کالم

رحمان عباس اور ایک طرح کا پاگل پن

گزشتہ سے پیوستہ
یاد رکھنا چاہیئے کہ پاگل پن اپنی شدت ، اپنی خود ترتیب حماقتوں ، اپنے خود تجویز کردہ دکھوں،اپنے پرشور طلاطم ،اپنے پرزور پچھتاوں ، نیز اپنے زیر سطح سکون اور کیفیات کے اعتبار کل انسانی آبادی سے بھی زیادہ اقسام اپنے اندر رکھتا ہے ۔اسے شمار کرنا یا ایسا کرنے کی کوشش کرنا بھی بجائے خود ایک طرح کا پاگل پن ہی شمار ہو گا۔ہاں مگر عقیدہ پر بنیاد کرتا جنون دنیا کا سب سے خطرناک پاگل پن شمار کیا کا سکتا ہے۔عقیدہ رکھنا معیوب بات نہیں ہے ، لیکن دوسروں کو جبرا منوانا پاگل پن اور جنون ہوتا ہے۔ مجھے اس بات کا صحیح طور پر اندازہ نہیں کہ رحمان عباس ہمارے یہاں کی تبلیغی جماعت کی کارگزاریوں سے پوری طرح سے واقف ہیں یا نہیں ، یا ہمارے یہاں مختلف ممالک کے ایما پر فرقہ پرستی کا فروغ اور اس کے اثرات کو جانتے ہیں؟ یا ہمارے یہاں پیدا کی گئی مصنوعی شدت پسندی اور ادھار کی دہشت گردی کے حال و مآل کو پوری طرح سے سمجھتے ہیں یا نہیں۔لیکن ناول ایک طرح کا پاگل پن پڑھ کر مجھے تو کچھ بھی نیا یا الگ نظر نہیں آیا ۔ہاں مگر یہ اندازہ ضرور ہوا کہ نادان اور ناپختہ مذہبی تناظر اور شدت پسندی کو صرف اور صرف تعلیم سے ختم یا مدھم کیا جا سکتا ہے ۔ایسے رجحانات کو یہ معاشرہ اپنے اجتماعی وجدان سے مکمل طور پر ختم بھی کر سکتا ہے ،اگر ایسے رجحانات یا ایسی سوچ کے فروغ کے پیچھے کوئی منظم طاقت موجود نہ ہو۔ خلیجی ممالک جانے والے مقامیوں کی معاشی حالت کے ساتھ ساتھ ثقافتی اور مذہبی احوال میں تغییر بھی کوئی اجنبی واردات نہیں ۔ گزشتہ صدی میں ستر کی دھائی کے دوران ایسی ہی تبدیلیاں ہمارے یہاں بھی وقوع پذیر ہوئی تھیں مگر ان میں سماجی تغیئر تو تھا ،مذہبی تناظر نہیں تھا یا اتنا شدید نہیں تھا، جب ناول بتاتا ہے کہ؛ "خلیجی ممالک سے لوگ ایک اور چیز اپنے ساتھ لائے اور وہ تھی عربوں کی ثقافت ۔ عورتوں کے لیے برقعے ، بزرگوں کے لیے مصلے اور اندھیرے میں چمکنے والی تسبیحیں آئیں ، مہین ٹوپیاں اور کرتے پاجاموں کے لیے سفید نفیس کپڑا لایا گیا۔ ہر سو مذہبی آداب کا ذکر ہونے لگا۔ عورتوں اور لڑکیوں کو نماز اور پردے کی تلقین کی جانے لگی۔ بعض نے اپنے بچوں کو مذہبی تعلیم دلانا لازمی قرار دیا۔ چوں کہ اس وقت قرب و جوار میں کوئی باضابطہ مدرسہ نہیں تھا۔ اس لیے نئے نئے امیر لوگوں نے اپنے بچوں کو دور دراز کے دینی مدارس میں بھی بھیجنا شروع کیا۔مدارس سے فارغ طلبہ نے گاں میں اپنے مکتب فکر کی تبلیغ کو اپنا فرض سمجھا۔” تو اس کے دور رس اثرات کو سمجھنا مشکل نہیں رہتا۔اسی کے لازمی اثرات میں مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ اور جماعت الجماعت کا پھیلا اور معاشرے پر تصرف سامنے آتا ہے۔ ” پچھلے چند برسوں میں جماعت الجماعت کا اثر تیزی سے پھیلا تھا۔ سورل کی مسجد مرکز بن گئی تھی ۔ مختلف ریاستوں اور شہروں سے جماعت الجماعت سے وابستہ افراد یہاں آتے اور پھر آس پاس تبلیغ کے لیے چلے جاتے ۔ ہر جمعہ کو عصر کی نماز کے بعد جماعت الجماعت سے وابستگان گشت پر نکلتے، گھر گھر جا کر لوگوں سے ملتے ۔ انھیں مذہبی فرائض یاد دلاتے ۔ جنت اور جہنم کا فرق سمجھاتے اور زندگی کی بے معنویت ان پر اجاگر کرتے۔ مغرب کی نماز کے لیے مسجد میں بلاتے۔ نماز تفصیلی بیان ہوتا اور لوگوں کو جماعت سے جڑنے کی دعوت دی جاتی۔اس طرح گویا ایک متوازن اور باہم منسلک معاشرے میں افتراق نے ہر شے کو تبدیل کر کے رکھ دیا ۔جو امن ، سکون اور تواضع پہلے تھی ،وہ اب نہ رہی؛ ” یہ لوگ نکاح سے پہلے لمبی لمبی تقریریں کرتے اور شادیوں میں رائج رسوم کو مشرکین سے موسوم کرتے ۔ رفتہ رفتہ شادی بیاہ کی رسموں سے لوگوں نے دوری اختیار کرنا شروع کیا۔ چند سال بعد شادی اور سوگ میں کوئی فرق نہ رہا۔اس منتشر ہوتے ماحول کے متوازی عبدالعزیز کا کردار ہے ۔جس کے خیالات اور سروکار بالکل الگ اور نہایت متوازن تھے۔ "۔۔۔ اس کے لیے خدا انسان کا نجی معاملہ اور دلوں کو قریب لانے کا وسیلہ تھا۔ مسجد مندر خالصتا عبادت کے لیے مختص مقدس مقامات ہیں ۔ ان کا استعمال مذہبی سیاست کے لیے کیا جائے گا ،اس نے سوچا نہیں تھا۔ بلکہ اب سے پہلے اس کا اپنا مذہب اور دوستوں کا مذہب اس کے لیے مسئلہ نہیں تھا اور نہ ہی مذہب کوئی دیوار تھی ان کے درمیان۔ چنانچہ عبادت گاہوں اور مذہبی سیاست کے درمیان کس نوعیت کارشتہ ممکن ہے اسے اس بات کا اندازہ نہیں تھا۔ وہ اس بات سے واقف نہیں تھا کہ بعض مذاہب دوسرے عقائد کو باطل تصور کرتے ہیں، انھیں صفحہ ہستی سے مٹانا اپنا نصب العین سمجھتے ہیں۔ صرف ہم مذہب لوگوں کو مساوی آدمی سمجھتے میں باقی کو کافر، ناستک ، مشرک ، ملحد ، شتر و بت پرست ، گمراہ، بے دین، اسفل، جاہل اور دوزخی۔” اور پھر پاگل پن کی ترویج ماحول کو اس قدر آلودہ کر دیتی ہے کہ سارا توازن اور اعتدال قصہ پارینہ بن کر رہ جاتا ہے ۔یہی اس ناول کا المیہ ہے۔ محبت کی کہانی لکھتے ہوئے رحمان عباس کی طلسم نگاری اپنے عروج پہ نظر آتی ہے ، وہ جملہ کیفیات کو اپنے طلسمی بیان کی زینت بنانے کے لیے علامتوں کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں، وہ ذہن کے ساتھ ساتھ جسم کو بھی متاثر کرنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔ ناول کی کہانی میں ایک بیاہتا جوان عورت،جس کا میاں موثر نہیں ہے ،کسی شادی کی تقریب میں ایک بالکل نوجوان لڑکے کے ساتھ رات کے کسی پہر اتصال کرتی ہے۔اس میں سانپ، مینڈک، چھپکلی، ہرن، اور عہد قدیم کی اپسرا کی علامتیں استعمال کی گئی ہیں۔ "سکینہ اس کے دل کی تیز دھڑکن کو سن رہی تھی اور جانتی تھی اس دھڑکن میں خواہش شامل ہے۔ خدا جانے یہ اس کی اپنی جسارت تھی یا ستاروں اور سیاروں کی منفر د ترتیب کا اثر تھا۔ اس کی کایا پوری طرح پلٹ گئی۔ کچھ دیر کےلئے وہ سانپ بنی رہی، پھر کچھ دیر کےلئے مینڈک ،کچھ دیر کے لیے چھپکلی، کچھ دیر کےلئے ہرن اور پھر بالآخر وہ عہد قدیم میں لکھی گئی اساطیری کہانیوں کی اپسرا میں بدل گئی جس نے عبدالعزیز کو اپنے وش میں، اپنے اختیار میں کر لیا۔” یہ پہلے اتصال کا قصہ تھا، یہی اتصال سکینہ کے تصور محبت کی تشکیل جدید بھی کرتا ہے ۔ "۔۔۔جہاں محبت ہو ، وہاں ڈر کھونے کا نہیں بلکہ حاصل کرنے کا ہوتا ہے۔ محبت ہو تو کھونا کیا؟ ساتھ نہیں ہونے کا مطلب کھو دینا تو نہیں ہوتا ، جس طرح ساتھ جینے کا مطلب پا لینا نہیں ہوتا ۔” رحمان عباس کی جادو نگاری کی دیگر قابل ذکر مثال ناول کے صفحات 274 سے 278 پر ملاحظہ کی جا سکتی ہے ۔ ممنوعہ محبت اور کئی طرح کے پاگل پن سے معمور یہ ناول بنیادی طور پر ایک الم نامہ بھی ہے۔اس کا انجام کسی اچھے آغاز کی طرف اشارہ نہیں کرتا ۔لیکن شاید اس ناول کا یہی سب سے بڑا منصب بھی نظر آرہا ہے کہ یہ ہمیں بطور سماج اجتماعی طور پر تنگ نظری، شدت پسندی اور دہشت گردی کی گہری کھائیوں کی طرف جانے سے روک سکتا ہے ۔اگر ایسا ہو جاتا ہے، تو یہ رحمان عباس کی بہت بڑی فتح ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے