کالم

مرے ہوئے زندہ لوگ

اخلاص ،محبت،صلہ رحمی،احسان اور دلی ہمدردی کے جذبات ناپید ہوگئے۔ہم نے اپنے ہی کرداروعمل سے اس دنیا کو جہنم بنا رکھاہے۔خوش قسمت ہم نہیں جو سہولیات اور آرام و آسائش کی فراوانی کے دور میں ‘احساس ‘ کے بغیر جی رہےہیں بلکہ وہ پرانے وقتوں کے وہ لوگ تھے جنھوں نے غربت میں بھی امیری کی۔ان کے کچے گھروندےسکون اور محبت کدے تھے جبکہ آج کی کوٹھیاں اذیت کدے ہیں۔ان کی جھونپڑیاں بھی یاد خدا سےآباد اور آج کے دولت کدے بھی غفلت و خدا فراموشی کے باعث ویران ہیں۔ان کے گھر سامان آسائش حتی کہ اشیا خوردونوش سے بھی خالی تھے مگر مضبوط ایمان ، جذبہ ہمدردی،انسانی خیر خواہی اور توکل علی اللہ کی لازوال دولت سے بھرے پڑے تھے۔آج سب کچھ میسر و حاصل ہونے کے باوجود ہم بھری بستیوں میں تنہا اور اپنوں کے درمیان بھی اجنبی بن بیٹھے ہیں۔آج احترام آدمیت دم توڑ چکا اور فکر انسانیت ہماری سوچ کا عنوان ہی نہیں۔ظلم و ناانصافی اور جبر و قہر کی بھٹیاں گرم ہیں ۔ہر طرف نفرت،نفاق اور بد خواہی کی آندھیاں زور و شور سے چل رہی ہیں جبکہ محبت،بھائی چارے ،باہمی احترام و برداشت کے پھول کب کے مرجھا چکے۔آج ہمیں بدلتے موسموں کی تبدیلی کا سامنا ہے۔میرا یقین ہے کہ جس طرح کے اعمال ہم آسمان کی طرف بیجھیں گے اسی طرح کے حالات زمین کی طرف آئیں گے۔ہم نے کبھی اپنے انفرادی و اجتماعی اعمال و معمولات پر غور کی زحمت کی نہ انھیں درست کرنے کی کوشش کی۔ہم اکثر اپنے بزرگوں کے دور کے اطمینان قلوب،خوش مزاجی و گفتاری اور باہمی ہمدردی کے مچلتے جذبوں کو لائق تذکرہ سمجھتے ہیں۔مگر ان خرابیوں اور خامیوں کو بھول جاتے ہیں،جنھیں ہم نے آج اپنا رکھا ہے۔وہ واقع مطمین تھے چونکہ وہ قرآن پاک کے بتائے اس کلیے اور اصول پر عمل کر تے تھے کہ بیشک اللہ کا ذکر ہی دلوں کو سکون عطا کرتا ہے۔ہم خدا کو کتنا یاد کرتے ہیں۔یہ سوال خود سے کبھی نہیں پوچھتے۔یاد رکھیے یہ دستور خداوندی ہے کہ وہ انھی کو یاد کرتا ہے جو اسے یاد کرتے ہیں۔وہ انھیں ہی نعمتوں سے نوازتا ہے جو شکران نعمت کرتے ہیں۔اللہ کی یاد وشکر کے معاملے میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔گریبان میں جھانکنا چاہیے۔پرانے وقتوں کے لوگ شب بیدار اور آداب سحرگاہی سے واقف تھے۔وہ رات کی تنہائیوں میں رورو کر اپنے خالق کو منا لیتے تھے۔ان کی زبانیں اللہ اور اس کے رسول مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذکر پاک سے تر رہتی تھیں۔وہ خدا سے ڈرنے والے تھے۔وہ دوسروں کا حق مارنے سے گھبراتے تھے۔وہ ناانصافی سے دامن بچاتے تھے،وہ پڑوسیوں سے حسن سلوک کرتے تھے۔وہ انسان تو کیا کسی جانور کو بھی گرفتا بلا دیکھتے تو تڑپ جاتے تھے اور ممکنہ مدد فرض خیال کرتے تھے۔انکے وقت میں ندی نالے پانی سے بھرے اور چشمے رواں رہتے تھے لیکن آج یہ سوکھ گے ہیں ۔موسم کی تلخی اور شدت بڑھ رہی ہے۔غور کیجیے کہیں ان فضاوں اور ہواوں میں ہماری ہی پھلائی نفرتیں ،عداوتیں،رنجشیں،جھوٹی اناوں کی تسکین کے لیے ڈھائے ظلم،ناانصافی ،یتیموں کے مال پر للچائی نظریں ،انسانوں کی بدخواہی ،جانوروں سے بے رحمی ،پڑوسیوں سے بے خبری جیسی بد اعمالیاں اس کے مزاج میں گرمی تو نہیں گھول رہیں۔افسوس راتوں کو جاگنے اور صبحوں کو تلاوت قرآن کے ذریعے خدا کی رحمتوں کو آواز دینے والے نہ رہے۔آپ کسی ایک بستی کو لے لیں،کتنے گھر ہونگے جہاں سبھی لوگ وقت نماز اپنی جبین تشکر زمین پر ٹیک دیتے ہیں،شب بیداری اور تہجد گزاری کتنوں کا معمول ہے،صبح کی پر کیف ساعتوں میں کتنوں کو تلاوت قرآن کی توفیق ملتی ہے۔ہم اپنے اللہ سے کیوں شکوہ کناں ہیں کہ زمانے بھر کی رسوائیاں ہمارا ہی مقدر کیوں۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔
رہ گئی رسم آذاں باقی روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے