کالم

اقبال اورصوفیانہ شاعری

اقبال اول وآخر ایک صوفی تھے ۔ صوفی کی سب سے بڑی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ کو اپنی ترجیح اول سمجھتا ہے۔اقبال کے کلام میں فقر کا موضوع دیکھ لیجئے،ایک طرف وہ خود صاحب فقر نظر آتے ہیں تو دوسری طرف وہ تمام صوفیا و اولیائے کرام سے محبت و عقیدت کا تعلق رکھتے ہیں۔ اقبال اپنے ایک مضمون مشمولہ اقبال کے نثری افکارمیں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کےلئے سید السادات،ابو محمد حضرت غوث الثقلین کے القاب استعمال کرتے ہیں،جس سے حضرت غوث اعظم کے مقام سے ان کی نگاہ کی آشنائی اور حضرت علامہ کی ان سے قلبی و روحانی وابستگی کا اظہار ہوتا ہے ۔ آپ کبھی دہلی پہنچتے ہی محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیا کے دربار پر حاضری دیتے ہیں اور کبھی سارا دن ا ن کے مزار پر گزاردیتے ہیں ۔ لاہور میں داتا صاحب پر علی الصبح خاص ہونا ان کا معمول تھا۔ایک صوفی بزرگ حضرت شیر محمد شرقپوری سے ملاقات کے تشریف لے جاتے ہیں جن کی دعااور پیشن گوئی کے یہ الفاظ بہت معروف ہیں کہجو آج اقبال پر طنز کے تیر برساتے ہیں کل ان کی تقاریر اور خطابات، اقبال کے اشعار کے بغیر نامکمل ہوں گےاسی طرح زندہ رود،روزگار فقیر اور دیگر کئی کتب میں ان کی صوفیا،اولیا اور بزرگان دین سے وابستگی کے کئی واقعات موجود ہیں۔ان کے خطوط میں بھی بارہا، اس وابستگی کا ذکر آیا ہے۔اقبال رحم اللہ علیہ سید سلیمان ندوی کو اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ میں خود سلسلہ قادریہ میں بیعت ہوں تو میں اسلامی تصوف کا انکاری کیسے ہو سکتا ہوں اقبال کے والد بھی صوفی تھے اور قادریہ سلسلہ سے بیعت تھے۔اقبال کا شیخ عبدالقادر جیلانی ، حضرت داتا گنج بخش، مولانا روم ،ابن عربی اور دوسرے صوفیا سے روحانی و باطنی تعلق اور انکے کلام سے فیض اٹھانا،ان کے صوفی ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے ۔ لیکن اقبال کو بعض افراد نے تصوف کا مخالف ثابت کیا ہے ۔اس سلسلے میں بعض خطبات اور حافظ شیرازی کے خلاف اشعار کے علاوہ سب سے زیادہ مغالطہ اقبال نامہ میں شامل سید سلیمان ندوی کے نام خط کے اس جملے سے ہوا ہے کہ اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ تصوف کا وجود ہی سر زمین اسلام میں ایک اجنبی پودا ہے۔جس نے عجمیوں کی دماغی آب وہوا میں پرورش پائی ہے۔ خط کی عبارت کو کاتب نے سہوا تصوف کا وجود ہی بنا دیا ہے اور اس نے کا لفظ اپنی طرف سے لگا کر ہی کا اضافہ بھی کر دیاہے۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ اقبال جہاں بھی اختلاف کرتے ہیں وہ،وجودی تصوف سے اختلاف کرتے ہیں جسے وہ تصوف فی الذہد سمجھتے ہیں ۔ وہ مسئلہ وجود کو زیادہ تر بدھ مذہب کے اثرات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں ۔ چنانچہ اقبال غلو فی الذہد کے قائل نہیں تھے ۔ یعنی اتنا غلو کرنا کہ جو ہندو جوگیوں کی طرح کامل غلو اختیار کر جائے اور جو اپنی دینی معاشرتی عائلی تمام ذمہ داریوں سے اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھنے لگیں اورعضو معطل بن کر رہ جائیں یا رہبانیت اختیار کر لیں ۔ ہمارے ہاں تصوف کے نام پر جو فلسفے در آئے،اقبال ان کے خلاف تھے مثلا قدم ارواح کا یعنی کاملین کی ارواح کا قدیم ہونا کہ وہ اللہ کی طرح قدیم ہیں،حادث نہ ہونا،غیر مخلوق ہونا۔اقبالان کے قائل نہ تھے اور ان کا رد کرتے تھے۔ اسی طرح تنزلات خمسہ اور تنزلات ستہ کی بحث کے مخالف تھے ، جو فلسفیانہ مباحث پر مبنی ہے۔وہ سمجھتے تھے یہ اصل اسلامی تصوف نہیں ہے اور اسی بنیاد پر وحدت الوجود کے بھی خلاف تھے۔وہ اسے تصوف وجودی کا نام دیتے تھے کیونکہ صوفی جب فلسفے کے مباحث کرنے لگے تو انہوں نے نظریہ وحدت الوجود پر بحث کو اہم جانا ، اس لیے اقبال تصوف وجودی کو فلسفیانہ نظریے کے طور پر لیتے تھے،اور اسے اسلامی تصوف کا حصہ نہیں سمجھتے تھے۔اقبال کے تصوف کے متعلق ان خیالات کی وجہ سے ایک غلط فہمی یہ پیدا ہوگئی کہ لوگ انہیں تصوف کیخلاف سمجھنے لگے تو انہوں نے اپنے دفاع میں اسرار خودی اور تصوف کے نام سے ایک مضمون لکھا جو اخبار وکیل امرتسر میں، جنوری کو چھپا۔اس مضمون میں انہوں نے غیراسلامی تصوف کے وہ تین نکات بیان کئے جن کی بنیاد پر وہ اس کے خلاف تھے اور بتایا کہ وہ اسلامی تصوف کےخلاف نہیں ہیں بلکہ تصوف فی الذہد کے خلاف ہیں۔ اسی طرح وہ اس شاعری کے بھی خلاف ہیں، جو زوال بغداد کے بعد ایران میں شروع ہوئی۔جس کی ابتدا خاقانی سے ہوتی ہے اور انتہا حافظ شیرازی پر ہوتی ہے۔وہ اس شاعری کو انفعالیت ، پژمردگی اور دنیا سے بیزاری پیدا کرنےوالی شاعری قرار دیتے ہیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علامہ تصوف کے انکاری نہ تھے۔نہ ہی وہ تصوف کے وجود کو عجمی پودا سمجھتے تھے بلکہ اسلامی تصوف کو ہی اصل تصوف سمجھتے اورکہتے تھے ۔ تصوف میں رنگ آمیزی تب ہوئی جب یہ دوسرے ملکوں میں پہنچا۔اقبال اسلامی تصوف کو فعال،متحرک اور مضبوط روحانی قوت کے طور پر دیکھتے ہیں۔وہ اسے صوفیا کی صحبتوں میں روحانی تجدید کے روپ میں دیکھتے ہیں اور تصوف کو ایک زندہ اور متحرک قوت کے طور محسوس کرتے ہیں ۔ اقبال اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ حضرت محی الدین شیخ عبدالقادر کا مقصود اسلامی تصوف کو عجمیت سے پاک رکھنا تھااسی عجمیت سے پاک رہنے کےلئے وہ اپنا زیادہ تر وقت قران کریم کی تلاوت میں گزارتے تھے اور مثنوی مولانا روم پڑھتے تھے۔اقبال کے نزدیک اسلامی تصوف کو عجمیت کا لبادہ پہنانے میں ان مغربی مستشرقین کا بہت بڑا ہاتھ ہے جو پچھلے دو تین سو سال سے تصوف کو اپنا محبوب موضوع بنائے ہوئے ہیں۔مغربی مستشرقین نے تصوف کی ابتدا اور اس کی اصل سمجھنے کے بجائے اسے ایران سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے وہ تصوف کو اسلام کی سرزمین پر ایک اجنبی پودا تصور کرنے لگے تھے۔ اقبال چونکہ ایران میں مابعد اطبیعات پر مقالہ لکھ چکے تھے اور ایران میں تصوف کی روایت سے پوری طرح آگاہ تھے اس لیے انہوں نے اسے عجمی اور وجودی تصوف قرار دیا جس پر ہندو فلسفہ،بدھ مت کا فلسفہ،اور مسیحی و یونانی فلسفہ کے اثرات پڑے تھے ۔ اس طرح ان خارجی عناصر کے ذریعے تصوف کے اصل تصور میں رنگ آمیزی ہوتی رہی اور اس کا سب سے بڑا سبب مستشرقین کی غلط تحقیق اور غلط رائے تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے