خیر امکان کی بات تو چھوڑیئے ،اب تو تین مرتبہ کی ہاں کا بھی وہ لطف باقی نہیں رہا ، جو آرزو بن کر دماغ کے کسی کونے میں سوئی رہتی ہے۔وجہ وہی حجاب ،جو چہروں کو کم اور عقل و خرد کو زیادہ ڈھانپتا ہے ۔حجاب کا سب سے بڑا نقصان تشکیک کی آبیاری ہے۔اگر آپ کشف المحجوب کی نعمت ، فضیلت اور عطا سے بہرہ ور نہیں ہوئے تو پھر لازم ہے کہ؛ گمانوں کے لشکر آپ کے نظام فہم و فراست پر حملہ آور ہو جائیں گے ۔ ہمارا خطہ حملہ آوروںکے لیے ہمیشہ موزوں مفید اور زرخیز ثابت ہوا ہے۔اس روایت کا ایک اثر یہ ہوا کہ ہم ایشیائی لوگوں کی فتوحات کے میدان عملی کی بجائے ہمیشہ فکری ہی رہے۔ مراز غالب نے تو خیر یہ کہہ کر حد ہی کر دی تھی کہ©©:
ہمارے ذہن میں اس فکر کا ہے نام وصال
کہ گر نہ ہو تو کہاں جائیں؟ ہو تو کیوں کر ہو
حضرت غالب کا یہ قیاس انتہا کی طرف مائل محسوس ہوتا ہے ، حقیقت کہیں درمیان میں موجود اور پوشیدہ رہتی ہے۔ ہم ایشیائی لوگ دوسروں کو خوش دیکھ کر اداس ہونے والے لوگ ہیں۔میں یہاں کھلے دل سے اعتراف کرتا ہوں کہ ایک بار کے بعد ،کسی نے بھی آج تک مجھے ایسی کوئی پیشکش نہیں کی ،جس پر میں فورا تین بار ہاں کر سکوں۔اس پس منظر اور اپنے گرد و پیش کی مناظر کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے کتاب ”روزن تشکیک“کے حرف آغاز میں جب ڈاکٹر انوار احمد کا یہ اعتراف پڑھا کہ؛ کتابوں کی اشاعت میں کئی تجربات کئے مگر احساس ہوا کہ کسی نہ کسی شکل میں سو پچاس احباب تک کتاب پہنچنی چاہیے ۔ یہ اور بات کہ انہیں مفت بھی نہیں دینی چاہیے۔ اس لئے جب عکس لاہور کے جواں ہمت محمد فہد نے رابطہ کر کے کہا کہ میں رائلٹی کے طور پر آپ کو سو کتابیں پیش کروں گا تو میں نے فوراً تین مرتبہ ہاں کر دی۔تو دل پہلے خوش اور پھر اداس ہو گیا۔خوش اس لیے ہوا کہ مجھے ڈاکٹر انوار احمد کی کتب ہمیشہ از راہ محبت و مروت بالکل مفت مل جاتی ہیں ۔یہاں تک کہ پیلوں بھی مجھے مفت ملتا تھا۔ اسی تسلسل میں ”روزن تشکیک“بھی میرے پاس چلی آئی۔میں نے حسب عادت اسے سامنے اور اپنے قریب پا کر ، اس پر نگاہ غلط انداز ڈالتے ہوئے ایک مسکراہٹ دان کی۔اچھا میرا یہ عمل صرف اچھی کتابوں تک ہی محدود ہے۔ انسانوں کےساتھ میں زیادہ نہیں کھلتا ، نہ ہی زیادہ بے تکلف ہوتا ہوں ۔کتاب کا ردعمل متوازن اور معتبر تھا۔یہ سوچ کر کہ اچھی گفتگو آمنے سامنے بیٹھ کر ہی ممکن ہے ،میں نے اسے ایسی جگہ پر رکھ لیا ،جہاں سے یہ مجھے نظر آتی رہے۔ میرا تجربہ ہے ، کہ اچھی کتاب کے متن میں معنویت اور بصیرت کےساتھ ساتھ تکلم کی صلاحیت بھی ہوتی ہے۔کچھ کتابیں آپ کو بلاتی ہیں ، کچھ کتابیں آپ کو کچھ نیا اور الگ بتاتی ہیں اور کچھ کتابیں آپ کو میٹھی نیند سلاتی بھی ہیں ۔ میرا گمان ہے کہ ؛آنے والی دہائیوں میں ،جب نیند کی کمی ایک عالمگیر بحران کی شکل اختیار کر لے گی تو تیسری قسم کی کتابوں کی طلب سب سے زیادہ ہو جائے گی۔روزن تشکیک نے دھیمی آواز میں پہل کی ، اور یوں بات چیت کا آغاز ہوا۔یہ جانتے ہوئے کہ؛ بہترین طریقے اور متاثر کن سلیقے سے اظہار محبت کرنے والا وفا دار عاشق نہیں ہوتا ۔میں نے روزن تشکیک کے ساتھ محتاط رویہ اختیار کیا ۔باتیں ہوتی رہیں ۔پانچ حصوں میں منقسم اس کتاب میں دلچسپی کے کئی سامان موجود ہیں ۔ابواب کی تقسیم حروف ابجد کے مطابق ہے ، مگر ابجد تک اردو زبان وادب اور تحقیق و تنقید کے عنوانات شامل ہیں ۔ سرائیکی ادبیات کے چار عنوانات کےلئے ”ھوز“ کے ”ھ“ پر انحصار کرنا پڑا ہے ۔یہ چاروں مضامین سرائیکی زبان و ادب کے نظام فراست پر نہایت عمدہ روشنی ڈالتے ہیں ۔ روزن تشکیک سے ہونے والی گفتگو میرا اور کتاب کا ذاتی معاملہ ہے۔ایسی باتوں کی پوری تفصیل کبھی کوئی نہیں بتاتا، میں بھی نہیں بتاو¿ں گا ۔لیکن ،بہرحال ،کچھ نہ کچھ ضرور ،پر پہلے یہ بتا دوں کہ روزن تشکیک کے حرف آغاز کا آخری پیرا گراف پڑھ کر میں اداس کیوں ہو گیا تھا ۔ ،وجہ وہی جس کی طرف پہلے بھی اشارہ کر چکا ، یعنی یہ کہ ڈاکٹر انوار احمد کو اب بھی ایسی پیش کش دستیاب رہتی ہے ،جس پر وہ فوراً تین بار ہاں کہنے پر خود کو آمادہ و تیار پاتے ہیں، اور تین بار ہاں کہہ بھی دیتے ہیں۔ایک میں ہوں ،جو بہانے بہانے سے لغت کھول کر ”رشک“کے معنی پڑھتا رہتا ہوں اور جب کچھ کچھ سمجھ آنے لگتی ہے ،تو اداس ہو جاتا ہوں ،شاید اس کی وجہ میرا ایشیائی ہونا ہو؟ کیا پتہ؟ اس کتاب کے عنوان اور معنی خیز ٹائٹل پر ڈاکٹر صاحب نے فیس بک کے ڈرائنگ روم میں مشاورت کا آغاز کیا تھا۔ چونکہ میں ہر اس معاملے میں بولنا اور دخل دینا ضروری خیال کرتا ہوں کہ جہاں میرے مشورے اور مداخلت کے بغیر بھی معاملہ احسن طریقے سے سلجھ سکتا ہو،لہٰذا کتاب کے ٹائٹل اور عنوان پر اپنی رائے پیش کرتے ہوا لکھا کہ؛ حضور یہ تو”نگاہ تشکیک“کا ٹائٹل لگ رہا ہے ۔روزن تو ذات سے باہر وہ واحد مقام ہوتا ہے جہاں سے کوئی روشنی کی کرن، کسی آواز کی لے یا تازہ ہوا کا جھونکا اندر آ سکتا ہو۔ایک بالکل مفت مشورہ یہ ہے کہ اس ٹائٹل کے ڈیزائن سے پہلے کتاب کے عنوان پر غور کر لیں۔روزن تشکیک کے عوض "گمانوں کے لشکر، یقیں کا ثبات” یا پھر صرف "گمانوں کے لشکر” شاید کسی متوازن رنگ ٹائٹل کا باعث بن سکے؟ڈاکٹر صاحب کا جواب جامع اور فیصلہ کن لگا اور اسی پر عمل بھی ہوا ڈاکٹر صاحب نے لکھا تھا کہ "اقبال کا یہ مصرع میرے ذہن میں پیوست تھا ۔
”تماشائی شگاف در سے ہیں صدیوں کے زندانی“
اور ایک عرصے سے میں لکھ رہا ہوں کہ ہماری جامعات آزادانہ فکری عمل کی متحمل نہیں ہو سکتیں اس لئے ہمارا دعوائے تحقیق کیا اور ادعائے تنقید کیا پھر فیض نے اس شگاف در کو روزن قفس بنایا جو بجھتا تھا تو "قیدی“سمجھتا تھا کہ کہیں نہ کہیں اس کے عوض اجالا ہو گیا ہوگا اس لئے روزن مناسب لگا پھر یہ تھا کہ جن مسلمات یا معتقدات یا مہابیانیہ کے طفیل جامعات میں فکری آزادی کلبلاتی ہے چلئے ان پر ہی شک بھری ایک نظر ہی ڈال لیں اصغر ندیم سید نے کہا صرف سودا کے کلیات سے فال نکالو کہ آج کل "انIN” ہے مگر مجھے ایک اچھے غزل گو شمیم آفتاب اقبال کے ہاں ایک ترکیب ملی "روزن تشکیک ” میں نے شاعر کی اجازت کے بغیر لے لی”ڈاکٹر صاحب کی یہ رائے کتاب کے بیک ٹائٹل کی زینت بھی ہے۔ روزن تشکیک کے حرف آغاز میں یہ اعتراف ڈاکٹر انوار احمد ہی کر سکتے ہیں کہ ” ہم تحقیق اور تنقید کے نام پر جتنا بھی سچ بولنا چاہیں، ہماری اس معاشرے میں تربیت ہی نہیں کہ پورا سچ بول سکیں ۔اس لیے میں اسے 98 فیصد سچ کہنے پر مصر تھا۔”میرا تاثر یہ ہے کہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں مذہب کے نام پر تمثیل ، عقیدے کے نام پر تشکیک اور تاریخ کے عوض فکشن پڑھایا اور سکھایا جاتا ہو،وہاں سچ کو تناسب کے ساتھ جانچنا شاید درست نہ ہو۔پھر بھی 98 فی صد سچ کا مطلب ادھورا نہیں ، بلکہ پورا سچ ہوتا ہے ۔ ویسے میرا ذاتی تجربہ یہ رہا کہ سچ کو تلاش کرنا اور سچ بولنا بھی ایک انفرادی فعل یا چلن ہوتا ہے ورنہ یہاں کوئی بھی سچ سننے پر آمادہ نہیں ، یہی وجہ ہے کہ سچ تلاش کرنے پر بھی نہیں ملتا۔ سچ نہ ہوا ،سچا پیار ہوگیا جو بیاہتا پاکستانیوں کو کبھی بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ روزن تشکیک ڈاکٹر صاحب کے تیئس مضامین کا گلدستہ ہے۔پہلے مضمون کو سمجھنا میرے لیے نسبتاً سہل ہے کہ ایران کے حوالے سے ،فرانس کی سوربون یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں ڈاکٹریٹ کرنے والے روشن خیال دانشور اور خوش گفتار مقرر ڈاکٹر علی شریعتی اور علامہ اقبال کے بارے میں ہے۔ علی شریعتی ایران میں ملوکیت و شہنشاہیت کے خلاف مزاحمت اور انقلاب کاشت کرنے والے ایک بہادر استاد تھے ۔مشہد یونیورسٹی میں ان کے لیکچرز اور نژاد نو میں مقبولیت سے خائف اور خفا ہو کر شاہ کی حکومت نے ان کا تبادلہ تہران کردیا۔وہاں انہوں نے اپنا کام جاری رکھا اور تہران میں حسینہ ارشاد نامی ادارے میں لیکچرز دینے شروع کیے ۔ان کے سامعین کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز ہو کر ہزاروں تک پہنچ گئی۔انہی لیکچرز میں علی شریعتی نے ملوکیت سے بےزار اور آمادہ مزاحمت ایرانیوں کو بتایا کہ اقبال کی شاعری ان کی انقلابی آرزوں کو اظہار کے راستے دکھاتی اور سکھاتی ہے۔جس طرح عربوں سے اقبال کو متعارف ترکوں نے کروایا تھا ،اسی طرح افغان دانشوروں نے اقبال کی فارسی شاعری سے ایرانیوں کو متعارف کروایا تھا۔پر یہ علی شریعتی ہی تھے ،جنہوں نے اقبال کو انقلاب ایران کی فکری بنیاد بنانے کا آغاز کیا تھا۔ اس دلچسپ مضمون میں ڈاکٹر انوار احمد نے علی شریعتی کے بعض اہم مضامین کے اقتباسات کو بھی شامل کیا ہے ۔ انقلاب ایران کی بنیادوں میں اقبال کے حصے کا مطالعہ کرنے والوں کےلئے یہ ایک اہم مضمون ہے ۔ روزن تشکیک میں دو مضامین فیض احمد فیض پر بھی ہیں۔ڈاکٹر صاحب سال 2011 میں ہماری یونیورسٹی میں قائم کی جانے والی فیض چیئر کی نیشنل ایڈوائزری کونسل کے رکن تھے۔یہ چیئر اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کی خصوصی دلچسپی اور ہدایت پر وفاقی حکومت نے قائم کی تھی۔اس چیئر پر اسلام آباد کے ایک معروف پیر تسمہ پا چیئرمین بننے کے لیے اس طرح سے چوکس اور تیار تھے ،جیسے ہاکی کا گول کیپر پلنٹی اسٹروک روکنے کےلہے ہوتا ہے۔خیر وہ چیئرمین نہ بن سکے ، اور اس چیئر پر میرا انتخاب ہوا۔اب اس کا ایک فائدہ اور ایک نقصان ہوا ۔فائدہ یہ ہوا کہ ہم نے اس چیئر کے لیے نیشنل ایڈوائزری کونسل بناتے وقت کسی دستیاب پیشہ ور کو شامل نہیں کیا۔دوسرے نہایت برق رفتاری سے فیض ڈاکیومنٹری اور باقیات فیض کی تدوین کا کام شروع کردیا۔متعدد کانفرنسیں بھی کروائیں۔ نقصان یہ ہوا کہ پیر تسمہ پا کی مایوسی کی قیمت کے طور پر وفاقی حکومت اور ایچ ای سی نے چیئر کےلئے کسی قسم کے فنڈ جاری نہیں کیے ۔غصہ یہ تھا کہ اگر یونیورسٹی نے کسی پروفیسر ہی کو چیئرمین بنانا ہے تو پھر اخراجات بھی یونیورسٹی خود ہی کرے۔خیر ڈاکٹر صاحب اس کے تمام پروگراموں اور کانفرنسوں کا حصہ رہے اور فیض احمد فیض سے نسبت اور محبت کے دعویداروں کے بغض فیض کے بھی گواہ بنے ۔فیض پر یہ دونوں مضمون بھی دلچسپ اور بعض نادر نکات پر مشتمل ہیں۔روزن تشکیک سے مکالمہ جاری ہے،لیکن ایک اظہار اور اعتراف کرنا ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ کہ ابھی تک اس کتاب میں مجھے تشکیک کے عوض ” یقین” حاوی نظر آرہا ہے۔
کالم
تین بار کی ہاں اور روزن تشکیک
- by web desk
- اگست 9, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 716 Views
- 2 سال ago