کالم

سیاسی جماعتیںاحساس ذمہ داری کامظاہرہ کریں

taiwar hussain

کامیا ب معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں حقوق و فرائض کا سلسلہ آسانی اور ذمہ داری سے چلتا رہے جس دور میں انسان کو حقوق کے حصول کےلئے جہدوجہد کرنا پڑے اسے جبر کا دور کہا جاتا ہے ، اگر دعا اور مسلسل دعا کرنا پڑے اسے ظلم کا دور کہا جاتا ہے اور جس دور میں کچھ لوگ حق سے محروم ہوں اور کچھ لوگ حق سے زیادہ حاصل کریں اور کرتے ہی چلے جائیں اسے افراتفری کا زمانہ کہا جاتا ہے اور اگر ہر جنس ایک ہی دام میں فروخت ہونے لگے تو اسے اندھیر نگری کہنا مناسب ہوتا ہے ، زندگی اگر حقوق، فرائض کی حدود سے باہر نکل جائے تو سرکش اور باغی ہوجاتی ہے ، حقوق کی ادائیگی محبت پیدا کرتی ہے اور حقوق کی پامالی نفرت کے سوا کچھ نہیں دیتی ۔ دیکھا جائے تو انسانی زندگی میں کئی حقوق ادا کرنا ہوتے ہیں جو لاشعوری اور شعوری طور پر ادا ہوتے رہتے ہیں ، غور کریں تو آپ کہہ اٹھیں گے کہ حقوق تین قسم کے ہوتے ہیں یعنی سماج یا معاشرے کے حقوق ذاتی حقوق اور سب سے بڑھ کر خالق کے حقوق ، معاشرے یا قوم کے حقوق میں سب سے مقدم حق یہ ہے کہ ہم اپنی قوم کو دیگر اقوام میں معزز بنائیں اور اس معیار کو کبھی گرنے نہ دیں ،اگر ہمارے با اثر اور با اختیار لوگ اپنے معیار سے بڑھ کر ملکی مفاد کو پیش نظر رکھیں تو نتیجہ شاندار ہوسکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسی بیماری پھیلی ہوئی ہے کہ یہاں مخصوص طبقہ ملک کے وسائل کو اپنے اختیارات میں لاکر اپنی تجوریاں بھرنے میں لگا ہوا ہے،بہت کم لوگ جن کے دل میں اللہ کا خوف اور ملک سے محبت ہے وہ مواقع ملنے کے باوجود قابل ملامت کام نہیں کرتے اور نہ ہی موقع سے فائدہ اٹھانا اپنا حق سمجھتے ہیں ، میں ایک طویل عرصے سے یہ محسوس کررہا ہوں کہ معاشرے کی اکثریت غیر ذمہ دار بنتی جارہی ہے ، وطن پرستی اور مفاد وطن کو پیش نظر رکھنے والے معاشرے میں کامیاب نہیں ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہم سب ملک کا سرمایہ ہیں ، ملک کے محافظ ہیں ، ہم قوم ہیں ایک وحدت ہیں ، اس دھرتی تک پہنچنے کیلئے بڑی قربانیاں دی گئی ہیں ، ہم ایک بہت بڑے حادثے سے دوچار ہوچکے ہیں لیکن ابھی تک ہم صحیح معنوں میں ٹھیک نہیں ہوئے ۔ ہم اس ملک کے امین ہیں یہ ملک ہماری شناخت اور ہمارا فخر ہے ، ہماری پہچان یہی ملک پاکستان ہے ، عوام کے بغیر ملک صرف جغرافیہ ہوتا ہے ،حکومت اور عوام ملکر وطن کی تعمیر کریں تو پھر ترقی ہوتی ہے ، ہم ابھی تک قبیلے ذاتیں فرقے ،صوبائی اور مذہبی عصبیتوں میں بٹے ہوئے ہیں ،ہم جب پاکستانی ہیں تو پھر سندھی بلوچی ، پٹھان،پنجابی کا کیا مطلب ہم صرف اور صرف پاکستانی ہیں ، یہی ہماری شناخت اورپہچان ہے۔حقوق اور فرائض کا خیال رکھنے والا معاشرہ ہمیشہ فلاحی ہوتا ہے ، اسلام سے زیادہ فلاحی سوچ اور عمل کسی دوسرے مذہب نے نہیں دیا۔ محبت اور شوق کی کمی نے ہمارے معاشرے میں بگاڑ پیدا کررکھا ہے ۔ ہم پاکستانی قوم بہت جذباتی ہیں اور دل کے کہے کو خاطر میں نہیں لاتے ، سوچنے والا ذہن اور محسوس کرنے والا دل بیدار ہوجائے تو بڑی مشکلات دم توڑنے لگیں ، ہم بہت ہی جذباتی قوم بن چکے ہیں ، خصوصاً نوجوان طبقہ جو جذبات کی رو میں بہہ کر اکثر نقصان اٹھاتا ہے ، ایسے حالات ہمارے لیڈر یا راہنما بناتے ہیں وہ اپنے مفادات کے حصول کیلئے انہیں قربانی کا بکرا سمجھتے ہیں ، حال ہی میں جن جن گھروں میں صف ماتم بچھی ہے کیا ہمارے راہنما یہ سمجھتے ہیں کہ کچھ رقم کی ادائیگی سے اس گھر میں دائمی سکون ہوجائے گا، بچوں کا باپ نہیں رہا ، بچے دردر کی ٹھوکریں کھانے کیلئے رہ جاتے ہیں ، بیوہ کی جان مال عزتداو¿ پر لگ جاتا ہے ، ماں باپ بہن بھائی اجڑ جاتے ہیں ، نہ مزمل ہونے والا زخم دل و دماغ کو چھلنی کردیتا ہے جس گھر میں کہرام بپا ہو ، اسی گھر والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ موت نے کیا نقصان پہنچایا ۔ باقی تو کیمرے کی زد میں رہ کر رسمی جملوں کی ادائیگی کے ساتھ چہرے کے ایکسپریشن ہی دیتے ہیں ، ہمارے راہنما یہ کیوں نہیں سوچتے کہ خالق کے خیال کو چھوڑ کر صرف مخلوق کے خیال میں گم رہنے والا ہمیشہ نقصان ہی اٹھاتا ہے اور یہی کچھ ہمارے سیاسی راہنماو¿ں کے ساتھ ہورہا ہے ، عوام کے ذریعے سے اقتدار کی مسند پر براجمان ہوکر وہ عوام سے کوسوں دور ہوجاتے ہیں ، انتخابات پر جتنا پارٹی فنڈاور ذاتی فنڈ خرچ کیا ہوتا ہے وہ نئے نئے حربوں سے پورا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ، اگر بدقسمتی سے اپوزیشن میں بیٹھنا پڑجائے تو پھر وہ دوسری پارٹی کو نہ کام کرنے دیتے ہیں اور نہ ہی خود کرتے ہیں ، قوم ٹکڑیوں میں بٹ چکی ہے ، آج کل جو سیاسی منظر ہے وہ بہت ہی پریشان کن ہے ، ملک کی معاشی حالت کبھی ایسی نہ تھی جیسی اب ہے ، لوگوں کو دوقت کی روٹی ملنا محال ہوچکا ہے ،پھر نفرتوں اور ذاتی دشمنیوں سے اظہار نے جلتی پر تیل کاکام کررکھا ہے ، تحریک انصاف کے چیئر مین کی زندگی اللہ نے بچائی ، مارنے والے نے تو کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی ، قوم اس وقت بہت ہی مایوسی کا شکار ہے ، ہم نے اپنے اداروں کو برا کہنے کی رسم ڈال دی ہے جو قطعی طور پر مناسب نہیں ، قومی اسمبلی ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہر پہلو پر سیر حاصل بات ہوسکتی ہے وہاں بحث،تمحیص کے بعد قوانین بنائے جاسکتے ہیں جو ملک کے مفاد میں ہوں اور قوم بھی متحد رہے ، قوم کو تقسیم کرنے کی فلاسفی قابل تعریف نہیں ہوسکتی ، سیاسی جلسے جلوسوں کی وجہ سے قومی املاک کو نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے ، اس کے تدارک کیلئے ایک تجویز ہے کہ اگر حکومت اس پر عمل کرلے تو بہتر ہوسکتا ہے ، کوئی سیاسی جماعت ملک کے کسی بھی حصے میں جلسہ جلوس کرنا چاہتی ہے تو اس جماعت کو اجازت دینے سے پہلے سیکورٹی فیس وصول کی جانی چاہیے جو آج کل کے زمانے کے مطابق کم از کم دو کروڑ روپیہ ہونی چاہیے وہ جماعت کیش یا پھر پے آرڈر کی صورت میں درخواست کے ساتھ یہ رقم جمع کرائے ، اجازت دینے کے بعد جب جلسہ جلسوس ہوچکے تو سروے کیا جائے کہ کسی جگہ اجتماع نے قومی املاک یا پرائیویٹ املاک کو نقصان تو نہیں پہنچایا اگر ایساہو تو سیکورٹی کی رقم سے وہ نقصان پورا کیا جائے ، اسطرح قوم کے ٹیکس کے پیسے سے بنی ہوئی سرکاری عمارتیں بھی محفوظ رہیں گی اور سیاسی جماعتوں کے ورکرز میں احساس ذمہ داری اور قومی املاک کو نقصان پہنچانے کی رسم بھی ختم ہوجائے گی ، سیاسی راہنما کو بھی ہدایات دینی چاہئیں کہ ان کے ممبران لوگوں کو تشدد کی طرف مائل نہ کریں ، ملک اور قوم کا نقصان اپنا ہی نقصان ہوتا ہے ، سیاسی جماعتوں کو اپنے ورکرز کی ٹریننگ کیلئے بھی مناسب اقدامات کرنا چاہئیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے