(سحرشمیم)
آزادی ہرانسان کا فطری اور بنیادی حق ہے چاہے وہ کسی بھی ملک یا خطے میں رہتا ہو۔ہر انسان آزادی رائے کا پورا حق رکھتاہے۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہیکہ وہ اپنے شہریوں کے حقوق کا ہر طرح سے خیال رکھے۔بھارت کے موجودہ حالات نے ایک ایسے المیے کو جنم دیا ہے جو اس کے اصل چہرے کو بے نقاب کرتا ہے۔وہ سکیولر ہونے کا دعوی توکرتا ہے لیکن توا تر کے ساتھ اقلیتوں کے حقوق کو پامال کر رہا ہے۔ درحقیقت بھارت ایک انتہا پسند ہندوریاست ہے جس کی بڑی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے جبکہ کاروباراورحکومت میں ان کی نمائندگی ایک فیصد سے بھی کم ہے۔انہیں مسلمان مخالف پالیسیوں کا ہمیشہ سامنا رہتا ہے جن میں جبرو تشدد اور ظلم و ستم شامل ہے۔ اس تناظر میں اگردنیا یہ سمجھتی ہے کہ ہندوستان ایک سیکولر جمہوری ریاست ہے تو یہ سراسر خام خیالی ہے۔
بیشتر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے پروگرام کے تحت بھارت کو ہندوراشٹر بنانے کا عہد کر رکھا ہے جس کی شروعات بابری مسجد کے انہدام اور رام مندر کی سنگ بنیاد سے ہوئی۔ 1992 میں بھارت میں مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ حملوں کا آغازہوا۔ 2014 میں بی جے پی برسراقتدارآئی تو مسلمانوں اوردیگراقلیتوں کے ساتھ نا انصافیوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو تاحال جاری ہے۔
معروف بھارتی مصنفہ اور سیاسی کارکن ارون دتی رائے اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ مودی حکومت اکثریتی ہندووں اوراقلیتی مسلمانوں کے مابین کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے جبکہ بھارت میں یہ صورت حال مسلمانوں کے لیے نسل کشی کی طرف بڑھ رہی ہے۔
بھارت میں جاری بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں غیر قانونی حراست، تشدد، قیدیوں کی جعلی مقابلوں میں ہلاکتیں، لوگوں پر کھلے عام حملہ کرکے تشدد کرنا، ان کے کاروبار اور املاک کونقصان پہنچانا اور ان کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنا شامل ہے۔ مذہبی بنیادوں پر قتل و غارت گری، فسادات، امتیازی سلوک، توڑ پھوڑ اوربنیادی عقائد کے حق کو سلب کرنے کے اقدامات کے بارے میں خبریں منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔نام نہاد دہشت گرد گروہوں کی طرف سے مسلمانوں پر تشدد کیا جاتا ہے جبکہ ریاستی مشینری حملہ کرنے والوں کے بارے میں تفتیش کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ مسلم نوجوانوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا کربنا کسی ثبوت اور شواہد کے برسوں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا جاتا ہے۔
جنوبی ایشیا کی ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی کا کہنا ہے کہ حکومت نہ صرف مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو پر تشدد حملوں سے بچانے میں ناکام رہی ہے بلکہ اس تعصب کو تحفظ بھی فراہم کررہی ہے۔
قوم پرست ہندو حکمران جماعت بی جے پی قانون نافذ کرنے والے اداروں اورعدالتوں میں مداخلت کر رہی ہے۔وہ قوم پرست گروہوں کو مذہبی اقلیتوں پرحملے کرنے، دھمکیاں دینے اور ہراساں کرنے پر اکساتی ہے۔اسی طرح کا ایک واقعہ بھارت کے ایک گائوں گوڑمیں31 جولائی2023 کو رپورٹ ہوچکا ہے۔ اس واقعہ میں بی جے پی کے ساتھ منسلک ایک گروہ نے ہندو مذہبی جلوس کو نشانہ بنایا جس کی جوابی کارروائی میں حملہ آواروں نے نہ صرف وہاں مسجد کو نذرآتش کر دیا بلکہ امام مسجد کو بھی شہید کردیا۔اس دوران چھ افراد بھی جاں بحق ہوگے۔خیال رہے کہ گوڑگاوں میں مسلمانوں کی آبادی ہندووں کے مقابلے میں کم ہے جس کی وجہ سے اکثران کی چھوٹی چھوٹی دکانوں کو نذرِ آتش کر دیا جاتا ہے۔ ان واقعات کی بدولت وہاں کیمسلمان خوف زدہ اورعدم تحفظ کا شکار رہتے ہیں۔اس کے علاوہ ہندووںاورمسلمانوںکیدرمیان گائیکاگوشت کھانیاور بین المذاہب شادیوں جیسے مسائل بھی شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کو محدود کیا جارہا ہے۔ مودی حکومت کے ادوار میں انہیں پسماندہ کرنے کے بے شمار حربے آزمائے گئے۔ یہاں تک کہ ریاستی مشینری مسلمانوں کو کچلنے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ بین الاقوامی ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت میں نسل کشی کا عمل فروغ پا رہا ہے۔ مودی نے ملکی سیاست اور بین الاقوامی برادری سے نمٹنے کے لیے دوہرا معیار اپنا رکھا ہے۔ وہ ملک میں نفرت انگیز تقریروں کے ذریعے فرقہ پرستی کو بڑھاوا دے رہا ہے جبکہ مسلم مخالف بیان بازی کے ذریعیاپنا سیاسی کیریئر بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا خیال ہے کہ عالمی طاقتیں اسے ایک پر امن اور اعتدال پسند حکمران گردانتی ہیں جبکہ اس کی حکمت عملی اور اقدامات شاہد ہیں کہ ان کی بدولت پورے خطے کا امن تباہ ہو رہا ہے۔ اس طرح دوہرا معیار اپنانے سے اسے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔اگر بھارت کو واقعی ایک سیکولر اور جمہوریت کا علمبردار ملک بننا ہے تو اسے اقلیتوں کے ساتھ مکمل انصاف اور رواداری سے کام لینا ہوگا۔