کالم

چودہ اگست پاکستان کا یوم آزادی

چودہ اگست ایک ایسا دن ہیے جب دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک پاکستان کے نام پر ابھرا۔ یہ ملک ہمارے اباواجداد کی قربانیوں کا ثمر ہے۔ اس کی ابتدا غدر کے بعد سر سیداحمد خان نے رسالہ اسباب بغاوت ہند لکھ کر کر دی تھی جس میں انہوں نے انگریزوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ 1857 کی جنگ آزادی کے ذمے دار مسلمان نہیں ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ انگریزی تعلیم حاصل کریں تاکہ معاشرے میں اعلیٰ مقام حاصل کر سکیں کیونکہ تعلیم کی وجہ سے ہندو اعلی عہدے اور نوکریاں حاصل کر رہیے تھے اور کم تعلیم یافتہ یا ان پڑھ ہونے ک وجہ سے مسلمانوں کو چپڑاسی تک کی نوکری بھی نہیں ملتی تھی۔ سرسید کی یہ تحریک کامیاب ہوئی اور آخر کار علی گڑھ سکول کالج کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا جس میں محب وطن رہنماﺅں سیاست دانوں کی ایک ایسی کھیپ تیار ہوئی جس نے تحریک پاکستان میں موثر کردار ادا کیا جن میں مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی جوہر کی خدمات قابل ذکر ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی کے پڑھے ہو?ے زعما نے ملکی سیاست معیشت اور بیوروکریسی میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کے حصول کے لیئے قائداعظم نے ہندوں اور انگریزوں کے ساتھ چومکھی جنگ لڑی۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے انیس سو چوالیس میں مسلم علی گڑھ یونیورسٹی کے وی سی ضیاالدین احمد کی طرف سے دیے گئے لنچ پر خطاب میں کہا کہ جب ہم انڈیا میں اسلام کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہیے کہ تحریک پاکستان اس وقت شروع ہو گئی تھی جب ہندوستان میں پہلے غیرمسلم نے اسلام قبول کیا تھا۔ دائرہ اسلام میں داخل والے ہندوں کو بہت سی مزہبی معاشرتی اور معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلمانوں کے ل?یے علہدہ مملکت کا تصور آکسفورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم چوہدری رحمت علی نے ایک کتابچہ, اب ورنہ کبھی نہیں, لکھ کر دیا بعد ازاں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے اپنے خطبہ الہہ آباد میں مسلم آبادی والے علاقوں پر مشتمل ایک الگ ملک بنانےکا تصور دیا۔ انیس سو چھ میں نواب محسن الملک اور نواب وقار الملک نے ڈھاکہ میں مسلمانوں کی علہدہ جماعت مسلم لیگ قائم کی کیونکہ وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ کانگرس ایک کٹر ہندو جماعت ہیے اور وہ مسلمانوں کےمفادات کا تحفظ نہیں کر سکتی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ قائد اعظم مایوس ہو کر لندن چلے گئے علامہ اقبال نے انہیں مسلسل خطوط لکھ کر واپس بلایا اور قوم کی قیادت کےلئے راضی کیا۔ مایوس کن نہرو رپورٹ کے جواب میں قائد اعظم نے اپنے شہرہ آفاق چودہ نقاط پیش کئے انیس سو چالیس میں منٹو پارک لاہور کے سبزہ زار میں مسلمان زعما کا تاریخی اجلاس ہوا جس کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح نے کی اس اجلاس میں اے کے فضل الحق نے قرار داد پاکستان پیش کی جسے کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔ اس قرار داد کے بعد تحریک پاکستان میں تیزی آ گئی جواہر لال نہرو نے آخری وائے سرائے لارڈ ماونٹ بیٹن کے ساتھ مل کر ہندوستان کی تقسیم رکوانے کی بہت کوشش کی لیکن ہندو رہنماوں اور انگریزوں کی قائداعظم کے سامنے ایک نہ چلی۔ اور انڈیا کے آخری وائے سرائے لارڈ ماونٹ بیٹن نے چودہ اور پندرہ اگست انیس سو سنتالیس کی درمیانی شب ہندوستان کی آزادی کا اعلان کردیا۔ اور دنیا کے نقشے پر پاکستان ایک آزاد ملک کے طور پر ابھرا۔ نواب زادہ لیاقت علی خان ملک کے پہلے وزیراعظم اور قائداعظم گورنر جنرل بن گئے۔ قائداعظم جلد ہی طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ وزیراعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ گورے نے کشمیر کا مسئلہ ادھورا چھوڑ دیا جو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے باوجود حل نہ ہو سکا بلکہ اب تو مودی حکومت نے اسے ہندوستان کا حصہ قرار دے دیاہے اس کے خلاف کشمیریوں کا احتجاج جاری ہے۔اہم رہنماﺅں کے انتقال کے بعد ملک کافی عرصہ اقتدار کی رسہ کشی کا شکار رہا۔ ابتدا میں ملک کو مہاجرین کی آباد کاری معیشت اور انتظامی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان تو بن گیا لیکن بین الاقوامی سازشوں کی وجہ سے ہمارا مشرقی بازو ہم سے الگ ہو گیا کیونکہ ہم اس کی حفاظت نہ کر سکے۔ہم نے بنگالیوں کے ساتھ بہت سی زیادتیاں کیں۔قدرت اللہ شہاب , شہاب نامہ, میں لکھتے ہیں کہ سینیٹری کا سامان مغربی پاکستان کے سب وزیروں کو دیا گیا جب ایک بنگالی وزیر نے سامان مانگا تو کیلے کے درخت کا حوالہ دے کر اس کا مذاق اڑایا گیا۔ شیخ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان میں سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کیں لیکن بھٹو نے ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ لگایا اور انہیں وزارت عظمی نہ دی گئی۔ اس ملک پر تقریبا چالیس سال ڈکٹیٹرز یعنی ایوب خان جنرل یحییٰ خان جنرل ضیا الحق اور پرویزمشرف قابض رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو پہلے منتخب جمہوری وزیراعظم تھے انہوں نے ملک کو انیس سو تہتر کا آی دیا۔ ان کی بیٹی بینظیر بھٹو اسلامی دنیا کی پہلی وزیراعظم بنیں جن کو بےدردی سے قتل کر دیا گیا ۔ نواز شریف تین دفعہ ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ انہوں نے ملک کو ایٹمی قوت بنایا۔ اس کے بعد ن لیگ اور پی پی پی باریاں لیتے رہیے۔ پونے چار سال عمران خان ملک کے سیاہ اورسفید کے مالک بنے رہے۔ نیب کا استعمال کرتے ہوئے حزب اختلاف کو جیلوں میں ڈالا اپریل دو ہزار بائیس میں تحریک عدم اعتماد کے زریعے ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ عمران خان کی اقتدار سے علیحدگی کے بعد تیرہ جماعتوں پر مشتمل اتحاد نے حکومت قائم کی اور شہباز شریف کو وزیر اعظم منتخب کیا۔ اس اتحادی حکومت نے ملکی معیشت کو سمبھالنے کی بہت کوشش کی لیکن ملک کی معیشت سنبھل نہ سکی اور ڈیفالٹ کے سائے لہراتے رہیے۔ چین سعودی عرب اور دیگر دوست ممالک کی مالی امداد اور آئی ایم ایف معاہدے کی وجہ سے زر مبادلہ کے ذخائر بمشکل آٹھ ارب ڈالر ہو گئے اور وقتی طور پر ہم ڈیفالٹ سے بچ گئے۔ اتحادیوں نے بھی پندرہ ماہ کی حکمرانی میں حصہ بطور جثہ وصول کیا۔ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہیے کہ ہمارے سیاسی رہنما پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں ہیں گزشتہ 76 سالوں میں ملک غریب ہوا اور ہمارے حکمران امیر تر ہو گئے۔ کسی کی سرے محل میں جائیدادیں ہیں تو کوئی لندن میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کا مالک ہے آج ملک بد ترین مہنگائی بے روزگاری اور معاشی بدحالی کا شکار ہیے۔ شہباز شریف کی ایڈوائس پر اسمبلیاں ٹوٹ گئیں۔ نگران سیٹ اپ کے تحت نوے روز کے اندر آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات ہوئے تو ملک جمہوریت کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔ ہمارے ہمسائے بھارت میں جمہوریت کا تسلسل جاری ہے سیاستدان اپنے مسائل خود حل کرتے ہیں فوج کی طرف نہیں دیکھتے۔ انڈیا کے زر مبادلہ کے زخائر چھ سو ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ امید ہیے کہ الیکشن کے نتیجے میں منتخب ہو کر آنے والی حکومت اس ملک کی خوشحالی معاشی ترقی بے روزگاری اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے خاندانوں کے بارے میں سوچے گی اور شہباز حکومت نے جو عوامی فلاح و بہبود کے جو منصوبے شروع کئے ہیں ان کا تسلسل جاری رکھے گی۔ ہمارے اجداد نے جو ملک جان و مال کی قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہمیں اس کی حفاظت کرنی ہے۔ آج 14 اگست کو ہمیں عہد کرنا ہو گا کہ ہم اپنے پیارے وطن کی ہر حالت میں حفاظت کریں گے۔ یہود و ہنود کی نظریں ہمارے پر امن ایٹمی پروگرام کی طرف لگی ہوئی ہیں ہمیں ہر حالت میں پاکستان اور ایٹمی اثاثوں کو بچانا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے