کالم

بھارت میں نماز عید جرم بن گئی

riaz chu

بھارتی ریاست اترپردیش میں عید کے موقع پر مسلمانوں نے 3 عید گاہوں کے باہر سڑک پر نماز ادا کی تھی۔ ہندو انتہا پسند انتظامیہ نے نماز عید کی ادائیگی پر جا جماو¿، بابو پورہ اور بجریا کے علاقوں میں 1700 مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج کرلیے۔ اترپردیش کے مسلمان دشمن وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ نے 2019 میں مسلمانوں کو وائرس قرار دیاتھا۔ اترپردیش کی ہندو انتہا پسند حکومت مسلمانوں پرناموں پر رکھے گئے کئی شہروں کے نام تبدیل کرچکی ہے۔ جن شہروں کے نام بدلے گئے ان میں مصطفی باد کا نام رام پور، الہ آباد کو پریاگراج ، فیض آباد کوایودھیہ اور فیروز آباد کو چندر نگر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ بھارت کے مختلف شہروں میں کھلی جگہوں پر نماز ادا کرنے پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے عہدیداروں نے مقدمات درج کرنے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسلمانوں کو نشانہ بنانا قرار دیا ہے۔سابق مسلمان رکن اسمبلی عتیق احمد اور ان کے بھائی کو ممبئی میں 15 اپریل کو پولیس کی حراست میں ہندو حملہ آوروں نے قتل کردیا تھا جبکہ اس واقعہ سے چند روز قبل عتیق احمد کے 19 سالہ بیٹے کا پولیس نے ماورائے عدالت قتل کر دیا تھا۔بھارت میں نریندر مودی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے مسلمانوں کی مشکلات میں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے جب کہ اب عبادات کی ادائیگی اور مذہبی تہوار منانا بھی مشکل تر ہو گیا ہے۔ نماز عید کے اجتماعات عماماً عید گاہ اور مساجد کے ساتھ ساتھ ان سے متصل سڑکوں پر منعقد ہوتے ہیں کیونکہ لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہوتی ہے اور یہ روایت برسوں سے دنیا میں قائم ہے۔اس سے قبل بھی مسلمانوں کی جانب سے سرکاری زمین پر کھلے میں ادا کی جانے والی نمازوں نے دائیں بازو کے گروہوں کی جانب سے شدید احتجاج کو جنم دیا ہے جنہوں نے گزشتہ ماہ ایک جائے نماز پر گائے کا گوبر پھیلا دیا۔ پرامن طریقے سے دعا کرنے والے مسلمانوں کو “جے شری رام” کے نعروں کا سامنا کرنا پڑا۔اکتوبر میں، ہندوو¿ں کے سخت گیر لوگوں نے شہر کے ایک اور علاقے میں نماز میں خلل ڈالا تھا۔ بعد ازاں پولیس نے موقع پر پہنچ کر 30 افراد کو حراست میں لے لیا۔اس واقعے کے بعد، گڑگاو¿ں انتظامیہ نے کہا کہ مسلمان پہلے سے متفقہ 37 مقامات میں سے آٹھ پر نماز نہیں پڑھ سکتے۔ مقامی لوگوں کے “اعتراضات” کے بعد اجازت منسوخ کر دی گئی ہے اور مزید کہا کہ اگر اسی طرح کے “اعتراضات” اٹھائے گئے تو دوسری سائٹوں کے لیے اجازت منسوخ کر دی جائے گی۔بھارت میں سینکڑوں مذاہب ہیں۔ الگ الگ تہذیب و تمدن ہے۔ بھارت ایک سیکولر ملک ہے جس کا آئین سیکولر ہے ، جس کی روح سیکولر ہے اور ملک میں رہنے والے 70 فیصد لوگ بھی سیکولر ہیں۔سیکولر آئین ملک میں بسنے والے سبھی لوگوں کو زندگی کے یکساں مواقع فراہم کرتا ہے مگر کچھ عرصہ سے نریندر مودی جیسے فاشسٹ ذہنیت کے لوگ سیکولر لوگوں پر حاوی ہوگئے ۔ان لوگوں نے پوری ڈھٹائی کے ساتھ بھارت کو ہندو راشٹر کی طرف گامزن کر دیا ہے۔ سب کچھ تبدیل کر دیا اور سیکولر عوام دیکھتی ہی رہ گئی۔ بھارت قومیت کے نشے میں آمریت کی طرف رواں دواں ہے۔نریندر مودی کے اقتدار کی صحیح تصویر عالمی جریدے دی اکانومسٹ نے یوں کھینچی کہ بھارتی چہرے سے جمہوریت کا مصنوعی نقاب نوچ ڈالا۔ میگزین کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیاکہ تمام ادارے بشمول عدلیہ بھارت کو یک جماعتی ریاست بنانے میں آلہ کار ثابت ہو رہے ہیں۔بھارتی عدالتیں مودی سرکار کی کٹھ پتلی بن چکی ہیں۔ ہزاروں مقدمات زیر التوا اور بے گناہ لوگ برس ہا برس سے انصاف کے منتظر ہیں۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت آمرانہ اور ظالمانہ مستقبل کی طرف گامزن ہے جہاں صرف طاقت اور طاقتور کا بول بالا ہے۔مودی سرکار نے 5 اگست 2019کومقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ حکمرانی مسلط کی۔اس دوران ہزاروں بے گناہ کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا لیکن عدلیہ خاموش رہی۔ یو پی پی اے میں ترمیم سے مسلمانوں کو دہشتگردی کے الزام میں نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ آزادی اظہار پر بھی غاصبانہ قانون بنائے گئے۔دہلی پولیس نے حکومتی پشت پناہی میں شہریت ترمیمی ایکٹ 2019 کے خلاف مظاہروں کے دوران مسلمانوں پر شدید مظالم ڈھائے جس پر عدلیہ نے تماشا دیکھا۔
متنازعہ سی اے اے 2019کیخلاف 140سے زائدپٹیشنز کی سماعت مسلسل التوا کا شکار ہے ۔ زیرالتوامقدمات میں اکثریت اقلیتی گروہوں کی ہے ۔ایک چوتھائی وہ مقدمات جن میں ایک سال سے زائدعرصے سے بیگناہ لوگ جیلوں میں بندہیں۔ معلومات کے حصول کے حق سے متعلق قوانین میں ترامیم سے بھی مودی کے غاصبانہ عزائم کا ایک اور ثبوت ملتاہے۔ماضی میں بھارتی عدلیہ اور اداروں نے آزادانہ اور شفاف رویہ اختیار کیا مگر موجودہ حکومت کے اقتدار میں تمام ادارے بشمول عدلیہ بھارت کو یک جماعتی ریاست بنانے میں آلہ کار ثابت ہو رہے ہیں۔ مودی نے اپنے اقتدار کے دوران قومی اداروں کو سیاسی رنگ میں رنگنے کی بھرپور کوشش کی۔ بی جے پی اور ہندوتوا کے پیروکاروں کو اعلیٰ حکومتی عہدوں سے نوازا جا رہا ہے۔ حکومت کی پالیسیاں نریندر مودی کو انتخابات جیتنے میں مدد کر سکتی ہیں لیکن وہی پالیسیاں ملک کے لیے سیاسی زہر ثابت ہو سکتی ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے جب ’دی اکانومسٹ‘ جریدے نے مودی کے بارے میں کچھ شائع کیا ہے۔ جریدے میں اس سے قبل بھی رپورٹس شائع ہوتی رہی ہیں۔وزیر اعظم نریندر مودی کی 2013 کی انتخابی مہم کے دوران بھی ’دی اکانومسٹ‘ نے ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ اس وقت کی کور سٹوری کا موضوع تھا کہ ’کیا مودی انڈیا کو بچا پائیں گے یا تباہ کر دیں گے۔‘اب حالیہ تجزیے میں کہا گیا ہے کہ تمام مذاہب کی عزت کرنے والے آئینی اصولوں کی حیثیت کم کرنے کی وزیراعظم مودی کی کوششیں بھارتی جمہوریت کو نقصان پہنچائے گی جو دہائیوں تک جاری رہ سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے