور پراجیکٹ منصوبوں کے متنازع ڈیزائن کے معاملے پر موثر دفاع کی غیر موجودگی میں نظر آتی واضح شکست دیکھ کر بھارت ایک بار پھر بھاگنے کی تیاری کررہا ہے، جس کے لئے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے میں نظرثانی تجویز کر کے عالمی بینک کی مصالحتی عدالت میں قانونی عمل رکوانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔دوسری جانب پاکستان نے کسی بھی صورت سندھ طاس معاہدے میں نظر ثانی کی اجازت نہ دینے کا ٹھوس فیصلہ کیا ہے۔پاکستان کو اس معاملے پر ڈٹ جانا چاہئے،سندھ طاس معاہدہ دو خود مختار ریاستوں کے مابین وقت کے ساتھ ثابت شدہ موثر معاہدہ ہے۔ اس معاہدے میں کوئی بھی تبدیلی دونوں پارٹیوں کے باہمی اتفاق رائے ہی سے ممکن ہے۔ معاہدے کی کسی شق کی یکطرفہ تبدیلی و تشریح کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔معاہدے کے تحت دریائے جہلم اور چناب کے پانیوں پر پاکستان کا تسلیم شدہ حق ہے۔بھارت کے آبی منصوبوں کے متنازع ڈیزائن پر پاکستان نے 19 اگست 2016 کو عالمی بینک کی ثالثی عدالت سے باضابطہ رجوع کیا تھا۔پاکستان کے ٹھوس موقف اور طویل کوششوں کے بعد ورلڈ بینک نے مارچ 2022 میں عدالتی تشکیل کا عمل شروع کر دیا۔330 میگا واٹ کے کشن گنگا منصوبے کو ماہرین ہر اعتبار سے پاکستان کے خلاف محض سٹریٹجک منصوبہ قرار دے رہے ہیں۔ کشن گنگا اور راتلے آبی منصوبے مودی سرکار کی پاکستان کےخلاف آبی جارحیت کے عکاس ہیں۔ اس منصوبے کے ڈیزائن سے پاکستان کا ایک ہزار میگا واٹ کا نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ شدید متاثر ہو سکتا ہے جبکہ عالمی بینک کی ثالثی عدالت سے بھارت کے فرار کی ہر کوشش ناکام بنانے کےلئے پاکستان کا کیس ٹھوس نکات پر مبنی ہے۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو بھارت کار یکارڈ نہایت خراب ہے اور ا س نے ہمیشہ باہمی معاہدوں کی خلاف ورزی کی ہے اور بین الاقوامی اقدار کی بھی دھجیاں اس نے ہی اڑائی ہیں۔بھارت کو اگر اس وقت عالمی برداری کا سب سے بدترین ریکارڈ رکھنے والا ملک قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔اسکے اکثر پڑوسی ممالک بھارت کے رویے سے نالاں ہیں اور ایک طرف اگر اس نے چین کے ساتھ سرحدی معاملات میں کشیدگی کا ماحول بنا رکھا ہے تو دوسری طرف مالدیپ، سری لنکا اور بنگلہ دیش کےساتھ بھی بھارت نے سرحدی معاملات میں معاندارنہ رویہ اپنا رکھا ہے۔ اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اس بدترین ریکارڈ کے باوجود وہ سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کیلئے لابنگ میں مصروف ہے، عالمی برداری کے سامنے اس کا اصل چہرہ آچکا ہے اور بھارت اس وقت سفارتی سطح پر تنہائی کا شکار نظر آرہا ہے۔بھارت ہر وقت جن ہتھکنڈے کے ذریعے پاکستان کی سالمیت کے درپے رہتا ہے،ان کو ناکام بنانا وقت کا تقاضہ ہے۔سندھ طاس معاہد ہ پاکستان کی شہ رگ ہے ،اسے محفوظ رکھنا ضروری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے