ایک شخص کے ہاں چوری ہوگئی تو و واپنے گھر سے باہر نکل کر شور مچانے لگا بلکہ زورزور سے رونے بھی لگا لوگوں نے پو چھا بھائی آپ رو کیوں رہے ہیں جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا جاو پولیس اسٹیشن پر جا کر ر پورٹ درج کرواو ان کی کوشش سے چور ضرور پکڑا جائے گا ۔ وہ شخص جس کے گھر چوری ہوئی تھی اور رورہا تھا کہنے لگا کہ میرے گھر میں چوری ہوگئی ہے میں اس لیے رورہا ہوں کہ آپ سب کے گھر میں کیوں نہیںہوئی ۔ ایک شخص کی بھینس چوری ہوگئی وہ بھی اسی طرح شور مچا کر رونے لگا رونے کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے بھی یہی کہا کہ چوریاں تو ہوتی رہتی ہیں افسوس اس بات کا ہے کہ تم سب کی مال مویشی محفوظ ہیں۔ تم لوگوں کے گھروں میں چوری کیوں نہیں ہوتی ۔ حاسد یہی سوچتا ہے کہ مجھے جو نقصان پہنچا ہے وہ دوسروں کو بھی ضرور پہنچنا چاہیے اللہ سے دعا کرتا ہے کہ میں باقی لوگوں کی چیزیں دیکھ دیکھ کر تھک گیا ہوں یا تو مجھے بھی ایسی چیزوں سے نواز دے یا پھر ان سے بھی یہ اشیا چھین لے اس طرح مال کے حاسد ہوتے ہیں خوبصورتی کے حاسد ہوتے ہیں اچھی صفات کے حاسد ہوتے ہیں اصل میں اگر آپ غور فرمائیں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ حسد کرنے والا ہمیشہ چھوٹا آدمی ہوتا ہے اس کے اندر کد روتی بغض اور حسد اس درجہ ہوتا ہے کہ اسے یہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کرنی پڑتی کہ یہ عادت مجھ میں کیوں ہے اور اس پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے اس کے برعکس رشک کرنے والا یہ سوچتا ہے کہ یہ اچھی عادت جو دوسرے شخص میں ہے مجھ میں بھی پیدا ہو اور دوسرے کی ترقی خوشحالی اور کامیابیوں کو دیکھ کر نہ صرف خوش ہوتا ہے بلکہ اس کا اظہار کرنے میں بھی بخل سے کام نہیں لیتا ۔ وہ خود بھی اخلاق اور کردار کےلحاظ سے بلندی کی طرف جانے کی کوشش کرتا ہے دوسروں کی ٹانگیں نہیں کھینچتا۔ بد قسمتی سے ہمارا معاشرہ حسد کی گھٹیا عادت میں جکڑا ہوا ہے۔ ایسے لوگوں کی کثرت ہے جو دوسروں کی کامیابیوں سے خوش نہیں ہوتے کچھ لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ انہیں اپنی ترقی اور خوشحالی یا کامیابی کے بارے میں بتائیں تو وہ آپ کو دیکھتے رہیں گے لیکن کیا مجال کہ وہ چندالفاظ تعریف کے ادا کریں ویسے گھنٹوں ضرورت یا بلاضرورت بولتے رہیں گے ایسے موقعوں پر نہ جانے کیوں انہیں دندل پڑ جاتی ہے بہر حال کو افاختہ نہیں بن سکتا اور گدھا شیر نہیں بن سکتا اپنی اپنی جگہ سب کی ہیں عادات ، فضائل کو بدلنا مشکل کام ہوتا ہے ایسی کیفیت کوایک صاحب اس طرح بیان کر رہے تھے کہ دوزخ کے دروازے پر چند فرشتے فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں مامور تھے وہاں کچھ لوگ باہر نکلنے کی کوشش کر رہے تھے کچھ اپنی کوشش میں کامیاب ہونے کے قریب ہوتے تو فرشتے پھر انہیں دوزخ میں دھکیل دیتے، دوسری جگہ بھی کچھ ایسا ہی منظر تھا لیکن وہاں کسی فرشتے کی کی ڈیوٹی نہیں تھی پوچھا گیا کہ یہاں کوئی فرشتہ کیوں نہیں تو پوچھنے والے کو بتایا گیا جو باہرکی کوشش میں کسی حد تک کامیاب ہو جاتے ہیں تو دوسرے ساتھی اس کی ٹانگ پکڑ کر گھسیٹ لیتے ہیں اس لئے یہاں کسی کی ڈیوٹی نہیں۔ یہی کیفیت ہمارے معاشرے کی ہے ہم ایکدوسرے کی ٹانگیں کھنچتے ہیں اگر کوئی کامیابی کی طرف جارہا ہو تو ہم سے برداشت ہی نہیں تاد ماغ عام طور پر مثبت سوچ کے قریب ہی نہیں پھٹکتا سو طرح کی منفی ترکیبیں سوچنے لگتا ہے۔ کمینہ شخص کمینگی ہی کریگا دنیا کا طلبگار دین کوبیچ کر بھی دنیا ہی خریدے گا۔ سخی پیدائشی سخی ہوتا ہے وہ امیر نہ بھی ہو پھر بھی وہ جو کچھ اپنے پاس رکھتا ہے ضرورت مند کو دے گا۔ اس کے دل اور چہرے پر ملال نہیں ہو گا غریب بھی مزاج کافی ہو سکتا ہے دولت کی تمنانہ کر نیوالا بھی سخی ہی ہوتا ہے وہ غریب سخی ہی ہوتا ہے جو امیر کی دولت کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھے احسان کرنے والا بھی سخی ہے معاف کرنے والا بھی سخی ہوتا ہے اللہ تعالی نے انسان کو جو کچھ دیا ہوتا ہے وہی اسکی اصل دولت اور پہچان ہوتی ہے۔ ان صفات کے مطابق رہنا جو مثبت ہیں کامیابی کی ضمانت بنتی ہیں ہر آدمی اپنے عمل کے اندر رہن رکھ دیا گیا ہے۔ اللہ تعالی نے جو حد مقرر کر دی ہے ان سے باہر نکلنے کی کوشش ہزار نا کا میوں اور بدنامی کا ذریعہ بنتی ہے حسد جیسی بیماری جب اپنے باطن میں پیدا ہونا شروع ہو جائے یا ہو چکی ہو تو انسان کا دل سخت ہو جاتا ہے رحمت کی صفت سے محروم ہو جاتا ہے۔ انسان اورپتھر میں فرق ختم ہو جاتا ہے۔بے حسی واقعات اور حالات سے لا تعلقی انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتے ۔ دعا یہ ہونی چاہیے کہ اللہ ہمیں ہماری اچھی صفات میں محفوظ رکھے اچھی صفات پر عمل کرنے کی توفیق میں اضافہ فرمائے اور بری صفات کے خاتمے کے لیے کوشش اور احساس میں اضافہ ہوتا رہے ذہن میں یہ بات بٹھا لیں کسی شخص پر اللہ کی عنایات کے برعکس سوچ اور عمل کرنا آپ کی اچھی صفات سے محروم کر دیگا۔ اپنی صفات کا خیال رکھنا چاہیے ان کو پہچانیں اور اللہ سے دعا کرتے رہیں کہ آپ کی خامیاں ختم ہوں اور آپ اک ایسے انسان بنیں جس سے خالق خوش ہو۔ اپنی صفات کی خوشبو ہی اپنی ذات کو خوشبودار بناتی ہے۔ جسطرح انسان دن بھر مصروف زندگی گزارتا ہے لیکن رات کو بستر پر اکیلا پڑا ہوتا ہے اسی طرح زندگی اپنے جیسے انسانوں میں تعلق میں گزرتی ہے لیکن موت اکیلے آدمی کا سفر ہے وہاں نہ رشک رہتا ہے نہ ہی حسد صرف اپنی صفات ہوتی ہیں اپنا خیال ہوتا ہے ہمیں اپنی اچھی صفات پر خوش رہنا چاہیے اور بری صفات سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہیےیہ مشکل کام ضرور ہے لیکن انسان اشرف المخلوقات ہے کوشش سے بری عادات پر قابو پایا جا سکتا ہے اللہ نیک کاموں میں مدد فرماتا ہےاحساس پیدا ہو جائے تو بڑی غنیمت ہے اس سے درد دل پیدا ہوتا ہے اور یہ تعلق اور محبت کی علامت ہے اپنی ذات سے الگ ہو کر دیکھیں تو باہر کی دنیا امتحان گاہ ہے جو اس امتحان گاہ میں کامیاب ہوتے ہیں یا کامیاب ہونے کی کوشش کرتے ہیں وہ اپنے پردہ فرمانے کے بعد بھی یادر کھے جاتے ہیں اور انکی صفات گفتگو کا حصہ ضرور بنتی ہیں۔ عبادات فرشتہ صفت انسان تو بنا سکتی ہیں لیکن انسان درد سے بنتا ہے اسکی اہمیت اپنی جگہ ہے اسے سمجھنا چاہیے ۔ درد احساس کرنے والی بات ہے اسکا مطلب ہے اپنے علاوہ کسی کا خیال کرنا اور اسے اپنی ذمہ داری بنالینا۔ اللہ تعالی ہمیں دردمند انسان بنائے حسد سے دور رکھے رشک کی عادت عطا فرمائے آمین ۔
٭٭٭٭٭
کالم
حسد اور رشک کی دنیا
- by web desk
- دسمبر 13, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 796 Views
- 2 سال ago