کالم

بے توقیر کیوں کیاجاتا ہے؟

کیا یہ درست ہے کہ یہاں عزت وقار سے زندگی گزارنا آسان نہیں رہا۔اگر یہ سچ ہے تو ایسا کیوں ہے؟ یہاں ہر کسی کو بے توقیر کیوں کیا جاتا ہے ۔کیا اب بے توقیر ہوئے بغیر زندگی گزارنا، عہدے پر قائم رہنا ممکن نہیں رہا !!خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو دنیا میں عزت کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہوتے ہیں اور عزت سے دنیا سے رخصت ہوتے ہیں ۔اگر آپ اپنے ماضی میں جھانکیں تو لگ پتہ جائیگا کہ جتنے بڑے عہدوں والے لوگ ہیں ان میں اکثر بے توقیر ہو کر عہدوں سے اترے نہیں اتارے بھی گئے ۔بعض تو دنیا سے بھی الزامات کے ساتھ رخصت ہوئے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہاں بے توقیر کرنے اور ہونے کی باریاں لگی ہوئی ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ جنہیں ہم بڑے لوگ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں۔ ان کو دیکھا جائے تو ہاتھ کانوں کو پکڑنے کو اٹھتے ہیں توبہ توبہ کرتے ہیں۔ کل کا وزیراعظم آج جیل میں ہے۔یہ لوگ اسی طرح سے جیلوں میں ہیں جس طرح ان سے پہلے والے وزرائے اعظم اور وزرا جیلوں میں بند تھے ۔کل کے وزیراعظم کی کہانیاں آج میڈیا پر ایسے ہی سنی جا سکتی ہیں ۔جیسے کل ان جیسی شخصیات کی سنی جاتی تھیں۔ایسا اس لئے ہے کہ آج ان کی باری ہے کل دوسروں کی تھیں۔۔ لگتا ہے جیسے بے توقیر ہونے کی باریاں لگی ہوئی ہوں۔ جیسا حال اب سیاستدانوں کا ہے ویسا ہی حال یہاں کی جوڈیشری ،بیورو کریسی آسمانی مخلوق کا ہے۔ یوں تو جوڈیشری، بیوروکریسی اور آسمانی مخلوق کسی بھی ملک کی کریم سمجھی جاتی ہے مگر اب ایسا نہیں سمجھا جا رہا۔سب کی مٹی پلید ہے، یعنی انکا بھی برا حال ہے۔ یہ بھی حکومت کے تبدیل ہوتے ہی زوال پذیر ہو جاتے ہیں۔ کچھ جیل کی ہوا کھاتے ہیں۔ بیوروکریٹ تب مرتا ہے جب وہ کسی کی ناجائز بات مانتا ہے اور تب بھی وہ مرتا ہے جب وہ ناجائز کام کرنے سے انکار کرتا ہے۔ مرتا وہ اس طرح ہے کہ اس پر ناجائز مقدمات قائم ہو جاتے ہیں اور اسے اس کی سوسائٹی خاندان میں اتنا ذلیل کر دیا جاتا ہے کہ وہ یا توخودکشی پر مجبور ہو جاتا ہے یا وہ مستعفی ہونے میں ہی عافیت سمجھتا ہے یا وہ ڈھیٹ بن کر نوکری جاری رکھتا ہے۔ گزشتہ ہفتے ایک ویڈیو نظر سے گزری کہا جاتا ہے کہ ایک سول کورٹ کے بیلف نے سول جج کے حکم پر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر (ریونیو) لاہور کو ان کے دفتر سے گرفتار کیا، میڈیا کے مطابق سوموار کی صبح ایک بیلف پولیس کے ہمراہ اے ڈی سی آر لاہور کے دفتر میں آیا۔ بیلف نے اعلی افسر کو ہتھکڑی لگائی اور ساتھ ساتھ اس کی ویڈیو بھی بنائی، انتہائی بدتمیزی سے دفتر سے باہر لےجایا گیا۔کہا جاتا ہے کہ گلبرگ لاہور میں کچی آبادی قرار دی جانیوالی6کنال قیمتی زمین کی ملکیت کیس میں سول جج کے حکم پر بیلف نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو لاہورکو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرنے کو کہا تھاجب یہ عدالت میں پیش ہوئے تو عدالت نے وارنٹ گرفتاری ان کے منسوخ کردیئے اور انہیں جانے دیا۔مگر اس کی گرفتاری کی ویڈیو بنا کر وائرل بھی کر دی ؟ اس کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا ازالہ اب کون کرے گا ؟انگریز دور میں بیوروکریسی کو کس شان و شوکت کے ساتھ رکھا جاتا تھا تاکہ اس کے پاس آنے والے اس سے خوف کھائیں۔اس کی عزت کریں،اسی طرح ہائی کورٹ لاہور کراچی کی پرانی بلڈنگ دیکھ لیں اور آج کے دور کی اسلام آباد ہائی کورٹ کی بلڈنگ دیکھیں،تو سمجھ جائیں گے کہ ایک خاص منصوبہ کے تحت لوگوں کے دلوں میں انہیں بے توقیر کیا جا رہا ہے ۔کسی زمانے میں پاکستان کے دارلخلافہ میں ڈسٹرکٹ کورٹ کی عدالتیں ایف ایٹ مرکز کی دوکانوں میں تھیں۔ ان عدالتوں میں اور ان بزنس شاپ میں کوئی فرق نہ تھا۔آڈر آڈر پر ریسٹورنٹ سے دال روٹی ملتی تھی اور عدالتوں کے آڈر آرڈر پر سزائیں ملتی تھیں ۔ یہ سین چالیس سال تک دیکھا جاتا رہا تاکہ جوڈیشری بدنام ہو اب اس میں وہ قوتیں کامیاب بھی دکھائی دیتی ہیں جن کی خواہش تھی کہ جوڈیشری بد نام ہو۔اب تو کسی کو بے توقیر کرنا ہو تو اس کی ویڈیوز بنائیں اور وائرل کردیں۔یہ وہ سزا ہے جس کا قانون کی کتابوں میں ذکر نہیں۔اب بندہ اور ادارے منٹوں میں بد نام ہو جاتے ہیں، ہو رہے ہیں۔ان حالات میں عزت بچانا اور جینا محال ہو چکا ہے۔ چند ہفتے، قبل کنٹونمنٹ بورڈ بنوں کے چیف ایگزیکٹو آفیسر بلال پاشا کی غیر طبعی موت نے پاکستان کے طول و عرض میں سوال اٹھا رکھے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بھی اداروں اور افسران کی طرف سے سخت دبا میں تھا۔کہا جاتا ہے اس واقعے کے بعد سول سروس سے تعلق رکھنے والے نوجوان افسران میں اب خوف اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ آپ سوچیں کہ ایک سی ایس ایس آفیسر جس نے افسرانہ ٹھاٹ باٹ، طاقت، اختیارات، سماجی مقام و مرتبہ اور سرکاری جاہ و حشمت کے باوجود مبینہ طور پر اپنے ہاتھوں ہی اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا ہو،تو اس کے حالات زندگی کیا ہو نگے ؟ کیسے ہونگے ۔سوچنا ہو گا کہ وہ اس آخری قدم تک کیسے پہنچا۔؟سوال یہ ہے کیا وہ اتنے مضبوط اعصاب کا مالک نہیں تھا ؟ یقینا تھا۔اس لیے اس کی اپنی وڈیوز سن لی جائیں تو یقین نہیں آتا کہ اس نے خودکشی کی ہو گی۔ اس کے باپ کا کہنا تھا کہ اسکا بیٹا قتل ہوا ہے۔اس پوسٹ پر عام ذہن رکھنے والا شخص نہیں آتا۔ لیکن جب وہ آکر اندر کے حالات دیکھتا ہے اور مافیاز کے ساتھ ساتھ اپنے افسران کو طاقتور مافیا کے ہاتھوں جکڑا ہوا دیکھتا ہے تو وہیں پر وہ بھی مایوس نظر آتا ہے۔ وزیراعظم الیکشن سے منتخب ہو کر اقتدار میں آتا ہے جسے الزام لگا کر جوڈیشری کے ہاتھوں جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ اسی طرح گرفتاری نے سول سروس کے دشوار گزار عمل سے منتخب ہونے والے افسران کی ذاتی زندگی، پیشہ ورانہ استعدادِ کار، قوتِ فیصلہ، ذہنی و نفسیاتی خلفشار سے متعلق کئی سنجیدہ سوالات کو جنم دیا ہے۔ اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں صدر وزیراعظم، وزرا،سینٹر اور بیورو کریٹ کو بے توقیر کریں گے تو سسٹم کیسے چلے گا ؟ وہ ملک کی خدمت کیلئے کیوں کر اپنے آپ کو پیش کریں گے ؟ لگتا ہے ایک سسٹم ایک مانڈ سٹ موجود ہے جس کا کام ہر کسی کو ذلیل کرنا اور بے توقیر کرنا ہے اب تو ہر بندہ اس سسٹم کا حصہ بھی لگتا ہے۔ یہ خود بھی اس سسٹم میں شامل ہو کر دوسروں کو ذلیل کرتا ہے۔ بے توقیر کرتا ہے اور پھر خود بھی اس کا شکار بن جاتا ہے۔ صدر،وزیراعظم چیرمین نیب، آرمی چیف, چیف جسٹس پاکستان اور سیاست دانوں کو بدنام اور ذلیل و رسوا کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔موجودہ چیف الیکشن کمشنر بھی اسی سسٹم سے بے توقیر ہونے کی صف میں کھڑے دکھائی ریتے ہیں ۔جوں جوں الیکشن قریب آ رہے ہیں ان کے خلاف انگلیاں اٹھنا شروع ہیں۔ایسا ہی حال چیف صاحبان کا ہے۔ عربی کے مشہور مفکر ڈاکٹر علی مرحوم لکھتے ہیں ایک دن میں ٹیکسی میں ائیرپور ٹ جا رہا تھا اچانک پارکنگ سے ایک شخص انتہائی سرعت کے ساتھ گاڑی لیکر روڑ پر چڑھا قریب تھا کہ ان کی گاڑی ٹیکسی سے ٹکرائے لیکن ڈرائیور نے لمحوں میں بریک لگائی اور ہم کسی بڑے حادثے سے بچ گیے،ہم ابھی سنبھلے نہیں تھے کہ خلاف توقع وہ گاڑی والا الٹا ہم پر چیخنے چلانے لگ گیا اور ٹیکسی ڈرائیور کو اس نے خوب کوسا ٹیکسی ڈرائیور نے اپنا غصہ روک کر اس سے معذرت کرلی اور مسکرا کر چل دیا ۔ ٹیکسی ڈرائیور کا ایسا کرنا میرے لیے ایک سبق تھا وہ کہنے لگا سر کچھ لوگ کچرے سے بھرے ٹرک کی طرح ہوتے ہیں،وہ گندگی اور کچرا لاد کر گھوم رہے ہوتے ہیں، وہ غصہ، مایوسی ، ناکامی اور طرح طرح کے داخلی مسائل سے بھرے پڑے ہوتے ہیں، انہیں اپنے اندر کے جمع شدہ اس کچرے کو خالی کرنا ہوتا ہے، وہ جگہ کی تلاش میں ہوتے ہیں، جہاں جگہ ملی یہ اپنے اندر جمع ساری گندگی کو دوسروں پر انڈیل دیتے ہیں لہذا ہم ان کے لئے کچرا دان کیوں بنیں۔ اس قبیلے کے کسی فرد سے زندگی میں کبھی واسطہ پڑ جائے تو ان کے منہ نہ لگیں بلکہ مسکرا کر گزر جائیں اور اللہ تعالیٰ سے ان کی ہدایت کے لئے دعا بھی کریں۔لگتا یہی ہے ایسے لوگ ہر سیاسی جماعت، ہر ادارے ہر محکمہ اور ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔لہذا ان سے ہمیں بچنا ہو گا۔گزارش ہے ان کے لئے آپ کچرا دان نہ بنیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے