افواج پاکستان ملک کی جغرافیائی اورنظریاتی سرحدو ں کی پاسبان ہے اور میدان عمل میں رہتے ہوئے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دیکراس نے یہ ثابت کیاہے کہ وطن کے دفاع کے لئے افواج پاکستان کے سپاہی سے لیکرجرنیل تک خون کے آخری قطرے تک کانذرانہ پیش کرنے سے دریغ نہیں کریں گے مگر گزشتہ پچھترسالہ سیاسی تاریخ میں پہلی باریہ دیکھنے میں آرہاہے کہ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت جس نے چارسال تک اس ملک کے طول وعرض پر حکمرانی کی ۔آج اس کے قائد ببانگ دہل اسی فوج پر طعن وتشیع سے وارکرتے دکھائی دیتے ہیں اوراپنی ناکامیوں کا ساراملبہ وہ افواج پاکستان پر ڈالتے دکھائی دیتے ہیں۔ قومی اسمبلی سے آئینی طریقہ کار کے مطابق عدم اعتماد کی قرارداد پاس ہونے اور حکومت سے فارغ ہونے کے بعد اس جماعت کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان نے اسے امریکی انتظامیہ کی جانب سے ایک بھرپورسازش قرار دیا اور افواج پاکستان پرامریکیوں کے سہولت کار ہونے کاالزام لگایا۔ عمران خان نے پاک فوج کے سابق سپہ سالارجنرل قمرجاویدباجوہ کو اپنی حکومت کے خاتمے کاذمہ دار قراردیا اور کہاکہ اس سازش میں آئی ایس آئی کے سربراہ بھی شریک کار تھے حالانکہ حکومت جانے سے قبل عمران خان نے ایک جلسہ عا م میں ایک کاغذ کاٹکڑالہراکرعوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ امریکی انتظامیہ نے ایک سائفرکے ذریعے ان کو حکومت سے اتارنے کی دھمکی دی ہے اس لئے عوام ان کاساتھ دیں۔ حکومت سے خاتمے کے بعد انہوں نے اپنی توپوں کارخ افواج پاکستان ، آئی ایس آئی اور اعلیٰ عدلیہ کی جانب موڑ دیا ،بھرے جلسوں میں چیف جسٹس عمرعطاءبندیال کی تصاویر کے ساتھ نازیباسلوک کیاجاتارہا جو آج بھی سوشل میڈیا پر بطور ثبوت موجود ہے ،اس پر تاریخ میں پہلی بار آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر کے سربراہان کومشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرناپڑا۔ اس پریس کانفرنس میں آئی ایس آئی کے سربراہ نے پہلی باریہ انکشاف کیاکہ ساق وزیراعظم عمران خان نے سابق سپہ سالار کواس شرط پرتاحیات آرمی چیف بنانے کی پیش کش کی کہ ان کی حکومت کو برقرار رکھاجائے مگر پاک فوج کے اس سپہ سالارنے جواباً یہ کہاکہ فوج مکمل طورپر غیرجانبدار اور غیرسیاسی ہے اور اب وہ سیاسی معاملات میں ہرگز مداخلت نہیں کرے گی جس پر یہ ردعمل مزید تیز ہوگیا بعد میں وزیرآبا د کے قریب ایک مبہم اور مشکوک قاتلانہ حملے کے بعد عمران خان نے اس حملے کاذمہ دار پاک فوج کے ایک حاضرسروس جرنیل پرلگادیا اور مطالبہ کیاکہ ان کے خلاف باضابطہ ایف آئی آردرج کرکے انہیںگرفتار کیاجائے اور شامل تفتیش کیاجائے حالانکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاک فوج کے حاضرسروس ملازمین کے خلاف کسی قسم کی کوئی ایف آئی آر درج کرنے کی آئینی آپشن موجود نہیں ہے ،ایک بارپھرپھرعمران خان نے فوج کوبدنام کرنے کےلئے اسی حاضرسروس افسر کیخلاف پروپیگنڈامہم شروع کردی ہے اور چند روز بیشتراپنے ایک ویڈیو پیغام میں ایک بار پھراسی افسر پرالزامات کی بوچھاڑکی ہے جس کے جواب میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے بغیر کسی ثبوت کے حاضر سروس اعلیٰ فوجی افسر پر انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور بے بنیاد الزام عائد کیا ہے،یہ من گھڑت اور بدنیتی پر مبنی الزام انتہائی افسوسناک، قابل مذمت اور ناقابل قبول ہے۔گزشتہ ایک سال سے منصوبے کے تحت پاک فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں کے خلاف پروپیگنڈا کیا جارہاہے۔ سیاسی مقاصد کے حصول کےلئے اشتعال انگیزی اور سنسنی خیز پروپیگنڈے کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا ہے،متعلقہ سیاسی رہنما قانونی راستے کا سہارا لیں اور جھوٹے الزامات لگانا بند کریں،ادارہ واضح طور پر جھوٹے اور غلط بیانات اور پروپیگنڈے کےخلاف قانونی کارروائی کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔دوسری جانب ردعمل دیتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنمافواد چوہدری نے کہا کہ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز حیران کن ہے۔اگر عمران خان سمجھتے ہیں کہ ان پر قاتلانہ حملے میں کوئی افسر ملوث ہیں تو آزادانہ اور شفاف تحقیقات کے ذریعے ہی مطمئن کیا جانا چاہیے اور واضح کرنا چاہیے کہ ایسا نہیں ہے۔ الزام کی تحقیقات سے انکار اور ایسی پریس ریلیز سے بتارہے ہیں کہ پاکستان میں آپ قانون سے بالاتر ہیں، ایسے رویے قوموں کیلئے تباہ کن ہیں۔ اسد عمر نے کہا کہ آئی ایس پی آر سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ الزامات کے حل کےلئے قانونی راستہ اختیار کیا جائے ۔ عمران خان نے ایف آئی آر درج کرکے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس قانونی راستے کی حمایت ایک بہت مثبت قدم ہو گا ۔ عمران خان کے ان الزامات کی سمجھ نہیں آتی کہ ایک جانب وہ یہ کہتے ہیں کہ جنرل باجوہ نے ان کی حکومت ختم کرنے میں بھرپورکرداراداکیا پھر دوسری جانب وہ یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ پنجاب اور کے پی حکومتوںکو ختم کرنے کافیصلہ انہوں نے جنرل قمرجاویدباجوہ کے مشورے سے کیا،اب ان سے کوئی پوچھے ذرایک طرف آپ اسے اپنی حکومت کے خاتمے کاذمہ دارقراردے رہے ہیں تو دوسری طرف وہ اسی جرنیل کے مشورے پر اپنی دوحکومتیں ختم کرنے کےلئے تیار ہوگئے بلکہ حکومتیں ختم کرڈالیں اب وہ صاحب ذی شعوراس بات پربھلاکیسے اعتبارکرسکتاہے۔عمران خان خود وزارت عظمیٰ کے منصب پرفائزرہے ہیں ان کے منہ سے اپنی ہی افواج کیخلاف الزام تراشی ، دشنام طرازی زیب نہیں دیتابلکہ ان کایہ عمل پاکستان کے ازلی دشمنوں کو خوش کرنے کے مترادف ہے۔
صدرمملکت کاتقریب سے خطاب
پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جوجمہوری اورآئینی روایات کاحامل ہے ،کسی بھی جمہوری ملک میں آئین پرعملدرآمداس کے مضبوط جمہوری مملکت ہونے کی بنیاد فراہم کرتاہے۔اس حوالے سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ ملک میں سیاسی استحکام اور شہریوں کے بنیادی حقوق کو یقینی بنانے کےلئے آئین کی پاسداری معاشرے کے تمام طبقات کی ذمہ داری ہے، پاکستان میں سکول سے باہر بچوں کی تعداد 22.7ملین ہے جو ایک سنگین چیلنج ہے اور ان کی تعلیمی اور ہنر مندی کے نظام میں شمولیت کےلئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے،ملک کی آبادی کا 10فیصد خصوصی افراد کو بھی مرکزی دھارے میں لانا ضروری ہے ۔ انتظامی اتھارٹی کے علاوہ ریاست اور اس کے اداروں کا فرض ہے کہ وہ فلاح و بہبود پر مبنی نظام کے ذریعے معاشرے میں بہتری لائیں۔ آئین نے شہریوں کو اختیار دیا ہے جس سے سماجی انصاف پر مبنی سیاسی نظام کی حامل فلاحی ریاست کا ادراک ہوا ہے۔ آئین کی بالادستی بہت ضروری ہے کیونکہ اس کے ستون تعلیم، صحت، روزگار، اور سماجی اور معاشی انصاف سمیت مختلف شعبوں میں بنیادی حقوق کے اہداف کو متعین کرتے ہیں۔
سہ فریقی مذاکرات کامشترکہ اعلامیہ
پاکستان میں کامیاب سہ فریقی مذاکرات کے بعداس کااعلامیہ جاری کردیاگیاہے جس میں کہاگیاہے کہ تینوں فریقین نے سلامتی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا ۔مشترکہ اعلامیہ میں بتایا گیا کہ پرامن، مستحکم اور خوشحال افغانستان خطے کے مشترکہ مفاد میں ہے، باہمی احترام اور فائدے کے اصولوں پر مبنی سلامتی، ترقی اور تعاون کو مزید وسعت دینے کا عزم کیا گیا۔اجلاس میں سکیورٹی، منظم جرائم اور منشیات کی سمگلنگ کی روک تھام سمیت ٹی ٹی پی، ایسٹرن ترکستان اسلامک موومنٹ وغیرہ کو اپنی سرزمین استعمال کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ۔دوسری جانب عبوری افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ خطے میں معاشی خوشحالی اور رابطوں کیلئے پاکستانی کوششوں کو سراہتے ہیں۔ امیر خان متقی نے کہا کہ ہماری حکومت کو 20 ماہ ہو گئے، کئی چیلنجز پر قابو پانے کی کوشش کی مگر پابندیوں کی وجہ سے افغان بینکوں کو خام مال درآمد کرنے میں مشکلات ہیں۔ افغان حکومت نے بیرونی مدد کے بغیر 2 ارب 60کروڑ ڈالر کا بجٹ پیش کیا، عالمی بینک کے مطابق افغانستان میں مہنگائی کم اور افغان کرنسی مستحکم ہوئی، دیگرممالک کے ساتھ معاشی تعلقات میں پابندیاں بڑا چیلنج ہیں۔ یاد رہے کہ عبوری افغان وزیر خارجہ امیر متقی سہ فریقی مذاکرات کےلئے دورہ پاکستان میں موجود ہیں، دورے کے دوران انہوں نے عسکری اور سیاسی رہنماو¿ں سے اہم ملاقاتیں بھی کیں ہیں۔
اداریہ
کالم
سیاسی جماعت کی الزام تراشی اورآئی ایس پی آر کاجواب
- by web desk
- مئی 10, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 798 Views
- 2 سال ago