انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب نے دنیا کو عالمی گاں میں تبدیل کر دیا ہے۔ آج سوشل میڈیا انسانی زندگی کے ہر پہلو پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ چاہے سیاست ہو یا مذہب، تعلیم ہو یا تجارت، ذاتی تعلقات ہوں یا قومی بیانیہ ہر میدان میں سوشل میڈیا نے کلیدی کردار حاصل کر لیا ہے۔ جہاں اس کے مثبت پہلوؤں نے دنیا کو قریب لایا، وہیں اس کے منفی استعمال نے معاشرتی اقدار، رواداری اور اخلاقیات کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔سوشل میڈیا کی سب سے بڑی خوبی اس کی رسائی ہے۔ ایک پیغام لمحوں میں دنیا بھر میں پھیل سکتا ہے۔ مگر یہی خوبی جب غیر ذمہ داری کے ساتھ استعمال ہو تو فتنہ، انتشار اور نفرت کا سبب بن جاتی ہے۔ بغیر تحقیق کے کسی بھی خبر کو شیئر کر دینا، دوسروں کی کردار کشی کرنا، توہین آمیز زبان کا استعمال کرنا، اور مذہبی منافرت پھیلانا نہ صرف اخلاقی گراوٹ کی علامت ہے بلکہ معاشرتی تباہی کا پیش خیمہ بھی ہے۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں سوشل میڈیا کا استعمال اکثریت کے لیے محض تفریح، دوسروں کو نیچا دکھانے یا ذاتی تسکین کا ذریعہ بن چکا ہے۔ اختلاف رائے کا مطلب ذاتی دشمنی بنا لیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر زبان و بیان کا وہ معیار جسے مہذب معاشرے میں ناقابل قبول سمجھا جاتا ہے، یہاں روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پڑھے لکھے، باشعور افراد بھی اس اخلاقی زوال کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ایسے میں اگر کوئی ہستی انسانیت کے لیے مشعلِ راہ بن سکتی ہے تو وہ رسولِ اکرم حضرت محمد مصطفی ۖ کی ذاتِ اقدس ہے۔ آپ ۖ کا اسوہ حسنہ ہمیں سکھاتا ہے کہ اختلاف رائے کو کس طرح شائستگی سے بیان کیا جائے، دشمنوں کے ساتھ بھی کیسا حسنِ سلوک اختیار کیا جائے، اور معاشرے میں کیسے رواداری، محبت اور اخلاق کو فروغ دیا جائے۔ آپ ۖ نے فرمایا :کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات کو آگے پہنچا دے”صحیح مسلم۔ آج اگر سوشل میڈیا کے تمام صارفین صرف اسی ایک سنت کو اپنا لیں تو نفرت، گمراہی، اور فتنہ و فساد کا بہت بڑا دروازہ بند ہو سکتا ہے۔رسولِ اکرم ۖ کی زندگی ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ زبان کا استعمال کس قدر ذمہ داری کا متقاضی ہے۔ آپ ۖ کے اسوہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہر لفظ تول کر بولا جائے، کسی کی دل آزاری نہ ہو، اور حق بات کو نرم لہجے میں پیش کیا جائے۔ افسوس کہ آج سوشل میڈیا پر اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ گالم گلوچ، طعن و تشنیع، اور توہین آمیز رویے عام ہیں۔ یہ وہ طرز عمل ہے جس سے معاشرے میں نہ صرف انتشار پھیلتا ہے بلکہ رشتے، تعلقات اور معاشرتی ہم آہنگی بھی متاثر ہوتی ہے۔اس حوالے سے ریاست کی ذمہ داریاں بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ سوشل میڈیا کے منفی اثرات پر محض شکایتیں کافی نہیں، بلکہ ریاستی سطح پر عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ ایک جامع اور مربوط ضابطہ اخلاق ترتیب دیا جائے جو آزادیِ اظہار اور باہمی احترام کے درمیان توازن قائم رکھے۔ دوسرا قدم یہ کہ عوام الناس کو سوشل میڈیا کے موثر اور مثبت استعمال کے حوالے سے وسیع پیمانے پر آگاہی مہم دی جائے۔ریاستی ادارے صرف توہین آمیز یا نفرت انگیز پوسٹس بلاک کرنے یا صارفین کو سزا دینے تک محدود نہ رہیں، بلکہ اس مسئلے کا دیرپا حل عوامی تربیت میں ہے۔ میڈیا، اسکولوں، جامعات اور دینی اداروں کو اس مہم میں شامل کیا جائے تاکہ نوجوان نسل کو اخلاق، تحقیق اور برداشت کے اصول سکھائے جا سکیں۔اس ذمہ داری میں والدین کا کردار بھی اہم ہے۔ بچوں کو موبائل اور انٹرنیٹ کی آزادی دینے کے ساتھ ساتھ یہ سکھانا بھی ضروری ہے کہ وہ کن حدود میں رہ کر سوشل میڈیا استعمال کریں۔ انہیں سمجھایا جائے کہ فحش مواد، نفرت انگیز تحریریں اور جھوٹے پروپیگنڈے نہ صرف ان کی اخلاقی تربیت کو تباہ کرتے ہیں بلکہ مستقبل میں ان کے سماجی تعلقات اور کردار پر بھی منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ دوسری طرف مذہبی شخصیات کو بھی چاہیے کہ وہ نفرت، تعصب اور تفرقہ کی بجائے محبت، اتحاد اور احترامِ انسانیت کا پیغام عام کریں۔ مقدسات کی توہین یا مذہبی اختلافات کو اشتعال انگیز انداز میں پیش کرنا سوشل میڈیا پر ایک خطرناک رجحان بن چکا ہے، جس کے نتائج قومی یکجہتی کے لیے تباہ کن ہو سکتے ہیں۔یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ سوشل میڈیا صرف ایک ٹیکنالوجی نہیں، بلکہ یہ ہمارے معاشرتی ڈھانچے کا ایک اٹوٹ جزو بن چکا ہے۔ اسے نظر انداز کرنا یا محض تنقید کرنا مسئلے کا حل نہیں۔ سوشل میڈیا کو مثبت اور تعمیری مقاصد کے لیے استعمال کر کے ہی ہم اس ٹیکنالوجی کو اپنے فائدے میں لا سکتے ہیں۔آخر میں ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم ایک مہذب قوم بننا چاہتے ہیں یا صرف جذباتی ردعمل دینے والا ہجوم۔ کیا ہم ایسی قوم کی تعمیر چاہتے ہیں جو باہمی عزت، شائستگی، تحقیق اور فہم و فراست کی بنیاد پر آگے بڑھے؟ اگر ہاں، تو ہمیں اس سفر کا آغاز سوشل میڈیا کے باوقار اور ذمے دارانہ استعمال سے کرنا ہوگا اور اس راستے کا پہلا قدم اسوہ رسول ۖ کی پیروی ہے۔

