کالم

نوشہرہ ورکاں !مدثرناہرہ سیاست

کافی عرصے بعد اپنے جھوٹے بیٹے زید امیر کے ساتھ ایک شادی میں شرکت کےلئے نوشہرہ ورکاں کے نواحی علاقے راڑو والہ جانا پڑا۔ میں نے دیکھا کہ یہ علاقہ جو 70کی دہائی میں چند ہزار افراد پر مشتمل چاروں طرف سے کھیتوں میں گھرا ہوا ایک بہت ہی چھوٹا سا گاﺅں تھا اب شہری سہولتوں سے آراستہ شہر نظر آرہا تھا وہاں بینکوں کی برانچز اور سٹورز کھل چکے ہیں جہاں کبھی مٹی کے کچے مکانات ہوا کرتے تھے ان کی جگہ بڑی کوٹھیوں اور محلات نے لے لی ہے ۔ شادی کے فنکشن کا اہتمام نہر کے کنارے نو تعمیر شدہ مارکی میں کیا گیا تھا برآت منڈی بہاﺅالدین کے قریبی قصبے سے آرہی تھی ۔ برآت کا وقت دو بجے مقرر تھا لیکن وہ لوگ شام پانچ بجے پہنچے۔ ہم چھ بجے کے قریب کھانے سے فارغ ہوئے۔ ہمیں جلدی راولپنڈی پہنچنا تھا چھوٹا بھائی فہیم اپنی گاڑی میں ہمیں لے کر نکلا نوشہرہ ورکاں کے دونوں ویگن اڈے گھوم لے لیکن کوی ویگن نہ مل سکی آخر فہیم ہمیں گوجرانولہ ڈراپ کرکے گیا۔ اعوان چوک سے راولپنڈی والی گاڑی میں نو بجے بیٹھے اور رات ڈیڑھ بجے راولپنڈی پہنچ گئے۔یہ بات کنفرم ہو گی کہ اکیسویں صدی میں بھی نوشہرہ ورکاں رات سات بجے کے بعد پوری دنیا سے کٹ جاتا ہے۔ جہاں پورے ملک میں انتخابات کی گہما گہمی ہے وہاں نوشہرہ ورکاں میں سیاستدان بھی ووٹروں کو بیوقوف بنانے کیلئے میدان میں آ چکے ہیں۔ وہ پرانی شراب کو نے لیبل لگا کر پیش کر رہے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ تحصیل ایڈمنسٹریشن کے سامنے بہت رش لگا ہوا ہے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں کھڑے ہونے امیدوار اپنے حمایتی ووٹرز کے ہمراہ کاغذات نامزدگی داخل کروا رہے تھے نوائے نوشہرہ جو کہ صرف عیدین اور دیگر تہواروں پر خصوصی ایڈیشن شائع کرتاہے اب انتخابی سر گرمیاں تیز ہونے کی وجہ سے خصوصی ایڈیشن شائع کر رہاہے ۔ پینا فلیکس کی وجہ سے ہمارے دوست عارف آرٹ کا کام بڑا آسان ہو گیا ہے ورنہ کسی زمانے میں وہ ہاتھوں سے اشتہارات بینرز اور پوسٹرز لکھا کرتے تھے۔ میں نے نوشہرہ ورکاں کی دیواریں بینرز اور ہورڈنگز سے بھری ہوی دیکھیں۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ عرصہ دراز سے سڑکیں ٹوٹی ہوی تھیں گرد اڑ رہی تھی بارش کے دنوں میں کڑیال روڈ تالاب کا منظر پیش کرتی تھی اب بھی ویسی ہی ہے۔ سابق ایم این اے مدثر ناہرہ کی کوششوں سے عوام سے ووٹ حاصل کرنے کیلئے کچھ ترقیاتی کام شروع ہو چکے ہیں جو کہ مونگ پھلی کے دانے کے برابر ہیں۔ نوشہرہ ورکاں سے اعوان چوک گوجرانوالہ جانے والی سڑک جو عرصہ دراز سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی ایک بار پھر تعمیر ہو چکی ہے لیکن مقامی سیاسی قیادت خاص طور پر ناہرہ برادران کی توجہ تتلے عالی والی روڈ کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں یہ سڑک بھاری ٹریفک ٹریکٹر ٹرآلیوں کی آمد و رفت کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور انتہائی خستہ حال ہو چکی ہیے سیاسی قیادت کی توجہ چاہتی ہے۔ سپورٹس کمپلیکس جو مدثر ناہرہ کی کوششوں سے تعمیر کیا گیا کوڑے کا ڈھیر بن چکا ہے سیاستدانوں کی توجہ چاہتا ہے۔ نوشہرہ ورکاں اور گردو نواح میں پی ٹی آئی اب بھی عوام میں بہت زیادہ مقبول نظر آ رہی ہے۔ رانا اعجاز مرحوم کے بیٹے بلال اعجاز کے کاغذات عدالتی فیصلے سے این اے 81میں منظور ہوچکے اب اصل مقابلہ مسلم لیگ ن کے نارہ برادران اور پی ٹی آئی کے بلال اعجاز کے درمیان ہو گا۔ پی ٹی آئی کے امیدوار اپنے حماتیوں کے ساتھ کاغذات نامزگی جمع کروانے آئے تھے مبینہ طور پر تحصیل انتظامیہ کی طرف سے ان کے آگے روڑے اٹکائے جا رہے تھے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق انتخابات میں بلا پی ٹی آئی کا انتخابی نشان نہیں ہو گا۔ پی ٹی آئی عدالت گ اور بلا بحال ہو گیا۔ لیکن الیکشن کمیشن کی نظر ثانی اپیل پر پشاور ہائی کورٹ نے بلے کا نشان روک لیا۔ پی ٹی آئی کا جشن ادھورا رہ گیا ۔ اپنے استاد اکرام الحق گوھیر سے تین سال بعد ان کی رہائشگاہ پر ملاقات ہوئی پرانی ستر کی دہائی کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ بحث مباحثے کا سلسلہ چلتا رہا میں نے ان کے سکول کی لائبریری کیلئے اپنے دور میں شائع ہونےوالی ایف بی آر ار بک پیش کی ۔ نوشہرہ ورکاں کی سیاست پر بات ہوئی وقت کی کمی کی وجہ سے رخصت چاہی۔ اس وقت نوشہرہ ورکاں کی سیاسی صورتحال یہ ہے سابق ایم این اے مدثرناہرہ علاقے میں اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے مختلف برادریوں کو مسلم لیگ ن میں شامل کر رہے ہیں یہ سلسلہ گاڑھی اور بدورتہ سے شروع ہوا اب ناہرہ گروپ نے اعوان برادری کو بھی منا لیا ہے مدثر ناہرہ جہاندیدہ سیاستدان ہیں تقریباً گزشتہ دس سال سے اس علاقے پر راج کر رہے اب وہ علاقے کی مختلف برادریوں کو پیار محبت سے منا رہے ہیں اور پی ٹی آئی کی مقبول شخصیات کو مسلم لیگ ن میں شامل کروا کر پی ٹی آی کی وکٹیں گرا رہے ہیں اور لگ ایسے رہا ہے کہ اگر آٹھ فروری کو انتخابات ہوئے تو ن لیگ نوشہرہ ورکاں میں کلین سویپ کریگی۔ مگر میں نے مختلف طبقہ فکر کے لوگوں سے گفتگو کرکے محسوس کیا کہ عوام کی اکثریت اب بھی پی ٹی آئی کیلئے نرم گوشہ رکھتی ہے نوشہرہ ورکاں کے ارد گرد کے دیہاتوں میں اب بھی جاگیرداری اور چوہدریوں کا راج ہے نوائے نوشہرہ کی رپورٹ کے مطابق حکومت پنجاب نے پیدائش اور موت کی پرچی فیس کم کر دی ہے لیکن مٹو بھایکے میں چوہدریوں کی بد معاشی کی وجہ سے غریب اگر بولتا ہے تو اسے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اسی طرح پرایویٹ کالجز کی اجارہ داری ہے مبینہ طور پر ایک بچی کی والدہ اپیکس کالج اپنا مسئلہ لے کر گئیں تو ان کی بات سننے کی بجائے کالج سے نکال دیا کیونکہ پرائیویٹ کالجز کی ایسوسی ایشنز بہت مضبوط ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی سیاست کی وجہ سے گاﺅں میں بسنے والے عوام میں سیاسی شعور آ گیا تھا وہ ا پنے حقوق کو سمجھنے لگے تھے ریڑھی والا بھی سیاست پر بات کرتا تھا پی ٹی آئی کی قیادت نے بھی عوام میں جڑیں مضبوط کیں لیکن پونے چار سالہ کارکردگی اور نو مئی کے واقعات نے سب کچھ گنوا دیا۔ گاﺅں میں بسنے والے غریب عوام کی عزت نفس بحال کروانا ہوگی۔
٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے