کالم

بھےڑ چال اور ہمارا سماج

لڑکپن کا زمانہ تھا ۔راقم سےالکوٹ کی تعلےمی درسگاہ اقبال مےمورےل گوہد پور مےں نہم کا طالب علم تھا ۔اس زمانے مےں وزےر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے طالب علموں کےلئے سفر کے دوران خصوصی رعاےت دی تھی ۔10پےسے دےکر طالب علم اپنا سفر ،سکول ےا ےونےورسٹی تک کر سکتے تھے ۔اسی دور کا واقعہ ہے ،بس مےں سفر کے دوران اےک پچاس سال کے لگ بھگ بزرگ کو کنڈکٹر نے ٹکٹ لےنے کےلئے کہا اور انہوں نے جےب سے سٹوڈنٹ کارڈ نکال کر دکھاےا اور رعاےتی ٹکٹ طلب کےا اس پر کنڈکٹر نے ےہ رےمارکس کسے کہ شاباش ہے تمہارے ماں باپ پر جو اَب تک تمہاری فےسےں ادا کر رہے ہےں ۔ہمارے سماج مےں بھلا اےسی رعاےت کےوں نہ بس ڈرائےوروں ،کنڈکٹروں کے درمےان لڑائی اور مار کٹائی کا باعث بنتی ۔آئے روز کی ہاتھا پائی اور جھگڑے معمول بن گئے ۔ےار لوگوں نے اس رعاےت کا ناجائز فائدہ اٹھاےا ۔بسوں مےں اےک وقت مےں پانچ طالب علموں کو بےٹھنے کی اجازت تھی لےکن پوری بس پر طالب علم قبضہ جما کر براجمان ہو جاتے ۔کئی نوجوان جن کا تعلےم سے واسطہ تک نہ ہوتا وہ بھی پےنٹ شرٹ پہن کر اور ہاتھ مےں دو تےن کتابےں پکڑ کر طالب علم بن گئے ۔طالب علموں نے پرائےوےٹ اور نجی سفر کےلئے بھی اس رعاےت سے فائدہ اٹھاےا جس سے دونوں طبقوں کے درمےان ٹکراﺅ لازمی امر تھا ۔ہمارے سکول کے روٹ پر چلنے والی بس کے ڈرائےور ،کنڈکٹر اور طالب علموں کے درمےان اےک دن قبل جھگڑا ہوا ۔دوسرے دن کچھ طالب علم اےک جھگڑا لو طالب علم کی لےڈر شپ مےں تھڑا مار کر راستے مےں بےٹھ گئے ،جب متنازع بس آئی تو طالب علموں نے خشت باری شروع کر دی جس کا انتظام پہلے ہی کر رکھا تھا ۔ان سنگ باری کرنے والوں مےں اےک فطےن و ذہےن لڑکا بھی تھا ۔دوسرے دن چوہدری لال دےن صاحب جو سکول کے ہےڈ ماسٹر تھے انہوں نے شکاےت پر سب سرپنچ لڑکوں کو بلا کر سزا دی اور سرزنش کی لےکن اس قابل اور اچھے طالب علم سے پوچھا کہ ان لڑکوں کا پتھر برسانا تو مےری سمجھ مےں آتا ہے لےکن تم نے پتھر کےوں پھےنکے ،وہ کہنے لگا کہ جب دوسروں کو پتھر مارتے دےکھا تو مےں نے بھی بغےر سوچے سمجھے پتھر برسانے شروع کر دےے تو ناظرےن اسے کہتے ہےں بھےڑ چال ۔اگر کوئی مجمع کسی اےک فرد کا پےچھا کر رہا ہے ،اس پر کنکر برسا رہا ہے ،کوئی اسے چور ،کوئی قاتل ،کوئی ڈاکو کے نام سے مخاطب کر رہا ہے تو کوئی بھی ےہ سوچنے کی زحمت نہےں کرے گا کہ جس کو پکڑنے کےلئے ےہ ہجوم بھاگ رہا ہے ےہ واقعی چور ےا ڈاکو ہے ۔راقم کا ےہ چشم دےد واقعہ ہے کہ اےک شخص ذاتی دشمنی مےں اےک شخص کو پےٹ رہا تھا ،وہ جان چھڑانے کےلئے بھاگ نکلا ۔کسی منچلے نے پےچھے سے چور کی صدا لگا دی پھر کےا تھا اےک بے قابو ہجوم اس کو پکڑنے کےلئے اس کے پےچھے بھاگ رہا تھا ۔اس کی قسمت بھلی نکلی کہ وہ گلےوں کی بھول بھلےوں مےں گم ہو گےا اور ہجوم کے ہاتھ نہ آسکا وگرنہ پکڑے جانے پر اس کی تکا بوٹی ےقےنی تھی ۔اےک عوامی پارٹی کے دعوے دار لےڈر کو کسی خاتون سے نازےبا حرکت کی پاداش مےں خاتون کے عزےزوں کے ہاتھوں سر عام چھترول ہو گئی جس مےں وقوعہ کی اےک دکان کے حلوائی نے بھی حسب دستور حصہ ڈالنے کی کوشش کی ۔پولےس کو خبر ہوئی تو جائے وقوعہ پر پہنچی اور تمام ہتھ چھٹ معہ حلوائی صاحب کے در لئے گئے ۔تفتےش ہوئی تو باقی حضرات کاجواز تھا کہ چونکہ خاتون ہماری عزےز تھی ےہ ہماری غےرت کا معاملہ تھا ۔جب حلوائی صاحب سے کھرنچے اور کڑچھے لہرانے کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے جواب دےا کہ مےں سمجھا ےہ ڈکےت تھا ۔مےں نے بھی اس کار خےر مےں حصہ ڈالنا ضروری سمجھا ۔کہےں پڑھا تھا کہ لاہور کے اےک چوک مےں پانچ لوگ اےک شخص کو پےٹ رہے تھے ۔پولےس آئی اور اس نے ان لوگوں کو گرفتار کر لےا ۔اےس اےچ او نے پےٹنے والوں کے لےڈر سے پوچھا ،تم اس کو کےوں مار رہے تھے “لےڈر نے جواب دےا ”جناب اس نے مےرے پےسے دےنے ہےں ،ےہ اڑھائی سال سے مےرے قابو نہےں آ رہا تھا ۔آج مجھے مل گےا اور مےں نے اسے مارنا شروع کر دےا ۔اےس اےچ او نے دوسرے شخص سے پوچھا”اور تم کےوں مار رہے تھے “ اس نے بزرگ کی طرف اشارہ کر کے جواب دےا ،جناب ےہ مےرے والد ہےں ،مےں نے دےکھا والد محترم اسے مار رہے ہےں تو مےں نے بھی اس کی پٹائی شروع کر دی ،اےس اےچ او نے تےسرے نوجوان کی طرف دےکھا ،وہ آگے بڑھا اور ان دونوں کی طرف اشارہ کر کے بولا ”سر ےہ بزرگ مےرے والد ،ےہ شخص مےرا بڑا بھائی ہے مےں نے جب دےکھا ےہ دونوں اسے مار رہے ہےں تو مےں فرمانبرداری سے مغلوب ہو گےا اور مےں نے بھی جوتا اتار لےا ،اےس اےچ او چوتھے شخص کی طرف مڑا ،اس نے ہاتھ باندھ کر عرض کےا ”جناب مےں ان لوگوں کا ڈرائےور ہوں ،جب صاحب لوگ اسے مار رہے تھے تو مےں نوکر ہو کر کےسے پےچھے رہ سکتا تھا ۔اےس اےچ او نے پانچوےں شخص کی طرف مڑ کر دےکھا اور غصے سے چلا کر بولا ”اور تم ان کے کےا لگتے ہو “ اس نے ان کی طرف دےکھا اور دھےمی آواز مےں بولا ،جناب مےں محمد نذےر ہوں مےرا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہےں ،مےں نے زندگی مےں ان لوگوں کو پہلی بار دےکھا ہے ،حےرت سے اےس اےچ او کا منہ کھل گےا ،وہ شخص دوبارہ بولا سر مےں گھر سے چےنی لےنے نکلا تھا ،دو گھنٹے قطار مےں کھڑا رہا مگر چےنی نہےں ملی ،مےں غصے مےں واپس جا رہا تھا ،مےں نے دےکھا کہ ےہ لوگ اسے مار رہے تھے ،مےں نے زندگی مےں کسی شخص کی پٹائی نہےں کی تھی ۔مےں نے فوراً زمےن سے ڈنڈا اٹھاےا اور اس شخص کو مارنا شروع کر دےا ۔ہمارے سماج کے لوگ جنون مےں صرف آگے بڑھتے چلے جاتے ہےں اور اس پر کوئی سوچ ،کوئی سودا سر مےں رکھنے کے قائل نہےں ۔چند سال پہلے اےک دلچسپ خبر پڑھنے کو ملی کہ ترکی مےں اےک چرواہا بھےڑےں چرا رہا تھا ۔اےک بھےڑ اونچی چٹان سے نےچے گہری کھائی مےں جا گری ۔درجنوں بھےڑوں نے اس کی پےروی کی ۔شاےد اسی لئے ہی بھےڑ چال کا محاورہ وجود مےں آےا ہو کہ بھےڑوں کو لےڈ کرتی اےک بھےڑ جدھر کا رخ کرتی ہے باقی بھےڑےں بھی پےچھے اسی سمت کا رخ کرتی ہےں ۔اسی کو کہتے ہےں تقلےد ۔سےاسی پارٹےاں انےس بےس کے فرق کے ساتھ سبھی اےک سی ہوتی ہےں ۔وطن عزےز مےں جمہورےت کی بحالی ،عوام کی خدمت ،دروازوں تک سستا انصاف اور غربت کے خاتمے کا نعرہ سبھی کا نصب العےن ہوتا ہے ۔کوئی اےک پارٹی دکھا دےجئےے جو غرےبوں کی تقدےر سنوارنے تک چےن سے بےٹھنے کا دعویٰ نہ کرتی ہو ،کبھی انہےں روٹی کپڑا اور مکان کا فرےب دےکر سڑکوں پر لاےا گےا اور کبھی نظام مصطفی کا ےقےن دلا کر اور کبھی رےاست مدےنہ بنانے کا سہانا سپنا دکھا کر ۔سابقہ حکومتےں جس سمت چل رہی تھےں پی ٹی آئی کی حکومت نے بھی اس سے کسی بھی معاملے مےں سر مو انحراف نہےں کےا ۔جےسے انہوں نے کسی قسم کے مےرٹ کو در خور اعتنا نہ جانتے ہوئے اپنی مرضی کے سےنےٹرز ،سفارت کار اور ٹےکنو کرےٹ کلےدی عہدوں پر تعےنات کےے اسی طرح عمران خان نے بھی ےہی کچھ کےا۔ہماری سےاست کے تمام مہرے ہی بھےڑ چال کا شکار ہےں ،کسی اےک پر انگلی اٹھائی نہےں جا سکتی ۔جب تک ہمارے حکمران اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتے ہےں ،کوئی بےماری انہےں تنگ نہےں کرتی ۔ابھی کل کی ہی بات ہے نواز شرےف ،آصف زرداری جب حکومت سے باہر تھے تو ان کےلئے دو قدم چلنا بھی محال تھا ۔وہ شکل سے ہی دائمی مرےض نظر آتے تھے ۔وہ اپنے خلاف کےسوں مےں عدالتوں کی پےشےوں کے دوران دوسروں کے سہارے لڑ کھڑاتے نظر آتے تھے ۔آج عمران خان کے اپنے اقتدار کا سورج گہنانے پر ان کی ٹانگ کے زخم ہرے ہو گئے اور وہ وہےل چئےر پر نظر آئے ۔شاےد ےہی بھےڑ چال ہے ۔سول قےادت کی پالےسےوں مےں اےسی ہم آہنگی ہے کہ شاےد ہی سابقہ روش سے کوئی انحراف تلاش کےا جا سکے ۔برطانےہ کا مشہور وزےر اعظم ونسٹن چرچل اےک جلسے سے خطاب کر رہا تھا ۔بہت بڑا اژدہام تھا ۔اس کے اےک دوست نے کہا ،اس ہجوم سے پتہ چلتا ہے کہ آپ بڑے مقبول ہےں ۔چرچل نے کہا اگر کل کلاں کو مجھے اسی جگہ پھانسی پر چڑھاےا گےا تو ہجوم اس سے بھی بڑا ہو گا ۔ےہ بے سر کے لوگ ہےں ،خشک پتوں کی طرح جلدی بھڑکتے ہےں اور بجھتے بھی ہےں ۔بھےڑ چال جس معاشرے کا قانون بن جائے ،وہ معاشرہ بہتری کی سمت کھو دےتا ہے ۔ جانے پرکھے بغےر اندھادھند تقلےد شروع کر دی جاتی ہے جس سے کوئی قوم اخلاقی گراوٹ کا شکار بھی ہو جاتی ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے