کالم

دوسروں کے جذبات کی قدر کیجئے

اسلام ایک دین فطرت اورامن و سلامتی کاعلمبردار ہے۔جس طرح اسلام دوسرے ادیان کواحترام دیتا ہے اس طرح دوسرے مذاہب کو بھی مہذب انداز سے اسلام کااکرام یقینی بناناہوگا،ناموس رسالت اورکلام الٰہی کے تقدس پرمٹھی بھر کفار کے ناکام حملے ناقابل برداشت ہیں۔اسلام نے سچائی پرزور اورصفائی کو نصف ایمان قراردیا ورنہ آج کے نام نہاد مہذب یورپی نہانا گناہ خیال کرتے تھے جبکہ یورپ میں جھوٹ عام تھا ۔ ظہوراسلام کے بعد انسانوں کوانسانیت کا مفہوم معلوم ہوا کیونکہ عہدجاہلیت میں دور دور تک کمزورطبقات کے بنیادی حقوق کا تصور تک نہیں تھا۔اعلیٰ حسب نسب کے قبائل کے نزدیک ادنیٰ قبائل سے تعلق رکھنے والے انسان انتہائی حقیر اور اچھوت تھے۔عام انسان کوحیوان سے بدتر سمجھا اور اسے روندا جاتا تھا ۔خواتین بھی اپنے حقوق سے محروم تھیں،بیٹیوں کوزندہ درگورکردیاجاتا تھا۔آج انسانیت کی اقدار اوراخلاقیات اسلامیت اور سراپا رحمت سرور کونین حضرت محمدرسول اللہ خاتم النببین صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی مرہون منت ہیں۔اسلام نے خواتین کوان کاجائز مقام واحترام دیا اورجائیدادمیں حصہ مقرر کرنے کے ساتھ ساتھ انکے حقوق متعین کئے،جس سے انکی عزت نفس اور انکے اندرخوداعتمادی بحال ہوئی۔میرے نزدیک انسان وہ ہے جسکا دل انسانیت کیلئے دھڑکتا ہو، جو انسانیت سے محبت کادم بھرتا ہو۔ جوانسان انسانیت سے عقیدت رکھتا ہو وہ زندہ ضمیر تصور کیاجاتا ہے اورجولوگ انسانیت سے بیزار ہیں ان کاوجوددھرتی پربوجھ سے زیادہ کچھ نہیں۔ بیمار، نادار اورمستحق بندوں کی انتھک خدمت سے انسانوں کو معبود برحق کی رضا کاراستہ ملتا ہے۔الرحمن نے اپنے بندوں کودوسروں کے ساتھ صلہ رحمی کاحکم دیا ہے کیونکہ جولوگ احسان جتا تے ہیں ان کانیک کام الٹا گناہ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یادرکھیں آپ کے جوبھی حالات ہوں ،کسی مرحلے پر محرومیوں کے ماروں سے ہرگز منہ نہ موڑیں، بوجوہ جولوگ ناامید ہیں ان کے ہاتھوں میں امید کادامن تھمادیں،انہیں حوصلہ دیں اوران کی رہنمائی ومسیحائی کریں ۔ عہد حاضر میں ڈاکٹر اے کیوخان ہسپتال ٹرسٹ اس ہو شربا مہنگائی کے دور میں معاشرے کے محروم طبقات کو فی سبیل اللہ بنیادوں پر علاج کی جدید سہولیات فراہم کررہا ہے،روزانہ کی بنیاد پرمستحق لوگ ڈاکٹر اے کیوخان ہسپتال ٹرسٹ کی مختلف اورمفید سروسز سے مستفید ہورہے ہیں۔ ڈاکٹر اے کیوخان ہسپتال ٹرسٹ اپنی خدمات کے بل پرمحروم طبقات کے نزدیک ٹرسٹ وردی بن کرابھرا ہے ۔ڈاکٹر اے کیوخان ہسپتال ٹرسٹ سے وابستہ ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف اپنے صادق جذبوں کے ساتھ بیماروں کی بھرپورخدمت کرتے ہیں ۔میں سمجھتا ہوں اس نفسانفسی کے دور میںجو انسان دوسروں اوربالخصوص ناداروں اوربیماروں کی” دعا” میں رہتا ہووہ کبھی” دوا” کامحتاج نہیں ہوتا ۔ اسلام نے حقوق العباد پربہت زوردیا ہے ۔ آپکانقصان ہوتا ہے توہوجائے لیکن کسی قیمت پردوسروں کاحق غصب نہ کریں ۔ اگرآپ اپنی زندگی کوسہل بنانے کے خواہاں ہیں تو دوسروں کیلئے آسانیاں پیداکریں ۔جہاں آپ اپنے حقوق پرسمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں وہاں اپنا ہرفرض بھی وقت پر پوراکریں ۔کوئی ریاست اپنے شہریوں کوان کے بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی بنائے بغیران سے فرائض کی بجاآوری کاتقاضا نہیں کرسکتی ۔ پاکستان میں طاقتور طبقات کوکمزوروں اورناداروں کے حقوق روندنے اوران کااستحصال کرنے سے روکنا ہوگا۔ ا نسانی حقوق کے علمبردار شہریوں میں انکے بنیادی حقوق بارے شعور اجاگر کرتے اوران کے حقوق کی پامالی کیخلاف آواز اٹھاتے رہیں۔کچھ دیر کیلئے اپنے چشم تصور کوزحمت دیجئے ، ایک دن صبح جب آپ گہری نیند سے بیدار ہوں اور اپنے آس پاس کسی دوسرے انسان کونہ دیکھیں ۔آپ کے سوا کوئی انسان زندہ نہ بچاہو۔ گویا اب آپ ساری دنیا کے مالک ومختار بن چکے ہیں۔ اس دن آپ کس قسم کے لباس زیب تن کرناپسندکریں گے ۔ آمدورفت کیلئے کس جدیدگاڑی کا انتخاب کریں گے۔قیام کیلئے کس قصرکومنتخب کریں گے۔اب دنیا بھر کے محلات،ہوائی جہاز، گاڑیاں، زروجواہر، سمیت خوشی کے ہرطرح کے اسباب ہونے کے باوجود آپ مسرت وشادمانی محسوس نہیں کررہے ہوں گے۔کیونکہ اب آپ کے پاس اپنی غمی خوشی بانٹنے کیلئے کوئی دوسرا نہیں رہا۔ اس موقع پرآپ کو اپنے پیاروں اورعام انسانوں کی قدر و قیمت سمجھ آئے گی۔ انسان ہمیشہ دوسرے انسانوں کے بغیر ادھورا ہے۔یقینا اس وقت آپ صمیم قلب سے اللہ ربّ العزت کی پاک اوربلندبارگاہ میں دعا کرینگے کہ اے معبود برحق یہ محلات اور جواہرات واپس لے لو اورمجھے میرے پیاروں سمیت انسانوں کو واپس کردو، ان تمام لوگوں کو واپس کردو جن کو میں دھوکہ دے کر دولت کے ڈھیر لگانے کی کوشش کررہا تھا۔میرے پیاروں اور عزیزوں کو لوٹا دو جن کی میں نے ان کی زندگیوں میں قدر نہ کی اور آسائشیں اکٹھی کرنے کی دھن میں اتنے خوبصورت رشتوں کو نظرانداز کر دیا۔ ان کے بغیر زندگی ہی بے معنی ہوگئی ہے۔ہماری بدقسمتی ہے کہ آج ہم مادہ پرستی کی دوڑ میں اس قدر دورنکل گئے ہیں کہ ہمیں اس بات کاادراک اور احساس تک نہیں رہا کہ ہم زندگی اورانسانیت جیسی انمول نعمت کو کس قدر بے پرواہی، بے فکری اور کس قدر ناشکری سے اپنے ہاتھوں سے بربادکئے جارہے ہیں ۔ آج ہم نے انسانیت اور انسانوں کی بجائے مال و دولت اور مادی اشیاءکواپنی اپنی زندگی کا محور و مرکز بنالیا ہے اور ہم اپنے عقل اور شعور کو انسانیت کی تعمیر کی بجائے انسانیت کی تخریب پر استعمال کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔زندگی کے بارے میں ہمارے رویّے اور ہماری سوچیں دن بدن کس قدر سفاکانہ اور ظالمانہ ہوتی جارہی ہیں اس کا اندازہ ہمارے معاشرے میں تیزی سے پھیلتی ہوئی بے حسی اور انتشار سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ فطرت کے اصول اور تقاضوں سے روگردانی ہماری فطرت ثانیہ اور ہماری روز مرہ زندگی کا اسلوب بن چکی ہے۔ میدان سیاست ہو، شعبہ تجارت ہو یا خونی رشتوں کی کہانی، جدھر دیکھو وہیں نفرتوں، عدواتوں، عدم برداشت اور ایک دوسرے کی ناقدری کا سورج سوا نیزے پر نظر آتا ہے ۔ احساس، محبت، چاہت اور خلوص سے عاری رویّے ہمیں نہ صرف خود سے، بلکہ زندگی سے بھی دوربلکہ بیزار کرتے چلے جا رہے ہیں ۔ آج ہمار ی تمام بھاگ دوڑ اور ترجیحات صرف سرمایہ سے شروع ہوتی اور اسی پر ختم ہو جاتی ہیں۔ ہم رشتہ داریوں اورتعلق داریوں کی بنیاد بھی کسی نا کسی مالی مفاد کی خاطر رکھتے ہیں۔ اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو بدصورت اور تلخ بنانے پر ہمیں افسوس تک نہیں ہوتا۔ ہم ہر وقت دولت اور لالچ کی ہوس میں رہتے ہیں اور ان بیش قیمت لمحات سے لطف اندوز ہونے کے بجائے ان کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اپنے ہاتھوں سے فناکر بیٹھے ہیں جو قدرت نے ہمیں جینے کیلئے عطاکئے ہوتے ہیں۔ انسانیت خصوصاً اپنوں کی قدر کیجئے، ان کے بغیر خوشی اور غمی دونوں بے معنی ہیں۔ ہمیں چاہئے زندہ، حساس اور باشعور انسانوں کی طرح زندگی بسر کریں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی اس لازوال اور بے مثال نعمت کو محبتوں، چاہتوں اور انسانیت کے نام کریں۔ زندگی کا احترام یقینی بناتے ہوئے دوسروں کی زندگیوں میںآسانیاں پیداکریں۔ہمیں اپنی زندگیوں کوباوقار اور بامقصد بنانا ہوگا۔ اپنی ذات کو دوسرے انسانوں کیلئے زحمت کی بجائے راحت کا سامان بنایا جاسکتا ہے۔ دوسروں کا احترام کریں، دوسروں کے کام آئیں۔دوسروں کی قدر کریں، دوسروں کے اختلاف رائے کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا سیکھیں کیونکہ زندگی بڑی مختصر ہے لہٰذاءاسے مزید خوبصورت بنانے کیلئے دوسروں کے جذبات واحساسات کی قدر کیجئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے