کالم

سوشل میڈیا کا زمہ دارانہ استعمال کیسے ممکن ہے

سوشل میڈیا بارے عمومی تاثر یہ ہے کہ یہ شتر بے مہار ہے ، آسان الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ عصر حاضر میں شائد ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جو اس کے شر سے محفوظ رہا ، حد تو یہ ہے کہ انبیا اور الہامی کتب بارے بھی بسا اوقات ایسی شرانگریزی پھیلائی جاتی ہے کہ اسے کم سے کم الفاظ میں قابل مذمت ہی کہا جاسکتا ہے ، مسلمہ اخلاقی اصول جنھیں عصر حاضر میں دنیا کا ہر مہذب معاشرہ تسلیم کرتا ہے وہ بھی اظہار خیال کی آزادی بارے حددو قیود کا تعین کرتے ہیں ، مثلا میری آزادی وہاں پر ختم ہوجاتی ہے جہاں کسی دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے ، عصر حاضر میں ایک دوسرے کی مذہبی شخصیات کا احترام بھی دنیا کے بیشتر ملکوں میں کیا یا پھر کروایا جاتا ہے ، اقوام عالم کا اجمتاعی شعور بھی اس کی ہرگزاجازت نہیں دیتا کہ آپ سوشل میڈیا یا کھلم کھلا کسی کے بھی مذہبی جذبات کا استحصال کرتے پھریں، یہی سبب ہے کہ ڈنمارک جہاں حالیہ دنوں میں تواتر کے ساتھ قرآن کی بے حرمتی کے واقعات رونما ہورہے تھے وہاں قانونی طور پر اس کا سدباب کردیا گیا، ڈنمارک کی پارلمینٹ نے رواں ماہ ہی ایسا قانون منظور کیا جس کی رو سے مذہبی کتابوں کی توھین کو قابل سزا جرم قرار دے دیا گیا، یقینا وطن عزیز کے باسیوں کی اکثریت سوشل میڈیا یا پھر روز مرہ کی زندگی میں کسی بھی مذہبی شخصیت کی توھین پسند نہیں کرتی مگر ہمارے ہاں ایسے افراد کی موجودگی سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا جو انفرادی اور گروہی مفادات کے لیے مذہبی جذبات مجروع کرنے کے گھناونے جرم میں ملوث ہیں ، مقام شکر ہے کہ عام پاکستانی ایسے مجرمانہ زہنیت کے حامل افراد کی نہ صرف تقلید نہیں کرتے بلکہ یہ خواہش بھی رکھتے ہیں کہ حکومت انھیں گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دے ، سوشل میڈیا پرمذہبی کتب اور مذہبی شخصیات کےخلاف توھین آمیز مواد شائع کرنے کے خلاف حکومت نے ٹھوس حکمت عملی ترتیب دے رکھی ہے ، پاکستان ٹیلی کمیونیکشین اتھارٹی نے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر غیر قانونی ، توھین آمیز یا نفرت انگیز مواد کے کسی بھی واقعہ کی اطلاع متعلقہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم یا پھر یا پی ٹی اے کو فوراً دیں تاکہ متعلقہ شخص یا ادارےکے خلاف کاروای عمل میں لائی جاسکے ،اس ضمن میں شر پسند عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے کو 1991پر کال بھی کی جاسکتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر شہریوں سے زمہ دارنہ طرز عمل روا رکھنے کے حوالے مذید کیا کچھ کیا جاسکتا ہے ، ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی قانون پر عمل درآمد کروانے کے لیے جہاں خوف کام کرتا ہے وہی یہ بھی ضروری ہے کہ لوگ جان لیں کہ مذکورہ قانون پر عمل درآمد کرنے سے انھیں کیا فائدہ ہوسکتا ہے ، آج میڈیا ہی نہیں اہل دانش بھی عام آدمی کو یہ باور کروانے میں اہم کرداد ادا کرسکتے ہیں کہ دنیا کا کوئی معاشرہ فساد کا متحمل نہیں ہوسکتا، امن ہر مثبت سرگرمی کی پہلی اور بنیادی شرط ہے ،مثلا جب کسی معاشرے میں مذہبی، سیاسی اور لسانی بنیادوں پر لوگ ایک دوسرے کے دست وگربیان ہوں تو پھر بہتری کی توقع کیونکر کی جائے ،ایک تجویز یہ ہے کہ ہمارے قومی نصاب میں سوشل میڈیا پر منافرت پھیلانے والے عناصر بارے آگہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے ، نئی نسل کو بتایا جائے کہ کیسے جدید دور میں سوشل میڈیا کے زریعہ فتنہ وفساد برپا کرنے کا کھیل کھیلا جاتا ہے ، طلبہ وطالبات کو اس سے بھی آگہی فراہم کرنا ہوگی کہ تیزی سے تبدیل ہونے والی دنیا میں دشمن ممالک براہ راست کاروائی کرنے کی بجائے حریف ملک کی کمزوری سے فائدہ اٹھایا کرتے ہیں ، بلاشبہ ہمیں اپنی ناکامیوں کا تمام تر ملبہ دشمن قوتوں پر ڈالنے کی بجائے خود احتسابی سے کام لینے کی ضرورت ہے ، مثلا ماضی میں روا رکھی جانے والی افغان پالیسی کے نتیجے میں مملکت خداداد پاکستان میں مذہبی بنیادوں پر انتہاپسندی بڑھی ، اہل علم وفکر ونظر کی قابل ذکر تعداد اس پر متفق ومتحد ہے کہ اگر ہم روس کے افغانستان پر حملے کے بعد زمہ دارنہ خارجہ پالیسی پر عمل کرتے تو آج ہماری مشکلات میں قابل زکر کمی ہوتی ، وقت آگیا ہے کہ ہم گزرے ماہ وسال کی کوتاہیوں کا اس انداز میں اعتراف کریں کہ اس کا ثبوت حال اور مستقبل میں رو ا رکھنی جانے والی پالیسوں میں واضح طور پر دکھائی دے، سچ ہے کہ ان ہی قوموں کا مستقبل تابناک اور محفوظ ہوا کرتا ہے جو اپنی کوتاہیوں سے سیکھ کر اگے بڑھنے پر یقین رکھتی ہیں، سوشل میڈیا کے تعمیری استعمال بارے شعور بیدار کرنے میں پرنٹ والیکڑانک میڈیا کا کردار بھی کلیدی اہمیت کا حامل ہے ، ہمارے ٹاک شوز میں سوشل میڈیا کے زریعے کسی خاص مذہب کے ماننے والوں کو نشانہ بنانے کے مضمرات سے عوام کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے ، تیزی سے تبدیل ہونے والی اس دنیا میں بروقت اقدامات کے زریعہ ہی نئے آنے والے چیلنجز سےکامیابی سے نمٹنا ممکن ہے ، بصورت دیگر قوم میں لسانی، سیاسی ، مذہبی اور سماجی معاملات میں ایسی مشکل پیش آسکتی ہے جو پہلے سے موجود ہمارے مسائل کا حجم بڑھا دے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے