دنیا میں کسی بھی ڈرنکنگ واٹر ریزروائر پر ریسٹورنٹ یا پبلک انجوئے منٹ کا کوئی پراجیکٹ نہیں لگایا جا سکتا۔ لیکن لیک ویو ایسا پراجیکٹ ہے جس میں روزانہ لاکھوں افراد وزٹ کرتے ہیں . زیادہ تر کھانے پینے یا ریسٹورنٹ کے سٹال ہیں۔ اس کے علاوہ دفعہ 144 کے باوجود کشتی رانی کی اجازت ہے۔ لاکھوں افراد اور درجنوں ریسٹورنٹس کا فضلہ راول لیک میں جاتا ہے۔ راول ڈیم کا انکیچمنٹ ایریا مری کے پہاڑوں سے شروع ہوتا ہے اور بارش کے علاوہ چھتر – بھارہ کہو ۔ بری امام ۔ ڈپلومیٹک ایریا ۔ صدر اور وزیر اعظم ہاؤس سمیت قرب وجوار کی تمام آبادی کا سیوریج راول ڈیم میں جاتا ہے۔ راول ڈیم دراصل پنجاب حکومت کی ملکیت ہے جس کا ثبوت ہے کہ ڈیم ایریا میں پنجاب ایریگیشن ڈیپارٹمنٹ کی کالونی تعمیر کی جا رہی ہے ۔ تمام دکانیں اور چک شہزاد روڈ پر جتنی بھی نرسریاں ہیں وہ پنجاب گورٹمنٹ نے کرائے پر دے رکھی ہیں ۔ تمام تر راول ڈیم کا پانی بغیر فلٹریشن اور بغیر کلورینیشن راولپنڈی شہر کو سپلائی کیا جاتا ہے ۔ بلکہ آجکل ایک تیس انچ کی واٹر سپلائی نئی پائپ لائن راول ڈیم سے راولپنڈی بچھائی جا رہی ہے ۔ راول ڈیم کی پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائس تیس فی صد رہ گئی ہے ۔ گندگی اور مٹی سے لیک بھر چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معمولی بارش کے بعد راول ڈیم کے گیٹ کھولنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جب راول ڈیم بنایا گیا تھا تو اس وقت ٹھیکیدار نے گدھوں کے ذریعے مٹی نکالی تھی ۔ اب مٹی بھرنے کے بعد سردی کے ایام میں جب ڈیم تقریباً خالی ہو جاتا ہے مشنری لگا کر مٹی کیوں نہیں نکالی جا سکتی ؟
پنجاب کے محکمہ فشریز نے ڈیم سے مچھلی پکڑنے کا ٹھیکہ دے رکھا ہے۔لیکن اسلام آباد کے مقامی افراد ضلعی انتظامیہ کے افسران سے مل کر پانی میں کرنٹ چھوڑ کر مچھلی پکڑتے ہیں جس سے جھیل میں وسیع پیمانے پر مچھلیاں مر کر پانی کے اوپر آجاتی ہیں اور انہیں جال لگا کر پکڑ لیا جاتا ہے۔ جو مری ہوئی مچھلیاں پانی میں رہ جاتی ہیں ان سے تعفن اور بیماریاں پھیلتی ہیں ۔
راول ٹاؤن کے پاس پنجاب واسا کا فلٹریشن پلانٹ لگا ہوا ہے جو آج کل بند پڑا ہے ۔ سی ڈی اے کی زمین انہوں نے کرایے پر دے کر ریسٹورنٹ بنا رکھے ہیں جو کہ اختیارات کا تجاوز ہے ۔ آج کل سی ڈی اے نے کروڑوں روپے خرچ کر کے راول ڈیم اور اس کے گرد و نواع میں صفائی کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ حالانکہ راول ڈیم کی صفائی سی ڈی اے کی ذمہ داری نہیں ۔ یہی رقم سی ڈی اے پنجاب کے لئے خرچ کرنے کی بجائے اسلام آباد کی مارکیٹوں کی ترقی کے لئے خرچ کرے تا کہ مارکیٹیں کھنڈرات نہ بنیں ۔ سی ڈی اے اور ضلعی انتظامیہ غیر قانونی طور پر مچھلی پکڑنے والے اہلکاروں اور ضلعی مجسٹریٹ کی سرکوبی کرے اور ایکشن لے۔ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار چوہدری نے راول ڈیم میں سیوریج کے شامل ہونے کے بارے میں فیصلہ دے رکھا ہے کہ تمام ایسی جگہوں پر جہاں سے گندگی راول ڈیم میں شامل ہو رہی ہو وہاں سیوریج ٹرئٹمنٹ پلانٹ لگاے جائیں لیکن آج تک اس فیصلہ پر عملدرامد نہ ہو سکا ہے عوام کو صاف پانی کی سپلائی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پنجاب حکومت اور سی ڈی اے مل کر حل نکالے۔

