کالم

عبدالوحید رانا کے قلم کا شاندار اعتراف

کچھ کتابیں محض مطالعہ نہیں کرتیں بلکہ قاری کے باطن میں اتر کر ایک خاموش مگر دیرپا مکالمہ شروع کر دیتی ہیں۔ وہ لفظوں کے ذریعے نہیں بلکہ احساس، یاد اور تجربے کے وسیلے سے بات کرتی ہیں۔ ڈاکٹر عبدالوحید رانا کی کتاب ایک شہر کی کتھا بھی ایسی ہی تحریر ہے جو یادداشتوں کے پردے میں ایک عہد، ایک شہر اور ایک فکری سفر کو ایک لڑی میں پرو دیتی ہے۔ یہ کسی ایک فرد کی داستان نہیں بلکہ اجتماعی شعور، تہذیبی تسلسل اور بدلتے ہوئے سماجی رویوں کی کتھا ہے، جہاں ذاتی تجربہ تاریخ کے ساتھ ہم قدم دکھائی دیتا ہے۔ اگرچہ ڈاکٹر عبدالوحید رانا پروفیسر ہیں اور علمی دنیا میں اعلی مقام رکھتے ہیں، لیکن وہ اپنی توصیف اور القابات سے مکمل طور پر بے نیاز ہیں۔ ان کا انداز سادہ اور عاجزانہ ہے اور وہ ہمیشہ اپنی شخصیت کی گمنامی اور فکری سکون کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کی نثر میں بھی یہی کیفیت جھلکتی ہے، جس میں فکری گہرائی اور انسانی جذبہ خاموش مگر اثر انگیز انداز میں قاری کے دل کو چھو لیتا ہے۔ دو روز قبل ان کی کتاب کی پذیرائی میں ادب دوست کے زیر اہتمام اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد میں ایک باوقار اور فکری لحاظ سے بھرپور ادبی نشست منعقد ہوئی۔ یہ تقریب دراصل ایک زبردستی کا معاملہ تھی، جس کی شروعات معروف شاعر و ادیب، حلقہ اربابِ ذوق اسلام آباد کے سابقہ سیکرٹری اور ادب دوست کے بانی اراکین میں شامل ڈاکٹر خلیق الرحمن کی طرف سے کی گئی۔ اگرچہ وہ خود ناگزیر وجوہات کی بنا پر بیرونِ ملک سفر اور مصروفیت کے باعث اس نشست میں شریک نہ ہو سکے مگر ادب دوست کے اراکین نے ان کی اس زبردستی خواہش کو سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ عملی صورت دے کر ایک بامعنی اور یادگار تقریب کی شکل دی اور شرکائے محفل نے اس کا بھرپور حصہ بنایا۔ تقریب کی صدارت معروف شاعر اور دانشور افتخار عارف نے کی اور صدارتی کلمات میں انہوں نے عبدالوحید رانا کو عہدِ حاضر کی ادبی روایت کا معتبر حوالہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے ہاں داستان کی روایت انسانی سچائی اور تجربے کے ساتھ آج بھی زندہ ہے اور یہی وصف ان کی نثر کو محض یادداشت نہیں بلکہ فکری دستاویز بنا دیتا ہے۔ مہمانِ خصوصی حفیظ خان نے رانا صاحب کی نثر کو تہذیبی شعور اور فکری گہرائی کا حسین امتزاج قرار دیا اور کہا کہ ان کی تحریر قاری کو محض ماضی کی سیر نہیں کراتی بلکہ حال اور مستقبل کے سوالوں سے بھی جوڑتی ہے۔ دیگر مقررین میں شعیب خالق، عرفان احمد عرفی، ارشد چہال، پروفیسر تحریم ظفر، سید محمد علی، ڈاکٹر حمیرا اشفاق، ڈاکٹر صنوبر الطاف اور رضوان مجید شامل تھے۔ ان سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ عبدالوحید رانا نے اپنی تحریروں میں اسلام آباد کی تاریخ، سماجی تشکیل، تہذیبی تغیر اور ذاتی و اجتماعی یادداشتوں کو فکری دیانت اور تخلیقی وقار کے ساتھ پیش کیا ہے اور ایک شہر کی کتھا اردو نثر میں یادداشت نگاری کی ایک اہم اور معتبر مثال ہے۔ اس سے پہلے ان کا افسانوں اور تحقیق پر کافی کام موجود ہے۔میں نے ایک شہر کی کتھا کا بغور مطالعہ کیا ہے اور یہ بات پورے یقین سے کہی جا سکتی ہے۔عبدالوحید رانا ہمارے عہد کے ان نادر ادبا میں شمار ہوتے ہیں جن کی نثر محض بیان نہیں بلکہ فکری تجربہ بن جاتی ہے۔ ان کی تحریروں میں پاکستان کی سماجی، ثقافتی اور فکری تاریخ کے روشن اور دھندلے رنگ ایک ساتھ جھلملاتے ہیں۔ وہ یادوں کو محض محفوظ نہیں کرتے بلکہ انہیں تہذیبی شعور کے آئینے میں پرکھتے ہیں۔ ان کا اسلوب شائستگی، نفاست اور فکری وقار کا ایسا امتزاج ہے جو بظاہر پرسکون، کم گو اور غیر نمایاں رہتے ہوئے بھی قاری کے دل کو آہستہ آہستہ اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ یہ کتاب یادداشت نگاری کی روایت کو محض ذاتی دائرے تک محدود نہیں رکھتی بلکہ اسے فکری اور سماجی وسعت عطا کرتی ہے۔ اس میں واقعات زمانی ترتیب میں ضرور ہیں مگر ان کی پیش کش شعور کے بہا کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ مصنف لمحوں، مقامات اور انسانوں کو اس طرح جوڑتا ہے کہ متن ایک مسلسل داخلی سفر کی صورت اختیار کر لیتا ہے، جہاں قاری محض ناظر نہیں رہتا بلکہ شریکِ تجربہ بن جاتا ہے۔ اس کتاب کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہاں شہر محض جغرافیہ نہیں بلکہ ایک فکری اور تہذیبی علامت بن کر سامنے آتا ہے۔ اسلام آباد طاقت کے مراکز، سرکاری فضا، خاموش گلیوں، ادھورے خوابوں اور بدلتے انسانی رویوں کے ساتھ ایک زندہ وجود اختیار کر لیتا ہے۔ عبدالوحید رانا شہر کو دیکھتے نہیں بلکہ پڑھتے ہیں اور قاری کو بھی یہی ہنر سکھاتے ہیں کہ شہر اینٹ، سڑک اور عمارت کا نام نہیں بلکہ انسانی رویوں، خاموشیوں اور فیصلوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ رانا صاحب کا لہجہ بظاہر غیر محسوس، سادہ اور ضبط شدہ ہے مگر یہی سادگی ایک گہری اور تہہ دار جذباتی کیفیت کو جنم دیتی ہے۔ یہ ایسا جذبہ ہے جو ظاہری طور پر نمایاں نہیں ہوتا مگر آہستہ آہستہ قاری کے دل کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ وہ جذبات کو بلند آہنگی کے ساتھ پیش کرنے کے بجائے تحریر کی تہوں میں جذب کر دیتے ہیں، جس سے ایک ایسا اثر پیدا ہوتا ہے جو شور نہیں مچاتا مگر دیر تک ساتھ رہتا ہے۔ یہ کتاب کسی حتمی نتیجے یا فیصلہ کن بیانیے پر اصرار نہیں کرتی۔ مصنف سوالات چھوڑتا ہے اور یہی سوالات اس کی اصل قوت ہیں۔ یہ سوالات شہر کے بارے میں بھی ہیں، معاشرے کے بارے میں بھی اور خود قاری کی ذات کے بارے میں بھی۔ اسی لیے ایک شہر کی کتھا محض پڑھی نہیں جاتی بلکہ پڑھے جانے کے بعد بھی ذہن میں گردش کرتی رہتی ہے۔ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ رانا صاحب ترقی، طاقت اور خاموشی کے باہمی تضادات کو نہایت دھیمے مگر واضح انداز میں سامنے لاتے ہیں۔ وہ خطیبانہ جملوں یا بلند آہنگ اسلوب کے محتاج نہیں بلکہ ان کا متوازن، شفاف اور فکری لہجہ خود بخود ان تضادات کو بے نقاب کر دیتا ہے۔ یہی وصف اس کتاب کو وقتی تاثر کی بجائے دیرپا معنویت عطا کرتا ہے۔ایک شہر کی کتھا ہمیں یہ احساس بھی دلاتی ہے کہ یادداشت محض ماضی کی بازیافت نہیں بلکہ حال کو سمجھنے اور مستقبل پر غور کرنے کا ایک موثر ذریعہ بھی ہو سکتی ہے۔ اگر یادوں کو فکری دیانت اور تہذیبی شعور کے ساتھ برتا جائے تو وہ فرد کے تجربے سے نکل کر اجتماعی دستاویز کی صورت اختیار کر لیتی ہیں اور عبدالوحید رانا کی یہ کتاب اسی سطح پر کھڑی نظر آتی ہے۔اس ادبی نشست میں جڑواں شہروں کی ممتاز علمی و ادبی شخصیات، صحافی، اساتذہ، طلبا و طالبات اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے سنجیدہ قارئین کی بڑی تعداد شریک تھی۔ شرکائے محفل کی موجودگی اور گفتگو سے یہ بات واضح ہو گئی کہ سنجیدہ ادب آج بھی زندہ ہے، پڑھا جا رہا ہے اور اس پر بامعنی مکالمہ ممکن ہے۔ بلاشبہ ایک شہر کی کتھا اردو نثر میں ایک ایسی کتاب کے طور پر سامنے آئی ہے جو اپنے عہد کی فکری اور تہذیبی گواہی بھی دیتی ہے اور آئندہ وقتوں میں بھی سنجیدہ مطالعے اور مکالمے کا معتبر حوالہ بنی رہے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے