میجر(ر)ساجد مسعود صادق
امریکی ثالثی میں سن 2020 میں ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں طے پائے جانے والے معاہدہ ابراہیمی پر سب سے پہلے عرب امارات نے دستخط کیئے۔ "ابراہیمی معاہدہ” بظاہر اسرائیل اور کئی عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے طے پانے والے معاہدوں کا ایک سلسلہ ہے۔ اس معاہدے کا نام پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام پر رکھا گیا تھا، جو یہود، مسیحی اور مسلمانوں کے لیے مشترکہ پیغمبر ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے فورا بعد بحرین اس میں شامل ہوا۔ جب کہ جمہوریہ سوڈان اکتوبر 2020 میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے پر رضامند ہوا تھا۔ 5 ویں فریق کے طور پر مراکش نے دسمبر 2020 میں اس معاہدے پر دستخط کر کے اس میں شراکت اختیار کی تھی۔ اس وقت صدر ٹرمپ کے دوسرے دور حکومت میں اس معاہدہ پر مزید جن ملکوں کو دستخط کرنے کے لیئے پریشر کا سامنا ہے ان میں پاکستان ایک ہے۔ پاکستان میں اشرافیہ، این جی اوز اور میڈیا سیمتعلقہ ایک چھوٹے سے گروہ کا خیال ہے کہ یہ معاہدہ پاکستان کے لیئے مفید ہے۔
معاہدہ ابراہیمی کی فیس ویلیو یہ ہے کہ یہودی، عیسائی اور مسلمان سب حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ایک جیسا رشتہ رکھتے ہیں۔ اس تعلق کی بنیاد کے دو ستون ہیں ایک مادی اور دوسرا روحانی یا مذہبی پہلو۔ جہاں تک مادیت کی بات کی جائے تو عرب ممالک کی حد تک ہی یہ بات درست ہے اور اگر روحانی اور مذہبی سطح پر دیکھا جائے تو اس میں دیگر اسلامی ممالک بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ یہاں پر یہ پہلو بھی انتہائی اہم ہے کہ اسلامی ممالک مادی پہلو یا روحانی اور مذہبی پہلو میں سے کس کو ترجیح دیتے ہیں۔ جہاں تک مادی پہلو کی بات کی جائے تو اس پر اسلامی ممالک کو ہرگز اسرائیل کے ساتھ تعلقات نہیں رکھنے چاہیئے کیونکہ صیہونی نظریہ ” گریٹر اسرائیل” کے مطابق عرب ممالک کے ساتھ اسرائیلی موروثی جنگ اس وقت سے جاری ہے جب سے نبوت بنی اسرائیل سے بنی اسماعیل علیہ السلام کی طرف آئی۔ زمین کے قبضے سے لیکر قبلہ و کعبہ تک تینوں مذاہب (یہودیت، عیسائیت اور اسلام) حالتِ جنگ میں ہیں۔ موروثی بنیادوں پر ہی فلسطین کے مسلمان عیسائی پشت پناہی پر اسرائیلی بربریت و مظالم کا شکار نظر آتے ہیں۔
جہاں تک مذہبی یا روحانی پہلو کی بات کی جائے تو تمام تر اسلامی تعلیمات جو قرآن و حدیث کا نچوڑ ہیں ان کے تحت یہود ونصاری کے روحانی قربت کی سخت سے نفی ہوتی ہے۔ تاریخی طور پر بھی یہودیوں اور عیسائیوں نے ثابت کیا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بلکہ قرآن تو یہاں تک کہتا ہے کہ "یہود ونصاری کبھی تمہارے دوست نہیں ہوسکتے، اور جو ان سے تعلق رکھے گا وہ انہی میں سے ہوگا۔” یہ باتیں پاکستانی سپہ سالار سے کیونکر مخفی رہ سکتی ہیں جو بذات خود حافظ قرآن ہیں اور قرآن کے مکمل پیغام سے اچھی طرح سے واقف بھی ہیں۔ یہودی اور عیسائی جبلتی طور پر اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں جس کا مظاہرہ تاریخی عالم کی کتب میں کئی مقامات پر محفوظ ہے۔ جہاں تک پاکستان کی مختصر تاریخ کا تعلق ہے تو اس سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسرائیلیوں نے پاکستان کو ہمیشہ اپنا دشمن ہی سمجھا ہے اور دنیا کے ہرفورم پر اس کی مخالفت بھی کئی ہے اور پاکستان کو مٹانے کی ہر بھارتی سازش بشمول آپریشن سندور میں بھی ہمیشہ شامل رہے ہیں۔
جس طرح نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں مسلمان ممالک کا مغربی طاقتوں نے قتل عام کیا ہے کیا اب بھی غزہ میں یہودی بربریت و مظالم میں بلکتے بچوں اور بوڑھوں کی دل ہلا دینے والی ویڈیو کلپس مسلمان حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کے لیئے کافی نہیں؟ روس ٹوٹنے کے بعد جس طرح امریکہ واحد ہائپر سپر پاور کے طور پر پوری دنیا میں مسلمانوں کے کشت و خون کا مرتکب ہوا ہے اس کو بھول کر اب یہ سوچنا چاہیئے کہ بین الاقوامی سیاست میں چین اور روس کی مضبوطی سے ایک توازن پیدا ہو چکا ہے اس لیئے امریکہ ایک بار پھر چاپلوسی سے کام لیتے ہوئے اپنا الو سیدھا کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کو کسی بھی قسم کا پریشر خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس معاہدہ سے بر ملا انکار کرنا چاہیئے اور جسے اللہ نے مسلمانوں کا دشمن مقرر کیا ہے اس دوست بنانا نہ صرف دنیاوی بلکہ اخروی خسارے کا سبب ہے۔ پاکستان ایک نظریاتی اور اسلامی ریاست ہے جسے مذہب، عقل اور تاریخ سب اس معاہدے میں شامل ہونے سے روکتے ہیں۔ امریکہ جب تک اپنی دوغلی پالیسی اور اسرائیل مسلم دشمنی سے باز نہیں آتے ایسے معاہدے میں شامل ہونا سراسر خود کشی ہے۔
پاکستان کو اس صورتحال کو اچھی ڈپلومیسی سے ہینڈل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ مغربی استحصال نظام اپنی موت مرتا ہوا نظر آتا ہے۔ نیتین یاہو اور سابقہ امریکہ صدور کے پوری دنیا پر کنٹرول و قبضے کی خاطر لڑی گئی مہلک جنگوں کے اثرات سے ابھی نکل نہیں پائی۔ ایسے میں امریکہ کی خواہش پر اس معاہدے پر دستخط کرکے پوری دنیا کو سازشوں اور آگ کا جنگی میدان بنانے والے مغربی استحصالی نظام کو مضبوط بنانے کی بجائے پاکستان اگر اس کی مخالفت نہیں کرسکتا تو اس کو مضبوط کرنے کی غلطی سے بھی پاکستان کو اغراض کرنا چاہیئے۔ امریکہ جس ٹریڈ کا پاکستان کو لالچ دے رہا ہے اس کے تجربات سے پاکستان اٹھہتر سال سے گزر رہا ہے۔ پاک امریکہ تعلقات کے بارے صدر ایوب سے لیکر عمران خان تک تمام پاکستانی سیاسی و عسکری قیادت کے تمام تر تجربات کا نچوڑ پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کو بتا رہا ہے کہ پاکستان مستقبل میں امریکہ سے اپنے تعلقات استوار کرتے ہوئے احتیاط کرے۔
معاہدہ ابراہیمی اور اس کے پیچھے چھپے امریکی اور اسرائیلی مقاصد کو سمجھے بغیر اس معاہدے کو من و عن قبول کرنا یا اس کا ممبر بننا "نظریہ پاکستان” سے انحراف ہے اور فلسطین کے متعلق پاکستانی خارجہ پالیسی کے اصولی موقف پر یو ٹرن کے مترادف ہے۔ اسرائیل کے لیئے عرب ممالک اور دیگر اسلامی ممالک کو اس معاہدے پر راضی کرلینا اور ان سے سفارتی اور تجارتی تعلقات قائم کرنا ان ممالک کی فلسطین کے مسئلے پر حمایت کے مترادف ہے۔ تمام اسلامی ممالک میں واحد ایٹمی قوت ہوتے پاکستان کی حیثیت جداگانہ نوعیت کی ہے۔ پاکستان اگر اس معاہدے میں شامل ہوتا ہے ہے تو امریکہ اور اسرائیل کے لیئے یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔