برطانیہ کی سیاست ایک بار پھر اس موڑ پر کھڑی ہے جہاں ناکام حکومتی پالیسیوں کا ملبہ تارکین وطن کے سر ڈال کر ووٹ بٹورنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس وقت برطانوی ریفارم پارٹی اسی گندی سیاست کی ایک کھلی اور جارحانہ مثال بن کر تیزی سے ابھرتی ہوئی ہمارے سامنے آئی ہے یہ جماعت بظاہر خود کو سچ بولنے والی اور عوام کی آواز قرار دینے کی دعویدار ہے مگر حقیقت میں اس کا بیانیہ خوف، نفرت اور کمیونٹیز کو باہم تقسیم کرنے پر کھڑا نظر آتا ہے۔ خاص طور پر مسلمان اور غیر یورپی تارکین وطن اس پارٹی کی سیاست کا سب سے آسان ہدف بن چکے ہیں۔ریفارم پارٹی بار بار یہ دعوی کرتی ہے کہ وہ صرف غیر قانونی امیگریشن کے خلاف ہے لیکن اگر اس کے رہنماں کی تقاریر، اس میں شامل لوگ،سوشل میڈیا مہمات اور پالیسی دستاویزات کا بغور جائزہ لیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ مسئلہ محض غیر قانونی ہجرت کا نہیں ہے بلکہ وہ آبادی ہے جو رنگ، مذہب اور ثقافت کے لحاظ سے مختلف نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا ذکر براہِ راست یا بالواسطہ بار بار اس کے بیانیے میں دہرایا جاتا ہے ۔چھوٹی کشتیوں کے ذریعے برطانیہ آنے آنے والے پناہ گزینوں کواس پارٹی نے ایک قومی خطرہ بنا کر پیش کیا ہے۔ انہیں برطانیہ پر حملہ آور، بوجھ اور ثقافتی خطرہ کہا جاتا ہے۔ چونکہ ان میں اکثریت مسلم ممالک سے تعلق رکھتی ہے جہاں جنگ وجدل ہے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور غربت ہے اس لیے یہ تاثر گہرا کیا جاتا ہے کہ اسلام خود برطانوی معاشرے کے لیے مسئلہ ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں امیگریشن پالیسی ختم ہو کر اسلاموفوبیا میں بدل جاتی ہے۔پارٹی کے کئی رہنما اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مسلمان برطانوی اقدار میں ضم نہیں ہو پا رہے ہیں یہ ایک بہت پرانا الزام ہے مگر برطانوی ریفارم نے اسے زیادہ بے باکی سے دہرایا ہے شریعت، حجاب، حلال خوراک، مساجد، اسلامی اسکولوں کو بنیاد بنا کر یہ سب عوامل پارٹی کے حامی حلقوں میں خطرے کی علامت بنا دیئے گئے ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ یہ دعوے درست ہیں یا غلط ہیں اصل مسئلہ یہ ہے کہ پوری کمیونٹی کو ہی اجتماعی طور پر مشکوک بنا دیا گیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ کے بہت سے مسائل کی جڑ امیگریشن نہیں بلکہ دہائیوں پر محیط سیاسی ناکامیاں ہیں۔ ہائوسنگ بحران اس لیے نہیں کہ تارکین وطن زیادہ ہیں بلکہ اس لیے کہ حکومتیں مناسب گھر بنانے میں ناکام رہی ہیں ۔این ایچ ایس اس لیے دبا میں نہیں کہ باہر سے لوگ آ گئے ہیں بلکہ اس لیے ہے کہ فنڈنگ کم کی گئی ہے عملہ نظرانداز ہوا اور نظام کو نجی مفادات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے مگر ان تلخ حقائق کا سامنا کرنے کے بجائے برطانوی ریفارم آسان راستہ اختیار کرتی ہے الزام باہر سے آنے والوں پر ڈال دو۔یہ سیاست نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ خطرناک بھی ہے۔ اس کے نتائج پہلے ہی برطانوی معاشرے میں نظر آ رہے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں اضافہ، مساجد پر حملے، حجاب پہننے والی خواتین کو ہراساں کرنا، اور سوشل میڈیا پر زہر اگلتی مہمات اسی فضا کی پیداوار ہیں۔ برطانوی ریفارم براہِ راست ان حملوں کی ذمہ دار نہ سہی مگر اس کے بیانیے نے ان کیلئے زمین ضرور ہموار کی ہے۔ سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مسلمان اور دیگر تارکین وطن اس بحث میں کمزور پوزیشن پر کھڑے نظر آتے ہیں یا تو وہ خاموش رہتے ہیں یا صرف دفاعی انداز میں ردعمل دیتے ہیں۔ یا عدم توجہی روا رکھتے ہیں اور اس ملک کی سیاست سے لاتعلق رہتے ہیں یہ حکمتِ عملی اب کافی نہیں رہی۔ برطانوی ریفارم جیسی جماعتیں اسی خاموشی سے فائدہ اٹھا کر اپنے بیانیے کو عوامی سچ بنا دیتی ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ مسلمانوں اور تارکین وطن کو اس صورتِ حال میں کیا کرنا چاہیے؟سب سے پہلے، سیاسی عمل سے لاتعلقی ختم کرنا ہوگی۔ ووٹ ڈالنا محض حق نہیں بلکہ ضرورت ہے۔ مقامی اور قومی انتخابات میں بھرپور شرکت کے بغیر ایسی جماعتوں کا راستہ روکنا ممکن نہیں جو نفرت کی سیاست کرتی ہیں۔دوسرا مسلم کمیونٹی کو اپنی کہانی خود سنانی ہوگی۔ یہ بیانیہ کہ مسلمان بوجھ ہیں یا خطرہ تبھی ٹوٹے گا جب تعلیم، صحت، کاروبار، اور سماجی خدمت میں مسلمانوں کے کردار کو منظم انداز میں سامنے لایا جائے گا۔ خاموش محنت کافی نہیں اس کی آواز بھی ہونی چاہیے۔تیسرا اتحاد ناگزیر ہے۔ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ تمام تارکین وطن اور اقلیتی گروہوں کا ہے۔ سیاہ فام، ایشیائی، مشرقی یورپی اور دیگر کمیونٹیز اگر الگ الگ رہیں گی تو نفرت کی سیاست کامیاب ہوگی۔ مشترکہ پلیٹ فارم اور مشترکہ جدوجہد وقت کی اہم ضرورت ہے۔چوتھا نوجوان نسل کو سیاسی اور سماجی قیادت کے لیے تیار کرنا ہوگا۔ اگر فیصلہ ساز اداروں میں نمائندگی نہیں ہوگی تو فیصلے ہمیشہ دوسروں کے خلاف ہوں گے۔ کونسلز، اسکول بورڈز، ٹریڈ یونینز اور سیاسی جماعتوں میں شمولیت اب اختیار نہیں بلکہ ضرورت ہے ۔ آخر میں خوف کے بیانیے کو خوف سے نہیں بلکہ اعتماد سے چیلنج کرنا ہوگا۔ریفارم پارٹی جس برطانیہ کی بات کرتی ہے، وہ یک رنگی اور ماضی کی طرف لوٹنے کا خواب ہے۔ اصل برطانیہ متنوع، کثیرالثقافتی اور مسلسل بدلنے والا ملک ہے۔ مسلمانوں اور تارکین وطن کو اس حقیقت پر یقین رکھتے ہوئے اپنا مقام مضبوط کرنا ہوگا ورنہ دوسرے ان کی شناخت، وفاداری اور مستقبل کا فیصلہ کرتے رہیں گے۔یہ صرف ایک سیاسی بحث نہیں بلکہ برطانیہ میں بسنے والی لاکھوں اقلیتوں کے مستقبل کا سوال ہے جو اس ملک کی تعمیر و ترقی میں نمایاں خدمات سرانجام دے رہے ہیں انہیں اس ملک کو اپنا اول ملک جان کر اپنا کردار پہلے سے زیادہ نمایاں بنانا ہوگا یہ امر بعید از قیاس نہیں کہ اگر ریفارم پارٹی نے اپنا ایجنڈا اسی طرح آگے بڑھایا تو اگلا الیکشن جیت سکتی ہے جس کا ایجنڈا بہت خطرناک ہے۔
کالم
برطانوی ریفارم اور تارکین وطن مخالف پالیسیاں
- by web desk
- جنوری 1, 2026
- 0 Comments
- Less than a minute
- 11 Views
- 3 گھنٹے ago

