اقبال محمدن اینگلو اورینٹل کالج علی گڑھ کے اسٹریچی ہال میں (دسمبر 1910ئ) کالج کے طلبہ کو دیئے گئے ایک لیکچر بہ عنوان The Muslim Community, A Sociological Study میں کہتے ہیں کہ؛ ”۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ تاریخ اسلام کا سب سے اہم واقعہ کون سا ہے تو میں فوراً جواب دوں گا کہ ایران کی تسخیر۔ نہاوند کی لڑائی نے عربوں کو صرف ایک خوبصورت خطے ہی کا مالک نہیں بنایا بلکہ اس کے ساتھ ہی ایسے قدیم اور تجربہ کار لوگ بھی میسر آگئے جو سامی اور آریائی مواد کے حسین امتزاج سے ایک نئی تہذیب تشکیل دے سکتے تھے۔ ہماری اسلامی تہذیب سامی اور آریہ تصورات کے اختلاط کی پیداوار ہے۔ اس تہذیب کو نزاکت و نفاست اپنی آریہ ماں سے اور کھرا اور سچا کردار اپنے سامی باپ سے ورثے میں ملا ہے۔ تسخیر ایران نے مسلمانوں کو وہی کچھ دیا جو تسخیر یونان نے رومیوں کو لیکن ایران کے بغیر ہمارا تمدن بالکل یک رُخا ہوتا۔۔۔” سلطنت ایران کے یہی قدیم اور تجربہ کار لوگ جو ممکنہ طور پر بقول اقبال سامی اور آریائی مواد کے حسین امتزاج سے ایک نئی تہذیب تشکیل دے سکتے تھے،فتح ایران کے بعد تین حصوں میں تقسیم نظر آتے ہیں۔خطے کی ایک نہایت ثروت خیز تہذیب کے امین ان لوگوں میں سے کچھ نے عسکری شکست کے بعد جزیہ دینا قبول کر لیا، کچھ نے اسلام قبول کر کے،جس حد تک ممکن ہو سکا،خود کو اسلام اور اسلام کو خود سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش شروع کردی،یہ سعی پیہم ہنوز جاری ہے۔باقی جنہوں نے نہ جزیہ دینا قبول کیا اور نہ ہی تبدیلی مذہب پر آمادہ ہوئے،انہوں نے ہندوستان کی طرف نقل مکانی کو ترجیح دی۔زرتشت کے یہ پیروکار پارسی کہلاتے ہیں۔ہندوستان میں ان آسودہ حال اور نہایت پر اعتماد لوگوں کی بڑی آبادی ممبئی اور کراچی منتقل ہوئی،دیگر شہر بھی ان کی توجہ کے مرکز بنے،لیکن ممبئی اور کراچی جیسی آبادی کہیں اور نہیں تھی۔ پارسی لوگ اپنے جملہ مفاخر سمیت نقل مکانی کر کے ہندوستان کا حصہ بنے۔کمیونٹی کی حفظ و بقا کا احساس ان میں نہایت شدت سے نظر آتا ہے۔پارسیوں کا مذہب اور مطمح نظر سراسر غیر تبلیغی ہے۔ان پرامن لوگوں میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کو پارسی بنانے کا کوئی رجحان بھی نہیں رہا۔ یہ دوسرے مذاہب میں شادی نہیں کرتے۔ یہ نہ خود دوسروں جیسے بنتے ہیں،نہ ہی دوسروں کو اپنے جیسا بنانے کا شوق یا جنون رکھتے ہیں۔پارسی علم کی اہمیت کو جانتے ہیں۔تحصیل علم ہی ان کی عبادت خیال کی جا سکتی ہے۔پارسیوں کی اقتصادی سمجھ بوجھ قوی اور ہمیشہ وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ رہتی ہے۔یہ تجارت اور مالی امور کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتے ہیں۔ان کے مماثل دوسری مثال یہودیوں کی پیش کی جا سکتی ہے۔اقبال 1904ءمیں اپنے ایک مضمون بہ عنوان قومی زندگی میں پارسیوں کی عظمت اور یہودیوں کی طرح معاشی فراست کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ؛ ”۔۔۔پارسیوں کی تاریخ پر نگاہ ڈالو۔ ایک زمانے میں عظیم الشان قوم تھی، یہودیوں کی طرح اس قوم میں بھی پیغمبر مبعوث ہوئے۔ کیانی تہذیب و تمدن انتہائی نقطہ تک پہنچا۔ آخر کار شہنشآہ یزد گرد کے عہد میں عربی تلواروں نے کیانی شائستگی کو صفح? عالم سے معدوم کر دیا اور موبدوں کی آواز ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی،آتش کدے ویران ہو گئے اور پیروان زرتشت وطن سے بے وطن ہو کر ہندوستان میں پناہ گزیں ہوئے۔ لیکن کیا یہ قوم صفحہ ہستی سے مٹ گئی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں قوموں (یہودیوں اور پارسیوں) نے اس انقلاب کو کسی قدر سمجھ لیا ہے۔ جس کی سب سے بڑی خصوصیت صنعت وتجارت ہے۔ دنیا کی تجارت کا ایک کثیر حصہ ان کے ہاتھوں میں ہے اور یہی وجہ ان کے سنبھل جانے کی ہے۔۔۔” البتہ اپنے اجتماعی وجود کو دیگر مذاہب اور دیگر غیر پارسیوں سے محفوظ و مامون رکھنے کی وجہ سے پارسی کمیونٹی تحدید کا شکار ہوتی چلی گئی۔اقبال کا یہ تاثر کہ ”ہماری اسلامی تہذیب سامی اور آریہ تصورات کے اختلاط کی پیداوار ہے۔ اس تہذیب کو نراکت و نفاست اپنی آریہ ماں سے اور کھرا اور سچا کردار اپنے سامی باپ سے ورثے میں ملا ہے۔” عصر حاضر کے تناظر میں پورا سچ معلوم نہیں ہوتا،یہ فتح نہاوند کے تناظر میں ایک تاثر تو ہو سکتا ہے لیکن ہر لحظہ متحرک اور وسعت پذیر تہذیب کے حوالے سے بہت زیادہ قابل اعتناءنظر نہیں آتا۔ وجہ یہ ہے کہ؛ تہذیب،جسے اقبال ”اسلامی تہذیب” سے تعبیر کرتے ہیں،اس کی کوئی طے شدہ اور جامد صورت نہیں ہوتی، زندہ تہذیب ارتقاءپذیر رہتی ہے۔تہذیب، ثقافت، ادب اور معاشرتی خصائص کے حوالے سےاہل ایران اپنے معاصر عربوں سے کہیں زیادہ بہتر تھے۔ شاید اسی وجہ سے اقبال نزاکت و نفاست کو ایرانی ماں سے منسوب کرتے،نیز سچے اور کھرے کردار کو اس تہذیب کے عرب باپ سے نسبت دیتے ہیں۔لیکن وہ اس پہلو کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اسلامی یا مسلم تہذیب کے محاسن صرف دو ہمسایہ اقوام کے اوصاف ہی کے مرہون منت نہیں ہو سکتے یا نہیں ہونے چاہیں۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے والی ہر قوم اور ہر گروہ اپنے تہذیبی، تاریخی، ثقافتی اور آبائی خصوصیات اور کچھ اچھی عادات بھی ساتھ لے کر آتا ہے۔اور اس خزانے کا جو جو پہلو اسلامی مبادیات و ایمانیات سے متصادم نہ ہو،وہ باقی رہتا ہے یا باقی رکھنا چاہیئے۔ ہندوستان میں اسلام قبول کرنے والوں کو نرا احمق اور تاریخ و تہذیب و ثقافت سے تہی دامن لوگ تصور کرتے ہوئے انہیں سرتاپا عرب یا ایرانی بنانے کی شعوری یا لاشعوری کوشش بھی نظر آتی ہے۔یقینی طور پر ایرانی ماں کی نزاکت اور نفاست اور عربی باپ کے کھرے کردار کے ساتھ ساتھ اہل ہند کی عقل و دانش، فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کے اجزاءکا اعتراف یا شمولیت ضروری معلوم ہوتی ہے۔یہ ”عربییت” کے جبری تسلط ہی کا ردعمل تھا کہ پارسیوں نے اپنی کمیونٹی کو اپنے تہذیبی اور نسلی خول میں بند کر لیا۔اس کے برعکس ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنی علیحدہ شناخت کی تشکیل کے لیے کئی قربانیاں بھی دیں،اور اسلامی بین الاقوامیت کے سراب کا پیچھا بھی کیا۔لیکن یہ بات بہرحال پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ قبول اسلام کے بعد مسلمان بننا نہایت آسان اور ”عرب”بننا بے حد مشکل کام رہا ہے۔ ایک نومسلم کے لیے جتنا مشکل کام عرب بننا ہے، عام عربوں کے لیے اتنا ہی دشوار مسلمان بننا معلوم ہوتا ہے۔
1905ءمیں اقبال ممبئی شہر سے لاہور کے ایک اخبار ”وطن” کے ایڈیٹر کو ایک خط میں ممبئی کے پارسیوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ؛ ” یہاں پارسیوں کی آبادی نوے ہزار کے قریب ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمام شہر ہی پارسیوں کا ہے۔ اس قوم کی صلاحیت نہایت قابل تعریف ہے اور ان کی دولت و عظمت بے اندازہ،مگر اس قوم کے لئے کسی اچھے فیوچر (Future) کی پیش گوئی نہیں کر سکتا۔ یہ لوگ عام طور پر سب کے سب دولت کمانے کی فکر میں ہیں اور کسی چیز پر اقتصادی پہلو کے سوا کسی اور پہلو سے نگاہ ہی نہیں ڈال سکتے۔ علاوہ اس کے نہ کوئی ان کی زبان ہے نہ ان کا لٹریچر ہے اور طرہ یہ کہ فارسی کو حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ افسوس یہ لوگ فارسی لٹریچر سے غافل ہیں، ورنہ اُن کو معلوم ہوتا کہ ایرانی لٹریچر میں عربیت کو فی الحقیقت کوئی دخل نہیں ہے بلکہ زرتشتی رنگ اس کے رگ و ریشے میں ہے۔ اور اسی پر اس کے حسن کا دار و دار ہے۔ میں نے سکول کے پارسی لڑکوں اور لڑکیوں کو بازارمیں پھرتے دیکھا، چستی کی مورتیں تھیں۔ مگر تعجب ہے کہ ان کی خوبصورت آنکھیں اسی فی صد کے حساب سے عینک پوش تھیں دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ عینک پوشی پارسیوں کا قومی فیشن ہوتا جاتا ہے۔ معلوم نہیں کہ ان کے قومی ریفامر اس طرف توجہ کیوں نہیں کرتے۔” اقبال نے 1905میں پارسی کمیونٹی کے محاسن کی توصیف کی تھی۔انہوں نے اس قوم کی صلاحیت اور قابلیت کو نہایت قابل تعریف قرار دیتے ہوئے پارسیوں کی معاشی فراست کا اعتراف کیا تھا اقبال ان کی بے اندازہ دولت و عظمت سے واقف تھے۔ ہاں اقبال نے اگر پارسیوں کے لئے کسی اچھے مستقبل کی پیش گوئی نہیں کی تو اس کی وجہ سرمائے کے حوالے سے پارسیوں کا نقطہ نظر اور طرز عمل معلوم ہوتا ہے۔اقبال دیکھ رہے تھے کہ یہ لوگ عام طور پر صرف دولت کمانے پر متوجہ رہتے ہیں اور ہر چیز پر اقتصادی پہلو کے سوا کسی دیگر پہلو سے نگاہ ہی نہیں ڈال سکتے۔ اقبال کا یہ تاثر کاروبار حیات میں سرمائے کی وحدت اور مرکزیت کے خلاف تھا۔یہی طرز عمل کیپٹلزم کی بنیاد بھی ہے۔ پارسی کمیونٹی پر سب سے اہم اعتراض اقبال نے پارسیوں کی اپنی زبان اور نہایت وقیع لٹریچر سے عدم دلچسپی پر کیا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ ”۔یہ لوگ فارسی لٹریچر سے غافل ہیں، ورنہ اُن کو معلوم ہوتا کہ ایرانی لٹریچر میں عربیت کو فی الحقیقت کوئی دخل نہیں ہے۔ بلکہ زردشتی رنگ اس کے رگ و ریشے میں ہے۔ اور اسی پر اس کے حسن کا دار و دار ہے۔ ” اقبال کے پارسیوں کے حوالے سے ان چند مباحث سے یہی اصول سامنے آتا ہے کہ؛ سرمایہ اور اس کے حصول کا فن ہی کسی قوم کو زندہ رکھنے کے لیے کافی نہیں ہوتا۔قومی زندگی کی بقا کے دیگر لوازمات بھی اہمیت رکھتے ہیں۔
کالم
برصغیر کے پارسی
- by Daily Pakistan
- جولائی 5, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 869 Views
- 2 سال ago