سچے معاشرے میں جس طرح برے آدمی کا موجود رہنا ناممکن ہوتا ہے اسی طرح جھوٹے معاشرے میں سچے انسان کا وجود مشکلات کا سبب بنتا ہے نیک اور ایماندار آفیسر ہمیشہ اپنے ساتھ سفری ساز و سامان باندھ کے رکھتا ہے کے چند دنوں کے بعد اسے کسی دوسری جگہ پر روانہ ہونا ہوتا ہے اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ موجودہ دور میں ایسے لوگوں کا وجود ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے لیکن ہم جس معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں اسے معاشرے کا نام دینا گناہ کبیرہ سے کم نہ ہوگا میری ذاتی رائے میں ایک قدر جو ہر جگہ موجود ہے اور جس پر کبھی کسی نے شاید غور نہیں کیا وہ احساس زیاں کا فقدان ہے جس پر اقبال نے بروقت توجہ دلائی تھی لیکن ہم نے انہیں ایک شاعر سے زیادہ درجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے۔دکھ اس بات کا نہیں کہ قافلہ لٹ گیا دولت چلی گئی یہ سب متاع پھر جمع ہو سکتی ہے مگر افسوس کے قوم کے دل سے احساس زیاں مرگیا آج قوم احساس زیاں کے فقدان میں جی رہی ہے اسی لئے منزل ہم سے کوسوں دور بھاگ رہی ہے من حیث القوم ہم ابھی تک اپنی ترجیحات قائم نہیں کر سکے ہیں ابھی ہم پر نشان راہ واضح نہیں ہو رہے ہیں منزل یعنی حصول منزل تو بڑی بعد کی بات ہے ہم تو آنے والی نسل کے لیے کوئی واضح ترجیحات نہیں رکھتے بس ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ ہے جس میں سب بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں نہ پچھلے لوگوں نے کوئی ترجیحات قائم کی ہیں اور نہ ہم میں سے کوئی اس پہلو سے دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے ہم جس روش پر چل رہے ہیں اس سے ملک کو کیا خاندان نہیں چلایا جاسکتا ہے ہم نے کبھی اجتماعی نظم میں آنے کا سوچا ہی نہیں ہے بلکہ بحیثیت فرد اپنی ذمہ داری سے اغماض برت رہے ہیں کیا آنے والی نسل کے لیے کوئی سنجیدگی کے ساتھ ہم نے کوئی منصوبہ بندی کی ہے؟ کیا ہم واضح طور پر ترجیحات کا تعین کر چکے ہیں کیا ہم صرف ان کےلئے دلدل تیار نہیں کر رہے ہیں؟ جس سے وہ کبھی نہیں نکل سکیں گے بچہ تو چھوٹی عمر سے سیکھنا شروع کر دیتا ہے ہم جیسا اس کو ماحول دیں گے وہ اسے قبول کرلیتا ہے ہم یورپ کے معاشرے پر بری طرح تنقید کرتے ہیں کے وہ کس طرح بے راہ روی کا شکار ہوچکا ہے لیکن آپ میری اس بات سے اتفاق ضرور کریں گے کہ وہ ترجیحات کے حوالے سے بڑی واضح سوچ رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ بچے کے لیے عملی نمونہ ان کے والدین ہوتے ہیں پچھلے دنوں ایک کتاب میرے مطالعہ سے گزری جس میں ترجیحات کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ جو میں آپ کے گوش گزار کر رہا ہوں مصنف لکھتا ہے کہ لندن کے ایک فلیٹ میں ایک میاں بیوی اپنے چار پانچ سال کے بچے کے ساتھ سکونت پذیر تھے دونوں صبح دفتر جانے سے پہلے اپنے بچے کو ڈے کیئر سینٹر میں چھوڑ جاتے تھے ان کے فلیٹ میں ایک اضافی کمرہ تھا جو انہوں نے برطانیہ تعلیم کےلئے آئے ہوئے ایک نوجوان کو کرائے پر دے رکھا تھا ایک صبح چھٹی کے دن دونوں میاں بیوی کو کسی رشتے دار کی آخری رسومات میں جانا پڑا اس ہنگامی صورتحال میں وہ اپنے بچے کو ساتھ لے کر نہیں جا سکتے تھے انہوں نے مہمان نوجوان پر بھروسہ کرتے ہوئے بچے کو اس کی نگرانی میں چھوڑا اور آخری رسومات میں شرکت کے لیے چلے گئے میاں بیوی کے جانے کے کافی دیر بعد مہمان نوجوان کو جو اپنے کمرے میں بیٹھا کام کر رہا تھا کسی چیز کے ٹوٹنے کی آواز سنائی دی وہ اپنے کمرے سے باہر نکلا اور دیکھتے ہوئے باورچی خانے میں جا پہنچا جہاں چار پانچ سال کا بچہ سہما ہوا کھڑا تھا اور فرش پر شیشے کے جگ کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے مہمان نوجوان نے صورتحال کو سمجھا اور بچے کو حوصلہ دیا کہ وہ ڈرے نہیں اگر اسے والدین کا خوف ہے تو جب اس کے والدین واپس آئیں گے اور جگ کے متعلق دریافت کریں گے تو وہ انہیں کہہ دے گا کہ یہ جگ اس بچے نے نہیں بلکہ میں نے توڑا ہے تھوڑی دیر بعد بچہ دوبارہ کھیل کود میں مصروف ہو گیا شام کو میاں بیوی واپس آئے تو اس بچے نے جگ ٹوٹنے کا سارا واقعہ والدین کو بتا دیا اور ساتھ ہی مہمان نوجوان کی پیشکش بھی رات گزر گئی مہمان نوجوان کہتا ہے کہ صبح کے وقت حسب معمول جب وہ خاتون دفتر کے لیے جاتی تھی اس وقت میرے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی میں نے دروازہ کھولا تو بچے کی ماں دروازے پر تھی اور بغیر کسی تمہید کے اس نے کہا کہ آپ کے پاس 24گھنٹے ہیں آپ اپنے لیے نئی رہائش تلاش کرلیں ہم آپ کو مزید یہاں نہیں رکھ سکتے نوجوان نے حیرت سے پوچھا کہ راتوں رات کیا معاملہ ہوا ہے تو خاتون نے جواب دیا کہ آپ نے ہمارے بچے کو جھوٹ سکھانے کی کوشش کی یو ں آپ نے ہماری پانچ سال کی محنت ضائع کردی بچے نے ترغیب اور دبا¶ کے باوجود والدین کو سچ بتایا اور پھر والدین کا ردعمل ہمیں بتاتا ہے کے والدین کی ترجیحات کیا تھی اگر والدین کی ترجیح اپنے بچے کو سچ سیکھانا نہ ہوتی تو یقینا یہ ردعمل بھی نہ ہوتا اور بچہ بھی باآسانی الزام مہمان نوجوان پر دھر دیتا اپنے کیے کا الزام دوسروں پر دھرنا ہمارے سماج اور گھرانوں میں ایک عام اور معمولی سی بات سمجھی جاتی ہے وجہ واضح ہے کہ اخلاقی اقدار اور بچوں کی تربیت کے لئے ہمارے والدین کی ترجیحات واضح نہیں ایک خاندان کی ترجیحات اور اہداف کیا ہونے چاہیے انہیں اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا خاکہ کیسے بنانا چاہیے اور ترجیحات کا تعین کیسے روزمرہ معاملات میں والدین کی رہنمائی کرتا ہے اور کیسے روز مرّرہ فیصلوں اور تعلقات پر اثرانداز ہوتا ہے آئندہ کسی کالم میں اس کا جائزہ لیں گے بچوں کی تربیت اور نشو و نما کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ والدین کا واضح ترجیحات کا نہ ہونا اور ان ترجیحات کے مطابق منصوبے کا نہ ہونا ہے والدین عموما یہ سمجھتے ہیں کہ معاشرے میں پھیلتی ہوئی برائی مفقود ہوتی ہوئی اقدار یا میڈیا پر بڑھتی ہوئی عریانی فحاشی بچوں کی تربیت کےلئے سب سے بڑا مسئلہ ہے لیکن حقیقت میں بچوں کی تربیت کےلئے والدین کی واضح ترجیحات اور منصوبے کا نہ ہونا سب سے بڑا چیلنج ہے اگر والدین کی ترجیحات واضح ہو تو میڈیا اور معاشرے سے بہت سی منفی اقدار جو بچے سیکھتے ہیں وہ باآسانی فلٹر ہو سکتی ہیں لیکن جب والدین ترجیحات کا تعین ہی نہ کریں اور مطلوبہ ماڈل بچوں کے سامنے پیشی نہ کریں تو بچوں کے سامنے کوئی معیار نہیں ہوتا جس کی بنیاد پر وہ ایسی اقدار کو مسترد کر سکے جو ان کے اخلاقی نظام سے مطابقت نہ رکھتی ہوں یوں وہ جس چیز سے متاثر ہوتے ہیں چاہے وہ منفی ہو یا مثبت اسکو جذب کر لیتے ہیں اور وہ ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے چلئے آج تک جو ہوا سو ہوا آنے والی نسل کے لئے تو کوئی ڈھب کا معیار قائم کر جائیں ان کی عزت نفس اور تصور ذات کو مثبت بنانے کے لئے اور مثبت رویے کو پروان چرھانے کے حوالے سے کچھ عملی اقدامات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ہم ضرور ان کو ڈاکٹر انجینئر سول سروس آفیسر بنائیں مگر انہیں صحیح دینی اقدار کے ساتھ احساس زیاں کے فقدان کے مداوے کے ساتھ ملک میں موجود محاذ آرائی سے گریز کے ساتھ اور احترام پر مبنی رویے کے ساتھ ان کی زندگی کی تربیت کی تو شاید بہتری کے آثار ہویدا ہو جائیں۔