کہا یہ جاتا ہے کہ ملک میں مہنگائی ہے، اور یہ کہنے والے غلط نہیں کہتے۔ ہمارے ملک میں واقعی بہت مہنگائی ہے۔ اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس چیز کی قیمت 100 روپے ہے وہ عوام کو145 روپے میں خریدنا پڑ رہی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ مہنگائی کسی ایک وجہ سے پیدا نہیں ہوتی، اس کے پیچھے کئی عوامل کار فرما ہوتے ہیں میرے قارئین جن میں سے بہت سے عوامل سے واقف اور آگاہ ہوں گے۔ سب سے پہلی اور سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ انتظامیہ کا مارکیٹ کے معاملات پر کوئی اثر ہی باقی نہیں رہ گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جس کا جو چاہے ریٹ لگا لیتا ہے اور خریدار کو وہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اس کےساتھ ساتھ ذخیرہ اندوز اور منافع خور مافیا بھی پوری طرح سرگرم رہتا ہے، جو سرمایہ دار ہے وہ اپنے سرمائے کے بل پر اشائے خورونوش ذخیرہ کر لیتا ہے اور پھر اپنی مرضی کی قیمت پر مارکیٹ میں لے کر آتا ہے اور لوگوں کی جیبیں خالی کر کے اپنے سرمائے میں اضافہ کر لیتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ منافع خور اور ذخیرہ اندوز مافیاز انتظامیہ کے خوف سے اپنی سرگرمیاں جاری نہ رکھ سکیں، لیکن چونکہ انتظامیہ ایک طرف ہو کر بیٹھ جاتی ہے اور بظاہر یہ شو کیا جاتا ہے کہ مارکیٹ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے قانون پر چل رہی ہے لہٰذا مارکیٹ پر اثر اندازہونے والے مافیاز کو کھل کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔ حکومت اگر چاہے تو قیمتوں کو کنٹرول کر سکتی ہے، لیکن اس کی ان معاملات میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ مہنگائی کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ ہمارے ملک میں توانائی کے ذرائع پر لگنے والے ڈائریکٹ ٹیکسز بھی ہیں جن کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں پر بار بار نظر ثانی کرنا پڑتی ہے، بلکہ نظر ثانی کیا بار بار ان کی قیمتیں بڑھانا پڑتی ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جن جن اشیا کی تیاری اور ترسیل کے کسی بھی مرحلے میں توانائی کے ان ذرائع کا استعمال ہوتا ہے ان کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور یہ معاملہ مہنگائی کو بڑھانے کا باعث بنتا ہے۔ حالات کا تقاضا تو یہ ہے کہ ٹیکس نیٹ کا دائرہ وسیع کیا جائے اور یوں ریونیو اکٹھا کرنے کا ہدف پورا کیا جائے، لیکن اسکے بجائے توانائی کے ذرائع سے ٹیکسز کی صورت میں ریونیو کشید کیا جاتا ہے جو مہنگائی کے گراف کو بلند کرنے کا بھی باعث بنتا ہے۔ معاملات کس ڈگر پر چل رہے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک زمانے میں 24 گھنٹے گیس استعمال کر کے بھی اتنا بل نہیں آتا تھا جتنا آج کل آٹھ گھنٹے گیس استعمال کر کے آ جاتا ہے۔ بجلی کے بلوں کا بھی یہی حال ہے اور پٹرولیم مصنوعات کا بھی۔ مہنگائی کے حوالے سے ایک عجیب منطق یہ پیش کی جاتی ہے کہ چونکہ پوری دنیا میں مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے تو اس کے نتیجے میں پاکستان میں بھی اشیائے صرف کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ یہ منطق درست نہیں ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تو درآمدات پر اچھی خاصی پابندی ہے بلکہ پابندی کیا ہے، ہمارے پاس تو بین الاقوامی تجارت کے لئے پیسے ہی نہیں ہیں، تو اگر چیزیں درآمد کی ہی نہیں جا رہیں تو ان کے اثرات یہاں مارکیٹ اور اشیائے صرف پر کیسے پڑ سکتے ہیں؟ میرے خیال میں مہنگائی کے بڑھنے کی ایک اور وجہ گزشتہ چند برسوں کے دوران روپے کی قدر میں کی گئی بے تحاشہ کمی بھی ہے۔ صرف روپے کی بات نہیں، جو بھی کرنسی ڈی ویلیو ہو گی، اس کرنسی کے حامل افراد کی قوت خرید پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ جس طرح میں نے اپنے گزشتہ کچھ کالموں میں اس بات پر زور دیا تھا کہ جب تک ملک میں بے یقینی کی صورتحال ختم نہیں ہوتی اس وقت تک معاملات کا درست نہج پر آنا ناممکن ہے، اسی طرح میں یہ بھی کہوں گا کہ مہنگائی سے نجات چاہئے تو اس کےلئے بھی معاملات کو جلد از جلد بے یقینی کی صورتحال سے نکالا جانا چاہئے اور اسکا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ملک میں مقررہ تاریخ کو انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جائے۔ اگرچہ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جا چکا ہے اسکے باوجود الیکشن ہو سکیں گے؟ اس کے بارے میں تا حال ڈاو¿ٹ پایا جاتا ہے۔ اس ڈاو¿ٹ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے اور یہ اسی طرح اسی صورت میں ختم ہو گا ،جب الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکشن شیڈول کا اعلان کیا جائے گا۔ پوری قوم اسی کی منتظر ہے۔ ملک میں غیر یقینی صورتحال کس قدر زیادہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیے جانے کے باوجود ملک میں انتخابی سرگرمیاں اس حد تک نہیں بڑھی جس حد تک انہیں اب تک بڑھ جانا چاہئے تھا اور وجہ وہی ہے الیکشن شیڈول کا اعلان نہ کیا جانا۔ بہرحال جلد از جلد الیکشن تو ہونے ہی چاہئیں، لیکن اس کےساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ الیکشن شفاف، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہوں، کیونکہ اگر الیکشن شفاف نہ ہوئے تو اندیشہ ہے کہ آنے والی حکومت معاملات کو کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی اور یوں پہلے سے موجود مسائل شدت اختیار کر سکتے ہیں۔ حالات اسی وقت ٹھیک ہوں گے اور معاملات اسی وقت کنٹرول میں آئیں گے جب عوام کی منتخب حکومت پورے مینڈیٹ کے ساتھ برسر اقتدار آئے گی اور اس حکومت کو پھر کام بھی کرنے دیا جائے گا۔ الیکشن سے پہلے ہی بعض حلقوں میں سلیکشن کی باتیں ہونے لگی ہیں جو اچھا تاثر نہیں چھوڑ رہی ہیں۔ ان افواہوں کو غلط ثابت کرنے کےلئے بھی ضروری ہے کہ صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد مقررہ تاریخ پر یقینی بنایا جائے۔
٭٭٭٭
کالم
شفاف انتخابات کا انعقاد؟
- by web desk
- دسمبر 16, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 1700 Views
- 1 سال ago