آزادی، ا نسان کے لیے ایک قیمتی نعمت اور بیش بہا سرمایہ ہے،ہرانسان رحمِ مادرسے آزاد پیدا ہوتاہے؛اسی لیے آزادی اس کی شرست میں داخل ہے۔آزادی کا احساس انسان کے اندر خودداری وخود اعتمادی اور اپنے آپ کی تکمیل وتعمیر کے جذبات پیدا کر تا ہے؛لیکن جب آزادی کا یہ احساس ایک حد سے بڑھ جا تا ہے،یا اس احساس کو کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے اورانسان کی آزادی خطرے میں پڑجاتی ہے؛تو انسان میں بغاوت،حیوانیت،خود سری جیسے اوصاف پروان چڑھنے لگتے ہیں اور وہ اپنے دائرہ سے بڑھ کر دوسروں کی آزادی کو پائمال کرنے لگتا ہے۔پھر جب ایسے انسانوں کی معاشرہ میں کثرت ہوتی ہے؛تو انتشار،آپسی ٹکرا¶اور انارکی کے حالات پیدا ہوتے ہیں اور کبھی کُشت وخون کے بھیانک مناظر بھی سامنے آتے ہیں؛ لیکن چوں کہ انسان مدنی الطبع بھی ہے؛ اس لیے ابتدائے آفرینش سے انسان اپنی پیدائشی آزادی کے با وجود ایک نظام کی تابعداری کرکے اور ایک حکم راں کی ما تحتی قبول کر کے زندگی گذارنے کا عادی رہا ہے۔ ایک نظام حکومت سے وابستہ ہوکر وہ دشمنوں سے اپنے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔اور آپس میں بقائے باہم کے اصول پر کاربند ہوکر پرامن زندگی گذارتا ہے، حکم رانی کے الگ الگ طریقے الگ الگ زمانے میں رائج رہے ہیں۔ کبھی شخصی حکومت رہی، تو کبھی خاندانی حکومت۔کبھی استبدادی نظام رہا، تو کبھی عوامی نظام۔ تاریخ کے زیادہ تر مراحل میں ایسی حکومتوں کا غلبہ رہا جن کے حکمراں زمامِ اقتدار سنبھالتے ہی خدائی کا دعویداربن بیٹھے اور محکوم عوام کو اپنا غلام بنا کر ان سے اپنی بندگی کروانے لگے۔عمومی طور پر جمہوریت کی ساکھ محض انتخابات نہیں ہوتے،بلکہ اس کا براہِ راست تعلق جمہوری کارکردگی اور بالخصوص عام یا محروم طبقات کی سیاست سے ہوتا ہے – کسی بھی جمہوری معاشرے میں سیاست، جمہوریت اور بالخصوص انتخابات کی ایک خاص اہمیت ہوتی ہے۔ انتخابات کا تسلسل محض جمہوریت سے ہی نہیں، بلکہ اس کا براہ راست تعلق عوامی ترقی، خوشحالی، منصفانہ اورشفاف نظام سمیت ملک کی مجموعی ترقی سے جڑا ہوتا ہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس میں جمہوری سیاست کی بنیاد پر محاذآرائی کی سیاست کو ہمیشہ ہی بالادستی حاصل رہی ہے۔ نتیجتاً ہمارے یہاں داخلی سیاست میں استحکام اور مضبوط سیاست ہمیشہ سے ہی سوالیہ نشان کے طور پر رہی ہے۔اصل مسئلہ قومی، علاقائی اور افراد سے متعلقہ ایسے مسائل ہیں جن کی نوعیت اجتماعیت کے ساتھ جڑی ہو، اس کے مقابلے میں شخصیات کے درمیان قید ہوجائے تو پھر سیاست کو صاف اور شفاف کرنا مشکل کام بن جاتا ہے۔یہ واقعی ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ایشوزکی بنیاد پر سیاست کو آگے بڑھانے کے بجائے فروعی مسائل یا شخصیت پرستی جیسے مسائل میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔آج کل ملک پاکستان میں الیکشن الیکشن کا جس طرح راگ الاپا جارہا ہے اس حوالے سے میں سمجھتا ہوں محترم ڈاکٹر حسن فاروقی نے جس طرح اس مسئلہ کی اہمیت کے خد و خال واضح کیے ہیں اس کے بعد پھر مزید کہنے کی کچھ گنجائش نہیں رہتی ہے آزادی(ریٹائرمنٹ کے بعد) جس بے باکی سے ان کا قلم رواں دواں ہے اور وہ مسئلے کی تہہ تک پہنچ رہے ہیں وہ شاید ان کی ریڈیائی زندگی کا نتیجہ ہے – وہ لکھتے ہیں کہ الیکشن الیکشن الیکشن…سوال یہ ہے کہ الیکشن ہو بھی جائیں تو پھر کیا ہو گا – دو صوبوں میں ہوں یا پورے پاکستان میں۔کیا الیکشن امرت دھارا ہے جس کے بعد شفا ہی شفا ہے، امن ہی امن ہے ۔ پورے ملک میں چین کی بانسری بجنے لگے گی؟۔ہرگز نہیں ۔ ابھی کچھ دنوں پہلےکی بات ہے تمام سیاسی جماعتیں حکومت حکومت کھیل رہی تھیں مگر چین کہاں تھا؟ ماردھاڑ، پنجہ آزمائی بام عروج پر تھی۔ مخالفین کو چاروں شانے چت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا تھا جو ہنوز جاری ہے۔ الیکشن کے بعد بھی یہ کھیل اسی شدومد کے ساتھ جاری و ساری رہے گا۔ تو کیا پھر انتخابات نہ کرائے جائیں؟ جی نہیں یہ طرز فکر بھی درست نہیں۔ اسمبلیوں کے اختتام پر نوے دن کے اندر اندر اور ہر پانچ سال بعد عام انتخابات کا انعقاد آئینی تقاضا ہے لہٰذا انتخابات ضرور ہونے چاہئیں۔ جی ہاں یہ انتخابات تو ہوں گے تاہم عوام کے پاس کوئی دوسرا انتخاب نہیں ہے پھر سے انہی پر تکیہ کرنا ہو گا جو بار بار آزمائے ہوئے ہیں۔ پھر سے پرانے وعدوں پہ اعتبار کرنا ہوگا لیکن جب بعد ازاں وہی کھیل کھیلا جائے گا جو کئی برسوں سے جاری ہے تو پھر بتائیے عوام کدھر جائیںگے؟ عوام کو تو امن چین اور روزگار چاہیے بس..! اس وقت عالم یہ ہے کہ قرضوں کے آہنی شکنجے سے گردن چھڑانے کیلئے مزید قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ اسے بھول جائیے کہ 2013 میں قرضوں کا مجموعی حجم آٹھ ہزار ارب روپے تھا، نواز حکومت نے 16 ہزار ارب کر دیا اور پھر عمران کے دور میں بیس ہزار ارب روپے ہوگئے۔ الیکشن کے بعد بننے والی نئی حکومت ان بیس ہزار کو برا بھلا کہتے کہتے مزید بیس ہزار ارب کا اضافہ کر دے گی اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا ۔ عوامی سروے کے مطابق عوام الناس کی بڑی تعداد سیاسی جماعتوں یا لیڈروں کی موجودہ کھیپ سے کسی طورپر مطمئن نہیں لہٰذامیرا یہ پختہ یقین ہے کہ آئندہ الیکشن میں کسی ایک پارٹی کادو تہائی اکثریت سے فتحیاب ہونا ممکن نہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پارٹی رہنماوں کے باہمی اختلافات اب نفرت اور دشمنی میں بدل چکے ہیں۔ لہٰذا ایک یا دو صوبوں میں حکومت بنا لینے کے باوجود مرکز میں حکومت بنانا اور اسے کامیابی سے چلانا آسان نہ ہو گا۔ آپ نے نوٹس کیا ہو گا کہ اکثر حکومتی اقدامات کے بر خلاف عدلیہ فیصلہ سنا دیتی ہے اور کام رُک جاتا ہے۔ پچھلی حکومتوں کا گِلہ تو آپ نے اکثر سنا ہی ہو گا کہ ہماری رجیم کیوں چینج کی، مجھے کیوں نکالا؟فلاں عدالتوں کا لاڈلا ہے اور فلاں نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہر کوئی مداخلت کا رونا روتا ہے۔ الیکشن کے بعد جب نئی حکومت بنے گی تو کیا یہ روش ختم ہو جائے گی؟ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ گلگت بلتستان سمیت چاروں صوبوں میں ہماری حکومت ہوگی تو جناب یہ ایک خواب کے سوا کچھ نہیں نہ ہی دو تہائی اکثریت کسی ایک کا مقدر بنے گی۔ پہلے بھی جوڑ توڑ کے ساتھ حکومتیں بنتی آئی ہیں، اگلے الیکشن کے بعد بھی جوڑ توڑ کے ساتھ ہی حکومت بنے گی۔ دراصل ہم لوگ جس حد تک مذہبی، لسانی، علاقائی گروہ بندیوں اور ذاتی مفادات میں بٹ چکے ہیں اس ماحول میں ایک قومی سوچ کا بیدار ہونا کسی کرشمے کے بغیر ممکن نہیں۔ کیا کریں کہ ہار ماننا ہمارے قومی مزاج کا حصہ نہیں رہا۔ جیت جائیں تو کہتے ہیں سب ٹھیک ہے اگر ہار جائیں تو دھاندلی کا نعرہ لگا کر سڑکوں پر جلسے جلوس اور ریلیاں نکالتے ہیں پھر ہارس ٹریڈنگ شروع ہو جاتی ہے اور پھر دھڑن تختہ…ٹھیک ہے اغیار بھی اس کھیل میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہوں گے جنہیں ہماری ہنگ پارلیمنٹ ہی سوٹ کرتی ہے مگر ہم خود بھی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں کسی سے کم نہیں۔ قارئین کرام اس سارے پس منظر میں بتائیے کہ آئندہ الیکشن کے بعد بھی کیا اچھا ہو گا؟ لہٰذا آج وہ وقت آن پہنچا ہے کہ ہم یہ فیصلہ کریں کہ آیا ہم نے اس لولی لنگڑی جمہوریت کے ساتھ ہی عدم استحکام کا سفر جاری رکھنا ہے یا اپنا قبلہ درست کرنا ہے۔ ہم اگر واقعتاً اپنا قبلہ درست کرنا چاہتے ہیں تو پھر کچھ نہ کچھ روش سے ہٹ کے کرنا ہوگا۔ یہ مان لیتے ہیں کہ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے، مگر جناب جمہوریت ہے کہاں؟ یہ مانا کہ آئین کی پاسداری ضروری ہے مگر یہ کوئی آسمانی صحیفہ بھی نہیں کہ جس میں ردوبدل نہ کیا جا سکتا ہو۔ حقیقت یہ ہےکہ یہاں ہر کوئی چوہدری ہے جو کسی دوسرے کی چوہدراہٹ تسلیم نہیں کرتا۔ مکہ کے سرداروں کا بھی یہی حال تھا سب سرداروں کی موجودگی میں کسی ایک کی سرداری برداشت نہ کی جاتی۔ حجرِ اسود کی تنصیب کا جھگڑا آپ نے پڑھا ہو گا جس کا حل نبی کریم ﷺ نے پاور شیرنگ فارمولا کے تحت نکالا یعنی حجرِ اسود چادر میں رکھ کر تمام سرداروں کو پّلو پکڑا دیا۔ یوں وہ کام خوش اسلوبی سے سر انجام پا گیا۔ ہمارے جمہوری نظام میں بھی سپلٹ پاور تھیوری اختیار کرتے ہوئے کچھ ایسی ہی تبدیلیاں کرنا ہونگی۔ اس تھیوری کے تحت جمہوری نظام کے اندر رہتے ہوئے اختیارات کا مرکز وزیراعظم کی بجائے مجلس شوریٰ یا قومی سلامتی کونسل کو بنانا ہو گا۔ کونسل کا سربراہ وزیراعظم ہو جبکہ اس کے ارکان میں تمام ”سردار“ یعنی تمام وزرائے اعلیٰ، آرمی چیف ، چیف جسٹس پاکستان اور اپوزیشن لیڈر ہوں۔ اس طرح قومی مفاد میں کیے گئے تمام فیصلوں پر تمام ذمہ داران یکساں طور پریا اکثریت رائے کی بنیاد پر متفق ہونگے تو پھر نہ تو کوئی فیصلہ عدالتوں میں چیلنج ہوگا اور نہ ہی کوئی سیکورٹی رِسک ہو گا۔ یوں ہم استحکام کی جانب گامزن ہو سکیں گے مگر اس کیلئے قومی ڈائیلاگ کرنا پڑے گا۔ اگر مسئلے کا کوئی حل نہ نکالا تو عوام کے آگ بگولا چہروں کو دیکھ لیجئے، یہ آخری موقع ہے۔
کالم
کیا صرف الیکشن ہی ضروری ہے
- by Daily Pakistan
- مارچ 3, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 679 Views
- 2 سال ago