بلاشبہ عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے شکار ممالک میں پاکستان پہلے نمبروں پر ہے مئی عام طور پر گرمی کے آغاز کا مہینہ ہوا کرتا تھا تیز دھوپ کے ساتھ چلنے والی ہوائیں اور کبھی کبھار بارشیں مئی کی گرمی کو جون تک لے جایا کرتی تھی اور جون کے اوائل سے ستمبرکے آخر تک گرمی اپنے عروج پر ہوتی مگر اس مرتبہ تو مئی نے گرمی کا جو جلوہ دکھایا ہے اور پارہ کو جس طرح اوپر اٹھایا ہے لوگ گھروں میں دبکنے پر مجبور ہو گئے ہیں جبکہ ہسپتالوںکے ہسپتال گرمی کے شکار مریضوں سے بھر گئے ہیں جن میں زیادہ تعداد بچوں بوڑھوں اور کمزوروں کی ہے لاہور اسلام آباد کراچی اورپشاور سے نمائند گان کی مشترکہ تین کالمی خبر میں بتایا جا رہا ہے کہ سندھ کے بعض علاقوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری جبکہ ڈی جی خان میں47فیصل آباد میں44سینٹی گریڈ رہا جبکہ لاہور گجرانوالہ اور گجرات ڈویژنوں میں بھی یہی صورتحال رہی خبر میں بتایا گیا ہے کہ شدید گرمی کی اس لہر کو انسانوں کے لیے مزید خطرناک بنانے میں واپڈا نے جلتی پر تیل کا کردار ادا کیا ہے بعض شہروں میں اٹھ سے دس گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ساتھ پرمٹ کے نام پر پورا پورا دن بجلی بند رکھنے سے عذابناک صورتحال پیدا کر دی ہے صفحہ اول پر چلنے والی اس تین کالمی خبر کے عین اوپر ایک سنگل کالمی خبر میں اسلام آباد کے رپورٹر کی یہ خبر بھی عام آدمی کیلئے بجلی گرانے سے کم نہیں جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بجلی کے بنیادی ٹیرف میں اضافے کی درخواست پر سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے جو نیپرا کے اعداد و شمار کے بعد سنایا جائے گا خبر میں بتایا گیا ہے کہ سی پی پی اے نے نئے مالی سال کے لیے پاور پرچیزنگ پرائس کے تعین اور صارفین پر 310 ارب روپے سے زائد کا اضافی بوجھ ڈالنے کی درخواست دائر ہوئی ہے جس کی منظوری سے بجلی کا بنیادی ٹریف پانچ روپے فی یونٹ سے بڑھ سکتا ہے خبر میں بتایا گیا ہے کہ انڈسٹری کی بجلی کی طلب کم ہوئی ہے جبکہ بڑی صنعتوں کی پیداوار بڑھی ہے سولر اب انڈسٹری کی ضروریات پوری کر رہا ہے بات مئی کی قیامت خیز گرمی سے شروع ہو کر بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی عذاب ناک خبر پر پہنچی ہے تو سوچتا ہوں کہ ہم کون سے ملک میں زندگیاں گزار رہے ہیں ہم ترقی یافتہ ملک تو ہیں نہیں لیکن ترقی پذیر ممالک میں بلکہ تیسری دنیا کے گئے گزرے ممالک میں بھی شاید ہم شمار نہیں ہوتے یوں لگتا ہے کہ ہم پر پے در پے دہائیوں سے حکمرانی کرنے والے ہمارے ہر دل عزیز حکمرانوں نے اپنی عوام دوست پالیسیاں سے ہمیں کچھ اس طرح سے تختہ مشق بنایا ہے کہ ہم انسانوں سے کیڑے مکوڑوں کے درجے پر اگئے ہیں اندازہ کریں نا جی کہ عام آدمی کو گھریلو کنکشن پر تمام ٹیکسز ڈال کر فی یونٹ70روپے میں پڑ رہا ہے جبکہ آمدن اور بچت کے اشاریے تیز رفتاری سے گرنے کے بعد اس جگہ پہنچ چکے ہیں کہ غربت اور مہنگائی کے عالمی درجوں میں ہمارا شمار پہلے نمبروں پر آنے لگا ہے آپ اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں ہر روز کئی شہروں سے بیک وقت خود کشی اور خود سوزی جیسی اندوہناک خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں ۔یہ وہ خبریں ہیں جو اخبارات تک رسائی پا لیتی ہیں جبکہ ایسی بہت سی خبریں نامہ نگاروں کی نظر سے اوجل بھی رہتی ہیں اگر ان کو بھی شمار کر لیں تو عام آدمی کی معاشی صورتحال کیسی ہے کا اندازہ لگانا مشکل نہیں دو روز سے ازاد کشمیر کے علاقہ دو میلی کہ پل سے ایک ستم زدہ ماں کی اپنے معصوم بچے سمیت دریا میں کود کر خود کشی کرنے کی ویڈیو مجھے چین نہیں لینے دے رہی آپ تھوڑی دیر اس منظر کو سوچیں کہ کس طرح ایک ماں نے اپنے معصوم بچے کو دریا میں پھینکا ہوگا اور پھر کس طرح خود کو دریا کی بے رحم موجوں کے سپرد کیا ہوگا وہ کون سے حالات تھے جس نے ماں بیٹے کو ایک ساتھ مرنے پر مجبور کیا ہوگا سوچتا ہوں کہ اگر حالات کے ستائے ہوئے ماں بیٹے نے اللہ کے حضور پہنچ کر داد رسی کی درخواست کر دی تو کتنے محل اور کتنے مینارے کتنی پگڑیاں اور کتنے پگڑ تباہ ہو جائیں گے لیکن وہ جنہیں یہ سب کچھ سوچنا ہے انہیں اس کی فکر ہی نہیں اگر فکر ہے تو بس اتنی کہ پوری دنیا کی دولت اور سہولتیں احتیاط اور اقتدار ان کے گھروں میں جا بسے اور لوگ کیڑے مکوڑے بند کر جبر کی زندگیاں گزاریں یا پھر اس ماں بیٹے کی طرح دریا میں کود کر ازادی حاصل کر لیں بڑا زعم تھا کہ ہم طاقتور ہیں آزاد کشمیر کے شریف پر امن اور سادہ لوگوں نے تین روز میں ہی انہیں باور کرا دیا کی برداشت کرنے کی بھی ایک حدہوتی ہے جب بات برداشت سے باہر ہو جائے تو کمزوراور شریف بھی اٹھ کھڑاہوتا ہے دیکھیں نا یورپ سے لے کر امریکہ اور چین تک سعودیہ سے لےکر گلف ممالک تک بنگلہ دیش سے بھارت تک سب سولر انرجی کی طرف جا رہے ہیں جبکہ سولر مصنوعات بنا کر ہم جیسے غریب ممالک کو بھی سولر کی طرف راغب کر رہے ہیں جب کہ ہمارے حکمران اور ذمہ داران اس فکر میں ہے کہ ہمارے ائی پی پیر اور ان کے معاہدوں کا کیا بنے گا اور کس طرح ہم غریبوں کی جیب سے اپنے کیے ان معاہدوں کے لیے رقم نکلو ائیں گے بجلی کی قیمت میں بار بار کے اضافوں نے انسانوں کو ذہنی مریض بنا دیا ہے اور لاوا ہے کہ کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے اس سے پہلے کہ ایسا ہو بجلی کے معاہدوں کو فوری ختم کریں لوگوں کیلئے اسانیاں پیدا کرتے ہوئے سولر پالیسی اور قوانین کو عوام دوست بنا کر اپنی سیاسی ساکھ کو بھی بچائیں اور ملک و قوم کو بھی۔