ای سی او وژن 2025 کے لیے نگران وزیر اعظم کا خطاب کئی بنیادی سوالات کو نمایاں کرگیا ، مثلا ًتاشقند میں خطاب کرتے ہوئے انوارالحق کاکڑ نے درست کہا کہ تنظیم کے مقاصد کے حصول کےلیے اجتماعی کاوشوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے ، نگران وزیر اعظم کا یہ کہنا اس پس منظر میں تھا کہ تنظیم وہ اہداف تاحال حاصل نہیں کرسکی جو اس کے لیے متعین کیے گے تھے ، انوارالحق کاکڑ کا اپنے خطاب میں یہ کہنا بھی غلط نہ تھا کہ رکن ممالک میں تجارتی سرگرمیوں کے فروغ سے ہی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے ، نگران وزیر اعظم کے بعقول رکن ممالک محض الفاظ نہیں بلکہ عملی اقدامات سے ہی آگے بڑھ سکتے ہیں ، ایک اہم موضوع جس پر نگران وزیر اعظم نے اظہار خیال کیا وہ غزہ میں اسرائیل کی نہتے اور مظلوم فلسطینوں کے خلاف جاری جنگ ہے، حقیقت یہ ہے کہ گلوبل ویلج بن جانے والی اس دنیا میں رونما ہونے والا ہر مثبت یا منفی واقعہ اپنا اثر رکھتا ہے ، نگران وزیر اعظم نے بجا طور پر اس اہم پلیٹ فارم سے مظلوم فلسطنیوں کا مقدمہ پیش کیا، انوارالحق کاکڑ نے یہ بات زور دے کر کہی کہ پاکستان فلسیطن پر جاری اسرائیلی جارحیت کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتا ہے ،انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ ای سی او کے رکن ممالک اسلام فوبیا کے خلاف یکساں موقف اپنائیں ، نگران وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں مقبوضہ کشمیر میں جاری صورت حال کا بھی تفصیلی زکر کیا ، انھوں نے رکن ممالک سے کہا کہ مظلوم کشمیریوں کی داد رسی مہذب دنیا کے لیے کئی دہائیوں سے چیلنج کی شکل میں موجود ہے ، تنظیم کی افادیت کے زکر پر انھوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا وجہ ہے کہ قدرتی وسائل ، علاقائی روابط اور ثقافتی ورثہ سے مالا مال ہونے کے باوجود ای سی او خطہ حقیقی تجارت سے فائدہ اٹھانے میں اب تک ناکام ہے ، انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ رکن ممالک کےلئے یہ باعث تشویش ہونا چاہے کہ تاحال عالمی تجارت میں ہمارا صرف دو فیصد حصہ ہے جبکہ باہمی علاقائی تجارت میں ہم محض آٹھ فیصد تک پہنچ پائے ، نگران وزیر اعظم نے بجا طور پر علاقائی اور عالمی تجارت میں حصہ بڑھانے کےلئے بات چیت کی ضرورت پر زور دیا ، نگران وزیر اعظم کے بعقول غربت میں کمی ، رکاوٹوں کو دور کرکے ماحول دوست اور پائیدار پالیساں مثبت اثرات مرتب کرسکتی ہیں، انوارالحق کاکڑ نے واشگاف الفاظ میں کہا پاکستان رکن ممالک کے ساتھ مل کر تنظیم کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے تیار ہے ، ادھر پاکستان اور آزربائیجان میں تعلقات کی بنیاد اس وقت ہی رکھ دی تھی جب سوویت یونین کے بعد آزربائیجان دنیا کے نقشہ پر آزاد ملک کی حیثیت سے نمودار ہوا، پاکستان نے آزربائیجان کو 12 دسمبر 1991 کو تسلیم کیا تھا ، پاکستان کا شمار ان ممالک میں کیا جاتا ہے جنھوں نے ابتدا ہی میں باکو میں سفارت خانہ کھولا تھا ، پاکستان اور آزربائیجان میں خوشگوار تعلقات کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آرز بائیجان نے مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ پاکستانی موقف کی حمایت کی ہے، آزربائیجان سمجھتا ہے کہ مقبوضہ وادی میں ظلم وستم کے پہاڈ توڈ جارہے ہیں، باکو اس تلخ حقیقت سے بھی آگاہ ہے کہ اقوام عالم کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دلوانے میں اپنا ٹھوس کردار ادا نہیں کررہی ، آزربائیجان کا ماننا ہےکہ پاکستان
اور بھارت جیسی ایٹمی قوتوں کے مابین مسئلہ کشمیر جیسا تنازعہ کسی بھی وقت خوفناک تصادم کا باعث بن سکتا ہے جو علاقائی ہی نہیں عالمی امن کےلیے بھی خطرناک ثابت ہوگا، باکو تسلسل کے ساتھ یہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ اقوام متحدہ کو تنازعہ کشمیر کے منصافانہ حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہے ، دوسری جانب پاکستان نگورنوکاراباخ کے معاملہ پر آرزبائیجان کے موقف کو تسلیم کرتا ہے ، دونوں ملکوں کے تعلقات کی ایک اور خاص بات یہ بھی ہے کہ اقوام متحدہ اور او آئی سی میں علاقائی اور عالمی مسائل بارے دونوں ممالک کا موقف بڑی حد تک ایک رہا ہے ،آزربائیجان مشکل کی ہر گھڑی میں پاکستان کی مدد کے لیے آگے بڑھا ، ریکارڈ پر ہے کہ 2005 کے زلزلہ میں باکو نے دل کھول کر پاکستان کی امداد کی ، مثلا 2011 کے پاکستانی سیلاب متاثرین کے لیے 2 ملین امریکی ڈالر کی امداد دی گی ،آزربائیجان پاکستان کے اس موقف کی حمایت کرتا ہے کہ عالمی موسیماتی تبدیلیوں میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے مگر اسلام آباد تسلسل کے ساتھ اس کی بھاری قیمت ادا کر رہا ہے ، یہی وجہ ہےکہ ہر قدرتی آفت کے موقعہ پر آزربائیجان کی طرف سے عالمی برداری کو پاکستان کی بھرپور انداز میں مدد کرنے کی اپیل کی گی ، پاکستان اور آزربائیجان دونوں سمجھتے ہیں کہ امن اور خوشحالی کے لیے ملکوں میں برابری اور مساوات کی فضا قائم کرنے کی ضرورت ہے ، دونوں دوست ممالک کا یہ بھی خیال ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کو ترقی پذیر ریاستوں کی مشکلات حل کرنے کے لیے کردار ادا کرنا چاہے ، پاکستان اور آزربائیجان دہشت گردی اور انتہاپسندی کو کسی خاص مذہب یا خطے سے منسوب کرنے کے بھی مخالف ہیں، اسلام آباد اور باکو کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ کراہ ارض پر انتہاپسندانہ سوچ کا خاتمہ انصاف پسندی سے کام لے کر کیا جاسکتا ہے ۔
کالم
نگران وزیر اعظم کا ای سی او وژن میں خطاب
- by web desk
- نومبر 11, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 489 Views
- 1 سال ago