بھارت اور کینیڈا کے تعلقات ایک بار پھر شدید کشیدگی کی طرف جارہے ہیں۔ گزشتہ برس کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا میں خالصتان نواز سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نِجر کے قتل کے کیس میں تین افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اس حوالے سے بھارت کے کردار کی باتیں ہو رہی ہیں ۔ صورتِ حال میں اس تبدیلی کے ساتھ ساتھ اب کینیڈا کے دارالحکومت اوٹاوا کی کمشنر نے ایک رپورٹ میں الزام لگایا ہے کہ مودی سرکار خالصتان تحریک کے حوالے سے کینیڈا میں بھارتی کمیونٹی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق اوٹاوا کی کمشنر کا کہنا ہے کہ مودی سرکار نے کینیڈا کے انتخابی معاملات میں مداخلت بڑھا دی ہے۔ چند ماہ کے دوران خالصتان تحریک کو نشانہ بناکر کینیڈا میں بھارتی نڑاد کمیونٹی پر اثر انداز ہونے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ بھارتی حکومت کی طرف سے مداخلت کی کوشش کے باعث کینیڈا میں ماحول کشیدہ ہو رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں کینیڈا میں آباد سِکھ اور ہندو ایک دوسرے سے کِھنچتے جارہے ہیں ۔ خالصتان تحریک کے خلاف موقف کی آڑ میں سِکھوں کو نشانے پر لیا جارہا ہے۔ یہ صورتِ حال غیر معمولی محاذ آرائی میں بھی تبدیل ہوسکتی ہے۔ گزشتہ دو انتخابات کے دوران بھارت نے بھارتی نژاد ووٹرز اور سیاست دان دونوں ہی پر اثر انداز ہونے کی منظم کوشش کی۔میری ہوزی ہوگ نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ بھارتی حکام اور کینیڈین سرزمین پر بھارت کے ایجنٹ مقامی سیاست دانوں پر بھی اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ خالصتان تحریک اور دیگر معاملات پر کینیڈین حکومت کی پالیسی کو تبدیل کروایا جاسکے۔ خالصتان تحریک کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کے باعث کینیڈا میں آباد سِکھوں میں مودی سرکار کے خلاف شدید جذبات پائے جاتے ہیں۔ اوٹاوا کے کمشنر کی 194 صفحات کی رپورٹ میں43 مقامات پر بھارت کا ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ بھارتی حکومت خالصتان کا نام لینے والے ہر شخص کو بھارتی سرزمین اور سیکیورٹی کا دشمن تصور کرتی ہے جبکہ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ رپورٹ کے مطابق خالصتان کے نام پر تشدد کو ہوا دینے والے چند لوگ ہیں جبکہ اس تحریک کی حمایت کرنےوالے سِکھوں کی غالب اکثریت مکمل طور پر امن پسند اور قانون کی تعمیل پر یقین رکھنے والی ہے۔کینیڈا میں خالصہ ڈے کے حوالے سے سکھوں کی تقریبات کے بعد مودی سرکار کے سکھوں کے خلاف دہشتگردانہ اقدامات پر عالمی سطح پر مذمت کی جا رہی ہے ۔ خالصہ ڈے کے حوالے سے سکھوں کی بڑی تعداد نے مودی مخالف نعرے بازی کی اور پوسٹرز بھی اٹھا رکھے تھے۔ان تقریبات سے بھارت کو واضح پیغام دیا گیا کہ کینیڈین حکومت ہردیپ سنگھ نجر کے قاتلوں کیخلاف سکھوں کے ساتھ کھڑی ہے۔مودی سرکار کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے اس اقدام پر تلملا اٹھی اور اس کے بعد کینیڈین سفیر کو فوری طور جواب طلبی کیلئے بلا لیا۔بھارت حکومت نے مو¿قف اختیار کیا کہ کینیڈین وزیراعظم اپنی سرزمین پر تشدد اور انتہا پسندی کو ہوا دے رہے ہیں۔کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی خالصتان تحریک کے واضح مو¿قف اور بھارتی دفتر خارجہ میں کینیڈین سفیر کی جواب طلبی دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی کو مزید بڑھانے کی جانب اشارہ ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے سکھ برادری کی تقریبات میں بھرپور شرکت کرتے ہوئے سکھوں کو ان کے حقوق کے تحفظ کی مکمل یقین دہانی کروائی ہے۔سکھ علیحدگی پسندوں کا مطالبہ ہے کہ ان کا وطن خالصتان پنجاب سے علیحدہ بنایا جائے، اس تحریک کے آغاز کے بعد بھارت کی شمالی ریاست پنجاب میں 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں خونی بغاوت ہوئی تھی اور اس کا ہدف سکھ علیحدگی پسند تھے، اس دوران ہزاروں لوگ مارے گئے تھے ۔ اس وقت کی حکمراں جماعت کانگریس نے علیحدگی پسندوں کے خلاف کریک ڈاو¿ن کیا تھا اور بالآخر اس مہم کو دبا دیا تھا۔اس بغاوت کی وجہ سے کانگریس رہنما وزیر اعظم اندرا گاندھی کا قتل بھی ہوگیا تھا جنہیں 1984 میں ان کے سکھ محافظوں نے قتل کر دیا تھا۔کینیڈا کی سرزمین پرسکھ رہنما کے قتل پر پانچ اہم ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیاں بھارت کےخلاف ایک پلیٹ فارم پر آگئیں اور ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے الزامات کو انتہائی سنجیدہ قرار دے دیا۔ امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے تحقیقات کا مطالبہ کردیا ہے۔امریکی محکمہ خارجہ نے بھارت سے کہا ہے کہ وہ تحقیقات میں تعاون کرے اور آسٹریلوی وزیراعظم نے صورتحال کوتشو یشنا ک قراردیا۔ برطانوی وزیرخارجہ جیمزکلیورلی نے کہا ہردیپ سنگھ کے قاتلوں کو انصاف کا سامنا کرنا پڑےگا۔