کالم

امداد آکاش:جہان شعر کا پاکستانی سفیر

گزشتہ سے پیوستہ
ضرت امداد آکاش نے کولمبیا سے ایک فیس بک پوسٹ میں پاکستانیوں کو خبر دی کہ؛ ”پیارے پاکستانیو یہاں کولمبیا میں تمہارے اقبال اور جناح کو کوئی نہیں جانتا ،ٹیگور اور گاندھی کو سب جانتے ہیں“یہ اطلاع ایمانداری اور درد مندی سے دی گئی تھی ۔شاعر کا خیال ہو گا کہ شاید متعلقہ ذمہ داروں کی آنکھیں کھل جائیں گی ۔ یہ پوسٹ پڑھ کر تھوڑی حیرت تو ہوئی ،لیکن پھر یاد آیا کہ؛ ٹیگور اور گاندھی کی مارکیٹنگ کرنے کےلئے تو ایک ملک موجود ہے۔جس کی وزارت خارجہ پورے خلوص اور نہایت پیشہ ورانہ طریقے سے دنیا بھر میں اپنے کلچر ، اپنے مشاہیر کی عظمت کا بیان اور اپنے لوگوں کی قبولیت اور محبوبیت کےلئے واقعتا دن رات محنت کرتی ہیں ۔دوسری طرف اقبال کا تصور اور جناح کا پاکستان کہیں اغواءبرائے تاوان ہو گیا،اور ریاست ان سے گریز کرتی ہے ۔ ایک قصہ سنیئے میںشاید 2015 میں ماریشش گیا ۔سرکاری مہمان تھا، مقصد اسلامک سینٹر پورٹ لوئیس، مہاتما گاندھی انسٹیٹیوٹ ،اور یونیورسٹی آف ماریشش میں لیکچرز دینا اور دیگر کلچرل ایکٹویٹیز میں شرکت کرنا تھا۔وہاں صحیح معنوں میں روحانی جمہوریت پائی جاتی ہے ۔ مسلم ، ہندو اور عیسائی آبادی مل جل کر رہتی ہے ۔ انڈیا وہاں کی مسلم اور ہندو کمیونٹی کےلئے بہت کچھ کرتا ہے۔اسکی ایک مثال مہاتما گاندھی کے نام پرایک بڑے تعلیمی ادارے کا قیام بھی شامل ہے ۔ہندوستان کی یونیورسٹیوں میں یہاں کے طالب علموں کو وظائف دیئے جاتے ہیں۔اسی طرح عیسائی آبادی کو پوچھنے کےلئے ایک دنیا موجود و متحرک ہے ۔حکومت میں اگر صدر مسلمان ہو تو وزیراعظم ہندو یا عیسائی ہوگا ۔یہاں مجھے میثاق مدینہ والی امت واحدہ نظر آئی۔ایک حیرت انگیز بات ہم پاکستانیوں کےلئے یہ تھی کہ وہاں کی صدر مملکت ایک مسلم خاتون تھیں،جو یونیورسٹی میں کیمسٹری کی پروفیسر بھی تھیں ۔ انہوں نے پاکستان سے آئے پروفیسر کو اپنے آفس میں ملاقات کا شرف بخشا ۔میرے ساتھ اردو اسپیکنگ یونین کے صدر بھی تھے ۔خیر ملاقات کی تفصیل کو الگ رکھتے ہوئے ،اصل بات کی طرف آتا ہوں۔اردو اسپیکنگ یونین کے صدر ،جو ماریشش کے بڑے صنعت کار بھی تھے ،مجھے پورٹ لوئس شہر کے وسطی علاقے میں ایک جگہ لے گئے۔بڑی بڑی عمارتوں میں گھرے ایک بہت بڑے خالی رقبے کے سامنے گاڑی کھڑی کرکے مجھے بتانے لگے کہ یہاں کی حکومت تینوں قسم کی کمیونٹیز کو یکساں سہولیات اور مراعات دیتی ہے۔یہاں انگلش اسپیکنگ یونین بھی ہے اور ہندی اسپیکنگ یونین بھی۔ یہاں ہم نے علامہ اقبال انسٹیٹیوٹ بنانے کےلئے حکومت سے یہ پلاٹ لے رکھا ہے۔ایک بار آپکے صدر پرویز مشرف یہاں آئے تھے تو انہوں نے وعدہ کیا تھاکہ پاکستان اقبال انسٹیٹیوٹ کی عمارات بنانے کےلئے رقم دے گا۔کچھ اسٹیمیٹس بھی طلب کیے گئے تھے۔ہم مسلم بڑے پرجوش تھے کہ یہاں ہم بھی ایک عالی شان ادارہ بنائیں گے لیکن اس کے بعد پاکستان سے کسی نے رابطہ نہیں کیا۔یہ پلاٹ اگر ہندی اسپیکنگ یونین کے پاس ہوتا تو اب تک انڈین گورنمنٹ بہت کچھ تعمیر کر چکی ہوتی۔آپ پروفیسر اقبال اسٹڈیز ہیں ، اسلام آباد رہتے ہیں۔آپکی وہاں بڑی اہمیت ہوگی(ٹکے سیر۔ہاہاہاہا)آپ وہاں متعلقہ منسٹری کو صدر کا وعدہ یاد دلائیں،پاکستان اقبال انسٹیٹیوٹ کے فنڈز جاری کرے تاکہ ہم یہاں بڑا ادارہ قائم کر سکیں اور یہاں کی مسلم کمیونٹی کا مرکز بنا سکیں۔میں نے سفیر محترم سے بات کی ، وہ دلنشین انداز میں مسکرائے۔یہاں اسلام آباد میں ایک دو دوستوں سے کہا ،جو مسکرائے تو نہیں ،لیکن ان کے چہروں پر صاف لکھا نظر آرہا تھا کہ سانو کی؟اب بتایئے جس ملک کی خارجہ پالیسی کی کوئی پالیسی ہی نہ ہو تو وہ کوئی ملک تو نہ ہوا۔ہماری حکومتوں کا جو طرز عمل ہے ،آپ دیکھتے جایئے، دس پندرہ سال بعد یہاں بھی اقبال اور جناح کے جاننے والے ناپید ہونگے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے