دین میں سیرتِ نبوی ۖ سے مراد وہ زندہ و تابندہ نمونہ ہے جو صرف ہماری تاریخ کے صفحات پر ہی محفوظ نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کے لیے عملی طور پر جامع اور ہمہ گیر اسوہ ہے، دراصل سیرت النبی ۖ عمل کرکے ہی ایسے مسلم معاشرے کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے جو انفرادی اور اجتماعی معاملات کو باآسانی خوش اسلوبی سے حل کرلے۔سمجھ لینا چاہے کہ سیرتِ طیبہ پر عمل کرنا چند عبادات یا ظاہری رسومات تک ہی محدود نہیں بلکہ حقیقت میں یہ ایک مکمل نظامِ حیات ہے جو انسان کے عقائد، عبادات، اخلاق، معاملات، معاشرت اور تہذیب و تمدن کے ہر پہلو پر محیط ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہے "بے شک تمہارے لیے رسول اللہ ۖ میں بہترین نمونہ ہے۔” یقینا مذکورہ آیت صریح بتاتی ہے کہ نبی کریم ۖ کی زندگی ہمارے لیے کیوں اور کیسے مکمل نمونہ ہے۔ درحقیقت آپ ۖ کی سیرت انسانی کمالات کا مکمل مرقع ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ آپ ۖ بیک وقت معلم، مصلح، قائد، سپہ سالار، باپ، شوہر، دوست اور حاکم تھے۔ یہی وجہ ہیکہ آپ ۖ کا اسوہ حسنہ مسلمانوں ہی کے لیے نہیں دنیا بھر کے انسانوں کے لیے رہنمائی کا سرچشمہ ہے۔ نبی کریم ۖ کی زندگی قرآن مجید کی عملی تفسیر تھی۔یوں سیرت پر عمل درحقیقت قرآن پر عمل کا ہی دوسرا نام ہے۔یہ ثابت شدہ ہے کہ سیرتِ طیبہ پر عمل کرنے سے نہ صرف فرد کی انفرادی زندگی درست ہوتی ہے اور معاشرہ اجتماعی طور پر ترقی کرتا ہے۔ آپ ۖ کی سیرت میں عدل، مساوات، رحمت، بردباری اور انصاف کے ایسے عملی نمونے ہیں جو کسی بھی معاشرے کو کامیابی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آپ ۖ کی سیرت پر کیوں اور کیسے حقیقی معنوں میں عمل کیا جاسکتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ سیرت پر عمل کرنے کے لیے سب سے پہلے اس کا علم حاصل کرنا ضروری ہے۔ سیرت کی مستند کتابوں کا مطالعہ، سیرت کانفرنسز اور علمی بحت مباحثہ میں شرکت کرتے ہوئے مستند علما سے استفادہ کرنا چاہیے۔ سمجھ لینا چاہے کہ سیرت ۖ کا علم محض واقعات کی تفصیلات تک محدود نہ ہو بلکہ اس کے مقاصد میں عملی پہلوں پر غور و فکر شامل ہوناچاہے۔ اس سلسلے میں جو چیز لازم ہے وہ یہ کہ نبی ۖ نے جو توحید کا عقیدہ پیش کیا اسی پر بطور مسلمان اپنے دل و دماغ کو مطمئن رکھا جائے، مذید یہ کہ شرک کی تمام شکلوں سے بچا جائے ۔ نماز، روزہ، زکو، حج اور دیگر عبادات میں آپ ۖ کے طریقوں کی پیروی کرنا ہی اسوہ حسنہ پر عمل کرنا ہے۔ دین ہمیں بتاتا ہے کہ آپ ۖ کی بعثت کا بنیادی مقصد ہی اخلاق کی تکمیل تھی۔ بطور مسلمان ہماری انفرادی اور اجتماعی زمہ داری ہے کہ سچائی اور امانت داری کو شعار بنائیں، نہیں بھولنا چاہے کہ نبوت کے اعلان سے قبل ہی آپ ۖ کو صادق و امین کہا جاتا تھا۔ آپ ۖ چھوٹوں پر شفقت کرتے، بڑوں کی تعظیم، غریبوں اور مسکینوں پر رحم فرماتے حتی کہ جانوروں تک کے ساتھ شفقت سے پیش آتے ۔ سیرت النبی ۖ ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ کیسے گستاخی اور تکلیف دہ رویے پر صبر و تحمل سے کام لیا جائے، غصے پر کیوں اور کس طرح سے قابو پایا جائے۔ انکساری پیدا کرنا ۔ بیویوں کے ساتھ نرمی اور عدل، اولاد کے ساتھ محبت اور ان کی بہترین تعلیم و تربیت، رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک، پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھنا ہی اچھے اور قابل عمل مسلمان کی نشانی ہے ،سیرت النبی ۖ سے ہمیں اجتماعی زندگی کے لیے بھی رہنمائی ملتی ہیمثلا یہ کہ ہر اہم معاملے میں اہل علم و دانش سے مشورہ کو شعار بنایا جائے،حکمران ہو یا عام شہری، سب کے لیے یکساں انصاف کی دسیتابی ممکن بنائی جائے، ذمہ داریوں کو امانت سمجھ کر نبھایا جائے،نسل، رنگ، زبان اور خاندان کی تفریق کے بغیر سب کو برابر سمجھا جائے ،یقینا موجودہ دور کے نئے مسائل میں سنت کی روشنی میں حل تلاش کرنے کے لیے مجتہدین اور علما کی رہنمائی درکار ہے۔اس ضمن میں سنت رسول پر عمل کرنا میں ثابت قدمی کی ضرورت ہے۔انسانی فطرت میں کمزوریاں ہیں، لہذا بار بار کوشش اور استغفار سے کام لینا چاہیے۔ سیرت پر عمل کرتے ہوئے میانہ روی اختیار کرنے کی ضرورت ہے، یعنی نہ تو شدت پسندی اور نہ ہی لاپروائی سے کام لینا چاہے۔ دراصل سیرت النبی ۖ پر عمل صرف چند مخصوص اعمال تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک جامع اور ہمہ گیر عمل ہے جو زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہے۔ سیرت ہر عمل درحقیقت اسلام کو سمجھنے اور اس پر چلنے کا بہترین طریقہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ سیرت کا گہرا علم حاصل کریں، اسے دل وہاں سے سمجھیں، پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ یقینا یہ عمل تدریجی ہوگا لیکن مستقل اور مسلسل کوشش سے ہم اپنی انفرادی و اجتماعی زندگیوں میں سیرتِ نبوی ۖ کے روشن پہلوں کو جگہ دے سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق سیرتِ طیبہ درحقیقت ایک سمندر ہے جس سے ہر طالبِ علم و عمل اپنے ظرف کے مطابق موتی نکال سکتا ہے۔ بطور پاکستانی مسلمان ہم عہد کریں کہ نبی کریم ۖ کی سیرت کو نہ صرف پڑھیں گے اور پڑھائیں گے، بلکہ اس پر عمل کر کے اپنی زندگیوں کو اسو حسنہ کی روشنی سے منور کریں گے۔ یہی ہمارے لیے دنیا و آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے۔

