پوچھاکمزور کون ہوتا ؟ بابا کرمو نے جواب دیاکہ کمزور وہ ہوتا ہے جس کے جسم میں طاقت نہ ہو ،کھانے کو روٹی ،پہنے کو کپڑا نہ ہو اور رہنے کیلئے گھر نہ ہو۔پاﺅں سے برہنہ ہو ۔ پھر پوچھا کہ طاقت ور کون ہوتا ہے؟کہا وہ ہوتا ہے جس کو کھانے پینے رہنے کی فکر نہ ہو۔ وہ گھرسےگاڑیوں کے قافلے میں نکلتا ہو ۔ہر کوئی اس کا حکم مانتا ہو ۔ وہ خود قانون سے ماورا ہو۔ نظام اس کی مرضی سے چلتا ہو۔ انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتا ہو ۔اپنے سے بڑے سے ٹکر نہ لیتا ہو اور اپنے سے کم کو سبق سکھانے میں دیر نہیں کرتا ہو۔ عہدہ لینے کیلئے تلوے چاٹتا ہو۔عزت بے توقیری کی پرواہ نہ کرتا ہو ۔کہا ایسی ہی خوبیوں کے مالک لوگ ہر جگہ چھائے ہوئے ہیں مگر شاعر ان جیسوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ۔گمنام شاعر کے منظوم خیالات پیش خدمت ہیں۔
جس کے پلو سے چمکتے ہوں شہنشاہ کے بوٹ
ایسی دربار سے بخشی ہوئی دستار پہ تھو
جو فقط اپنے ہی لوگوں کا گلا کاٹتی ہو
ایسی تلوار مع صاحبِ تلوار پہ تھو
شہرآشوب زدہ، اس پہ قصیدہ گوئی
گنبدِ دہر کے اس پالتو فنکار پہ تھو
سب کے بچوں کو جہاں سے نہ میسر ہو خوشی
ایسے اشیائے جہاں سے بھرے بازار پہ تھو
روزِ اول سے جو غیروں کا وفادار رہا
شہرِ بد بخت کے اس دوغلے کردار پہ تھو
زور کے سامنے کمزور، تو کمزور پہ زور
عادلِ شہر! تِرے عدل کے معیار پہ تھو
کاٹ کے رکھ دیا دنیا سے تِری راغب نے
اے عدو ساز! تِری دانشِ بیمار پہ تھو
مگر کیا جائے ہمارے تھوکنے کا اثر ان پہ ہوتا ہی نہیں ۔لگتا ہے تھوکنے سے مزید گند پڑے گا ۔بابا جی چین نے بہت ترقی کی ہے کہا کہ ہم نے بھی کم ترقی نہیں کی ہے ۔ہم بھی چین سے کچھ کم نہیں ۔چین ڈسپوز ایبل چیزیں بنانے میں مشہور ہے اور ہم تو انسانوں کی ڈسپوز ایبل سیاسی جماعت بناتے ہیں ۔کہا اخری وقت تک کسی کو نہی معلوم تھا کہ یہ ڈسپوزایبل جماعت کب ڈسٹ پن کا حصہ بنے گی۔موم بتی بجھنے سے پہلے خوب روشن ہوتی ہے ایسے ہی اخری وقت میں چمک دھمک اس جماعت کی بھی تھی۔اس جماعت کا ہر کوئی ٹکٹ لینے کےلئے قطار میں کھڑا ساتھ ساتھ گا بھی رہا تھا ٹکٹ کٹا لین بنا ۔پھر اپنے ہی ایک ایکشن سے اس جماعت کا شیرازہ بکھرگیا ۔اسی سے پھر ایک اور ڈسپوزایبل جماعت وجود میں آئی ۔جو جان نچاور اپنے لیڈر اور پارٹی پر کیاکرتے تھے انہوں نے جماعت چھوڑنے کی عدت بھی پوری نہ کی چٹ منگنی پٹ ویاں کی مثال پر عمل کیا۔ لیکن ایسا کرنے پر کسی کو کوئی حیرانگی نہیں ہو۔اس جماعت میں بھی ایسے ہی یہ لوگ شامل ہوئے تھے۔کل تک ادھر تھے تو دہشت گرداور دوسری طرف گئے تو محب الوطن ۔کیا کمال ہے !!کیا تھا شامل ہونے سے قبل اپنے اپنے حلقوں میں ہی یہ چلے جاتے ان سے مشورہ کرلیتے پھر کسی جماعت میں ضم ہوتے تو بات سمجھ میں اتی ۔یہ سب اس لئے ہوا کہ انہیں معلوم ہے کہ ہم الیکشن سے نہیں سلیکشن سے اتے ہیں ۔انہیں فرشتے لاتے ہیں وہی لے جاتے ہیں ۔یعنی یہ ریموٹ پر چلنے والے لیڈر ہیں ۔یاد رہے ہم اس ملک کے شہری ہیں جہاں دعاوں سے میچ جیتے جاتے ہیں۔ کرامات سے معاشی ترقی ہوتی ہے؟ تعویز گنڈوں سے دل کی مرادیں پوری ہوتی ہیں۔ پیری فقیری سے عہدے ملتے ہو ۔ جہاں جنگیں فرشتے لڑتے ہوں ، جہاں سجدوں میں بھی برا سوچا جاتا ہو۔جہاں دشمن کو مارنے کےلئے چلے کاٹے جاتے ہو۔ خود زندہ رہنے کےلئے کالے بکروں کو قربان کرتے ہوں۔ جہاں ہر چیز دو نمبر فروخت ہوتی ہو ۔جہاں جج فیصلے قانون کے بجائے اپنے ضمیر کی بنیاد پر کرتے ہوں۔جہاں کمزور عقیدے کے لوگ بستے ہوں ۔ ایک غریب مسافر پیدل چل رہا تھا اس کا ایک جوتا پھٹ گیا ۔اسنے اتار کر ایک درخت کی جانب پھینک دیا جہاں وہ درخت کی شاخ پر لٹک گیا۔ کافی عرصے بعدجب اس کا گزر یہاں سے ہوا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس درخت پر بے شمار جوتے لٹک رہے تھے ۔پوچھا تو اسے بتایا گیا کہ جو اپنا جوتا یہاں لٹکا جاتا ہے اس کا سفر اچھا گزرتا ہے۔ بابا کرمو نے کہا جو کردار کا برا ہو جھوٹا ہو فراڈیا ہو چیٹر ہو وہ لیڈر بن جاتا ہے۔ اس سال ہمارا آئین پچاس سال کا ہو چکا ہے مگر اس پر عمل نہ ادارے کر رہے ہیں اور نہ عوام ۔جہاں قانون اور آئین پر عمل نہ ہو ایسے میں الیکشن پر اربوں لگانے کی ضرورت ہے۔ویسے بھی اب یقین ہو چکا ہے یہاں سلیکشن ہوتی ہے۔ الیکشن نہیں ۔ان حالات میں جو سلیکشن کا سسٹم پہلے سے موجود ہے اسے ہی اوپن کر دیا جائے ۔ لاگو کر دیا جائے ۔کیوں نہ ایک ہی ادارہ سب کام کرلے۔ اللہ اللہ خیر صلہ پھر قرضہ لینے کی ضرورت نہ دینے کی !!کہا سرکار سے امیدیں لگانی بند کریں ۔خود بھی اچھے انسان بنے کی کوشش کریں ۔کام جہنمی والے کرتے ہیں اور جنت میں جانے کی خواہش بھی رکھتے ہیں ۔بہتر نہیں کہ ملاوٹ کرنا ۔جھوٹ بولنابند کردیں۔ کسی کو ملک سے باہر جانے نہ دیا جائے آنےوالوں کو ویلکم کیا جائے جو ملک میں نہیں رہتے ان کی پنشن بند کر دیں ۔ایسا کرنے سے شایدبہتری ا جائے مگر کیسے ؟ یہاں ہر کرسی پر تو” چھوٹا آدمی” برا جمان ہے ۔ کہا بابا کرمو کو شعرہو جائے ۔
کالم
انجام گلستاں کیا ہو گا
- by Daily Pakistan
- جون 21, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 1036 Views
- 2 سال ago