کالم

بدلتا ہے رنگ آسماں کےسے کےسے

تارےخ حالات کا نوحہ ،کچھ نہ چھپانے والی اےک حقےقت کا نام ہے ۔تارےخ کے اوراق شاہد ہےں کہ جہاں کئی بار چشم فلک نے بڑے بڑے متکبر ،جلاد اور ظالم شہنشاہوں کا اپنے زمانہ اقتدار مےں بے گناہ عوام پر ظلم ،قہر اور ناانصافی کا منظر دےکھا ہے ،وہاں ان خدائے زمانہ ظالموں کو برے حالات مےں جھکڑے پا بجولاں بے بسی و لاچارگی کی تصوےر بنے بھی دےکھا ۔دنےائے عالم مےں سفاکےت ،ظلم و بربرےت کی وجہ سے شہرت پانے والے حکمرانوں مےں ہلاکو خان کا نام سر فہرست ہے ۔فروری 1258ءمنگول آندھی کو بغداد کا محاصرہ کےے تقرےباً تےرہ دن گزر چکے تھے ۔بظاہر بہت مضبوط دکھائی دےنے والی عباسی خلےفہ مستعصم باﷲ کی فوج مٹی کا ڈھےر دکھائی دے رہی تھی ۔بغداد کے محصورےن کی ہر ممکن کوشش ےہ تھی کہ کسی طرح حملہ آوروں سے صلح ہو جائے لےکن بات نہ بن سکی ۔10فروری 1258ءکو مزاحمت دم توڑ گئی اور منگول افواج شہر کے اندر داخل ہو گئےں ۔منگولوں نے بغداد کے ساتھ وہی کچھ کےا جو ان کے اسلاف مختلف شہروں کے ساتھ کرتے آئے تھے ۔خود خلےفہ کو بھی قےدی بنا لےا گےا تھا جس کی حالت ےہ تھی کہ اسے کئی روز تک کچھ کھانے کو نہ دےا گےا ۔چند روز کے بعد جب خلےفہ مستعصم باﷲ کو پا بجولاں ہلاکو خان کے سامنے پےش کےا گےا ۔دربار وہی تھا ،جہاں چند روز پہلے تک خلےفہ مستعصم باﷲ اپنے شاندار تحت پر بےٹھ کر حکومت کےا کرتا تھا لےکن اب وقت بدل چکا تھا ۔تحت پر ہلاکو خان براجمان تھا اور خلےفہ اس کے سامنے قےدی کی حےثےت سے کھڑا تھا ۔خلےفہ کو اب بھی ےہ توقع تھی کہ ہلاکو خان اس کی جان بخشی کر دے گا لےکن اس نے کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا ۔ہلاکو خان نے ہےرے اور جواہرات سے بھرا ہوا اےک تھال منگواےا ۔خلےفہ کی بھوک پوری طرح سے چمک رہی تھی جس نے پوری بےتابی سے رومال اٹھاےا تو تھال مےں ہےرے جواہرات پڑے ہوئے تھے ۔ہلاکو نے خلےفہ کو حکم دےا کہ سونے جواہرات کے اس ڈھےر کو کھاﺅ ۔خلےفہ نے کہا کہ وہ انہےں کےسے کھا سکتا ہے ؟ہلاکو خان نے کہا کہ بےوقوف انسان جب تم انہےں کھا نہےں سکتے تھے تو پھر انہےں جمع کےوں کےا تھا؟اگر تم نے اپنی ےہ دولت اپنی فوج پر لگائی ہوتی تو آج تمہےں ےہ دن نہ دےکھنا پڑتا ۔ہلاکو خان کو ےہ معلوم تھا کہ خلےفہ کے بارے مےں ےہ مشہور ہے کہ جو بھی زمےن پر اس کا خون بہائے گا ،اس پر عذاب الہٰی نازل ہو گا ۔رواےات مےں ملتا ہے کہ ہلاکو خان نے اسی خےال کے پےش نظر خلےفہ کو نمدوں (قالےن)مےں لپےٹ کر اس پر گھوڑے دوڑائے گئے اور ےوں زمےن پر اس کے خون کااےک قطرہ بھی بہائے بغےر اس کی جان لے لی گئی ۔جب کسی مملکت مےں بھی اےسے تصورات جڑ پکڑ لےتے ہےں اور قومےں ےا لےڈران ضعےف الاعتقادی کا شکار ہو جاتے ہےں تو سب کچھ پٹڑی سے اتر جاتا ہے ۔1258ءمےں ہلاکو خان نے بغداد کو فتح کرنے کے بعد اس شہر بے مثال کو اس طرح سے برباد کےا کہ آج تک ےہ شہر اپنی عظمت رفتہ کو کھوجتا پھر رہا ہے ۔پورے شہر کو راکھ کا ڈھےر بنا دےا گےا ۔لاکھوں افراد کو قتل کر دےا گےا ۔قتل عام اتنے وسےع پےمانے پر ہواکہ کئی روز درےاﺅں مےں خون بہتا رہا ۔نادر و ناےاب کتب خانے جلا دئےے گئے اور ہر وہ ظلم روا رکھا گےا ،جو کےا جا سکتا تھا ۔ہلاکو خان کا انجام بھی بڑا عبرت ناک ہوا ۔وہ اپنے بہترےن گھوڑے پر بڑی شان سے بےٹھا تھا ۔اس کے چاروںا طراف تاتاری فوجی صفےں بنائے کھڑے تھے ۔سب سے آگے ہلاکو کھڑا تھا ،اس کے آگے جنگ مےں قےدی بنائے گئے لوگ تےن صفوں مےں موجود تھے جن کو قتل کرنے کے احکامات وہ جاری کر چکا تھا اور کسی کو قتل کرنے کےلئے اس کی گردن تن سے جدا کرنا اس کا محبوب مشغلہ تھا ۔چنانچہ اس نے حکم دےا کہ جلاد سب سے پہلے پہلی صف کے لوگوں کی گردنےں جدا کرےں ،جلادوں نے حکم کی بجا آوری کی اور قےدےوں کی گردنےں اڑانا شروع کر دےں ۔اس پہلی صف مےں اےک بوڑھا آدمی کھڑا تھا ،آخری گردن اڑائے جانے سے پہلے وہ پچھلی صف مےں چلا گےا ۔ہلاکو خان ہاتھ مےں نےزہ اٹھائے اس سے کھےلتے ہوئے اسے دےکھ رہا تھا ۔جلادوں نے پہلی صف مکمل کرنے کے بعد دوسری صف کے لوگوں کے سر تن سے جدا کرنے شروع کر دےے ،ےہ سب دےکھ کر تارےخ کا ےہ سفاک ترےن حکمران خوش ہو رہا تھا ۔دوسری قطار مےں کھڑے غرےب بوڑھے نے جب موت کو اپنی طرف تےزی سے بڑھتے ہوئے دےکھا تو وہ تےسری صف مےں چلا گےا ۔ظالم ہلاکو کی نظر اس پر مسلسل جمی تھی اور وہ دل مےں سوچ رہا تھا کہ تےسری آخری صف ہے ،اب اس بوڑھے کو موت سے کون بچائے گا ۔پھر تےسری صف پر جلادوں کی تلوارےں بجلی بن کر گر رہی تھےں اور چند لمحوں مےں اس کا بھی صفاےا کر دےا گےا ۔آخر مےں کھڑے اس بوڑھے کو جب جلاد مارنے لگا تو ہلاکو نے اسے کہا ،رک جاﺅ ،اس کو تھوڑی دےر بعد مار دےنا اور خود اس بوڑھے سے مخاطب ہو کر کہنے لگا ،تم موت کے ڈر سے پہلی سے دوسری اور پھر تےسری صف مےں چلے گئے لےکن اب تےسری صف بھی ختم ہو گئی ہے تو تمہےں موت سے کون بچا سکتا ہے ۔اس بوڑھے نے چند لمحے آسمان کی طرف دےکھا اور کہا ،اﷲ اگر مجھے بچانا چاہے تو ،توُمجھے نہےں مار سکتا۔ہلاکو خان نے متکبرانہ انداز مےں نےزے کو ہوا مےں لہراتے ہوئے کہا ،ےہ تمہاری کےسی خام خےالی ہے اور تم کےسی بہکی بہکی باتےں کر رہے ہو ۔آج تک ہلاکو نے جسے مارنا چاہا ،اس کی دی جانے والی موت سے کوئی نہےں بچا ۔پھر تم نے کےسے سوچ لےا کہ تم مےرے حکم سے دی جانے والی موت سے بچ جاﺅ گے ۔اس بوڑھے نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ آسمانوں سمےت کائنات کی ہر چےز کا مالک ہے ،وہ چاہے مےں زندہ رہوں تو مجھے کوئی بھی نہےں مار سکتا ۔وہ چاہے تو ابھی انقلاب لا سکتا ہے اور ہر چےز نےست و نابود ہو سکتی ہے ۔اس بوڑھے سے ےہ الفاظ سن کر سفاک اور ظالم ہلاکو نے انتہائی تکبر سے کہا ،تجھے مجھ سے کوئی نہےں بچا سکتا ۔ےہ کہتے ہوئے وہ اتنے جوش مےں آگےا کہ اس کے ہاتھ سے نےزہ گر گےا ۔تارےخ کے اس بہترےن گھڑ سوار ،چابک دست اور جنگجو ہلاکو نے گھوڑے کے اوپر بےٹھے بےٹھے ہی اس کو پکڑنے کی کوشش کی ۔اس کےلئے اس نے خود کو تےزی سے جھکاےا تا کہ وہ نےزہ کو پکڑ سکے ۔اس کوشش مےں اس تارےخی گھڑ سوار کا پاﺅں رکاب سے نکل گےا اور وہ زمےن پر گر پڑا ۔اےک دم سے اس کا لشکر بھی اس کو گرتے دےکھ کر حرکت مےں آگےا ۔لشکر کے اےک دم حرکت مےں آنے سے اس کا بہترےن گھوڑا اتنا ڈر گےا کہ اپنے آدھے گرے ہوئے سوار سمےت بھاگنا شروع کر دےا۔اس کے لشکر کے حرکت مےں آنے کے بعدگھوڑا مزےد ڈر گےا اور ہلاکو خان کو لےکر پتھرےلے پہاڑوں پر چڑھ دوڑا ۔ہلاکو خان گھسےٹے جانے اور بار بار چٹانوں سے ٹکرانے کے باعث موت کی آغوش مےں چلا گےا ۔لشکر کے لوگوں نے جب اس کا گھوڑا روکا تو لوگوں کی زندگےوں کو موت مےں بدل دےنے والا تارےخ کا ظالم ترےن حکمران مر چکا تھا ۔کچھ دےر پہلے اس بوڑھے کو متکبرانہ جاہ و جلال سے کہنے والا کہ تجھے مجھ سے کوئی نہےں بچا سکتا ،خود کو موت سے بچانے مےں ناکام رہا تھا اور جس بوڑھے کو وہ موت کی وادی مےں بھےجنا چاہتا تھا ،اس کی موت کے بعد اس کی طرف کسی کی توجہ بھی نہےں گئی اور خالق کائنات نے اسے بچا لےا ۔اس وقت ہلاکو خان جےسے امرےکی و اسرائےلی حکمرانوں اور ان کی طاقت سے مرعوب ہونے والے اکثرمسلم حکمران بھی شاےد ےہ حقےقت فراموش کر چکے کہ اصل سپر پاور صرف اور صرف اﷲ رب العزت ہی ہے ،جو جب چاہے فرعون وقت کو موجوں مےں غرق کر دے ،جب حکم دے ابابےل سے ہاتھےوں کو نےست و نابود کروا دے ،چڑےوں سے باز مروا دے ۔ہلاکو خان جےسے طاقتور ترےن جنگجو کو اس کے اپنے ہی گھوڑے سے سر پٹخ پٹخ کر مروا ڈالے ۔اگر کوئی اس گمان مےں ہے کہ شاےد ےہ پرانی باتےں ہےں ،دور جدےدےت مےں شاےد طاقت کا محور اب دنےا کے نا خداﺅں کے پاس آچکا ہے تو ےاد رکھےں کہ اﷲ نے دنےا کے وجود مےں آنے سے لےکر اب تک خدائی کے دعوےدار انسانےت کے روپ مےں چھپے ہر درندے اور ہر اس طاقت کو نشان عبرت بنا دےا ہے جس نے اس زمےن پر اس کی مخلوق کےلئے زندگی عذاب بنائی ۔اسرائےل پر کمزور حماس کا حملہ چڑےوں سے باز مروانے والی حقےقت کی نشاندہی ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے