شہید ملت نواب زادہ لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم، ہندوستان کے علاقہ کرنال میں2 اکتوبر 1896ءمیں پیدا ہوئے۔پاکستان کے بطل جلیل16 اکتوبر 1951 ءکو راولپنڈی کمپنی باغ( اب لیاقت باغ) میں ایک جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے اور ان کی زبان سے ابھی صرف براداران اسلام کے الفاظ نکلے تھے کہ ان پر ایک کم بخت سید اکبر نامی شخص نے گولی چلا دی۔ قاتل کو پولیس نے موقعہ پر قتل کر دیا۔ شہادت کے وقت اس مرد خود آگاہی کی زبان پر کلمہ طیبہ کے بعد جو الفاظ تھے ” خدا پاکستان کی حفاظت کرے“رئیس ابن رئیس شہید ملت نواب زادہ لیاقت علی خان نے جب وفات پائی تو ان کی شیروانی کی جیب سے ایک رومال،ایک سگریٹ کیس اور سبز رنگ کے کپڑے میں لپٹا ہوا ایک چھوٹا سا قرآن مجید نکلا تھا۔آپ کا کل بنک بیلنس 750 روپے تھے۔ یہی لیاقت علی خان کا اثاثہ تھا۔ آپ نے اقتدار میں رہتے ہوئے کوئی بنک بیلنس جمع نہیں کیا۔ نہ ہی اپنے رہنے کے لیے کوئی گھر بنایا۔ نہ اپنے خاندان کے کسی فرد کے لیے کوئی فاہدہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ایثار، قربانی، خلوص اور دیانت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔لیاقت علی خان نے اکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی تھی۔1923 ءمیں ہندوستان واپس آئے۔اسی سال آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔1936ءمیں آپ مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل بنے۔ ان کا دور حکومت چار سال پر محیط ہے۔ لیاقت علی خان قائد اعظم کے دست راست تھے۔ہندوستان واپسی پر آپ نے ملک کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرانے کے لیے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔1926ءمیں آپ اُتر پردیش قانون ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔1924ءمیںقائد اعظم کی زیر قیادت مسلم لیگ کا اجلاس لاہور میں منعقد ہوا تھا۔اس اجلاس کا مقصد مسلم لیگ کو دوبارہ منظم کرنا تھا۔ اس اجلاس میں لیاقت علی خان بھی شریک ہوئے تھے۔لیاقت علی خان شمع آزادی روشن کرنے کے لیے تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظم کے شانہ نشانہ ساتھ دیا۔ قیام پاکستان کے بعد وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ وزیر دفاع کا عہدہ بھی ان کے پاس تھا۔ بطور وزیر دفاع ان کی وہ تقریر بہت مشہورہوئی جس میں انہوں نے دشمن کو آہنی مکا دکھاتے ہوئے کہا تھا” بھائیوںیہ پانچ انگلیاں جب علیحدہ ہوں تو ان کی قوت کم ہو جاتی ہے۔ لیکن جب یہ مل کر مکا بن جائیں تو یہ مکا دشمن کا منہ توڑ سکتا ہے“شید ملت کا یہی تاریخی مکا اتحاد و قوت کی علامت بن گیا۔1940ءمیں آپ ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1946 ءمیں جب مسلم لیگ نے عارضی حکومت میں شرکت کا فیصلہ کیا تو لیاقت علی خان مسلم لیگ کے مرکزی لیڈر تھے۔ اسی حیثیت سے آپ نے عبوری حکومت میں محکمہ خزانہ کا چارج سنبھال لیا۔ اس طرح وہ پہلے ہندوستانی وزیر خزانہ بنے کا اعزاز حاصل کیا۔28 فروری کو لیاقت علی خان نے ہندوستان کی مرکزی بجٹ پیش کیا۔ اس کامیاب بجٹ پیش کرنے پر ثابت ہوا کہ لیاقت علی خان ایک ماہر معاشیات و مالیات کے علاوہ ایک ماہر اقتصادیات بھی ہیں ۔ لیاقت علی خان مقاصد، نظریات، اصولوں کا مجموعہ تھے۔کوئی خوف یا ترغیب آپ کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی تھی۔ پختہ یقین،غیر متزلزل اعتماد اور معاملہ فہمی آپ کے نمایاں اُوصاف تھے۔ خدا پر ایمان عزم و خلوص اسلام سے محبت اور حق کی حمایت کے مالک تھے۔ان کے وزارت اعظمیٰ کے چار سال بڑے یاد گار ہیں۔ آپ نے پاکستان کو دفاعی، معاشی، اقتصادی اور صنعتی طور پر مستحکم کرنے کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ قیام پاکستان کے بعد اس کی اسلامی بنیادوں کو مستحکم کرنے کے لیے دن رات کوشاں رہے۔ کراچی میں ایک تقریر میں فرمایا تھا ” پاکستان کے عوام کو مجھ سے محبت ہے۔ اس کا بدل میرے پاس کچھ نہیں۔ صرف ایک جان ہے۔ اگر پاکستان کی بقا ،حفاظت اور عزت کے لیے خون بہانا پڑا تو لیاقت علی خان کا خون بھی اس میں شامل ہو گا“11 ستمبر 1948ءمیں جب قائد اعظم نے داعی اجل کو لبیک کہا تو لیاقت علی خان نے اس نازک وقت بڑی محنت اور حوصلہ سے حالات کو کنٹرول کیا۔ عوام کی ہمت بندھائی جو اس وقت سانحہ سے اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے۔ آپ نے لادینی عناصر اور باطل قوتوں کے ساتھ کبھی بھی سمجھوتا نہیں کیا۔ ہمیشہ نظریہ پاکستان اور اسلامی نظام حکومت کے قیام پر زور دیا۔ آپ نے فرمایا تھاپاکستان صرف اسلام اور صرف اسلام کی خاطر وجود میں آیا ہے۔ یہی اس کا مقصد وجود رہے گا۔ لیاقت علی خان کے دور حکومت میں 1940ءکی قرارداد مقاصد کو آئین کا حصہ بنایا گیا۔ اس کے تحت طے ہوا کہ پاکستان کا آئین اسلامی ہو گا۔ اس ابتدا کی وجہ سے 1973 ءمیں ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں موجودہ اسلامی آئین بنا۔ لیاقت علی خان نے اسلامی اتحاد کے لیے کام کیا۔ ان کے دور میں پاکستان میں اسلامی اقتصادی کانفرنس کراچی میںمنعقد ہوئی۔جو اسلامی دنیا کی اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس تھی۔