صحافت کا لفظ صحےفہ سے نکلا ہے ۔صحےفہ کے لفظی معنی ہےں کتاب ےا رسالہ ۔عرصہ دراز سے صحےفہ سے مراد اےسا مطبوعہ مواد ہے جو مقررہ وقفوں کے بعد شائع ہوتا ہے ۔صحافت کا مترادف انگرےزی لفظ جرنلزم ہے جو جرنل سے بناےا گےا ہے جرنل کے لغوی معنی ہےں روزانہ کا بہی کھاتہ،روز نامچہ۔جب صحافت کا آغاز ہوا تو اس اصطلاح کو اخبار ےا رسالے کےلئے استعمال مےں لاےا جانے لگا ۔اخبار کا لفظ بہت پرانا ہے ۔ےہ اس وقت سے چلا آتا ہے جب نہ طباعت اےجاد ہوئی تھی نہ آج کے اخباروں کا تصور ممکن تھا ۔اخبار عربی زبان کا لفظ ہے اور خبر کی جمع ہے مسلمانوں کے عہد مےں صحافت حکمرانوں کی خدمت پر مامور تھی ۔جب کوئی بڑی خبر ہوتی تو ہرکارے ہر طرف دوڑا دئےے جاتے جو شہر شہر اس کا اعلان کرتے ۔بر صغےر مےں انگرےزی اخباروں کی دےکھا دےکھی اردو اور فارسی زبان مےں بھی مطبوعہ اخبار جاری ہوئے ۔چونکہ صحافت معاشرے پر اثر انداز ہوتی ہے اور معاشرہ اس پر اثر انداز ہوتا ہے ،اس لئے معاشرے اور صحافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔صحافت رائے عامہ کی راہنمائی کے فرائض بھی سر انجام دےتی ہے ،اس لئے پرےس کا منصب مثبت اور اسلامی کردار ادا کرنا ہوتا ہے ۔پرےس کو مقننہ ،عدلےہ اور انتظامےہ کے بعد چوتھے ستون کا درجہ دےا جاتا ہے ۔قلم کی عصمت قوم و ملک کی انتہائی گراں قدر اور انمول امانت ہوتی ہے ۔اس مےں کسی قسم کی آمےزش ،کسی طرح کی لغزش ،معمولی بدنےتی ےا معمولی جھول بھی غےر معمولی اور ناقابل تلافی نقصان کا باعث بنتا ہے ۔کشمےر کے صحافےوں سے اےک ملاقات کے دوران 23مئی1948ءکو قائد اعظم ؒنے فرماےا ” صحافت اےک عظےم طاقت ہے ،ےہ فائدہ بھی پہنچا سکتی ہے اور نقصان بھی ،اگر ےہ صحےح نہج پر چلائی جائے تو ےہ رائے عامہ کی راہنمائی اور ہداےت کا فرض انجام دے سکتی ہے ۔قائد اعظمؒ کے ان الفاظ سے مراد آزادی¿ اظہار مادر پدر آزاد نہ ہو بلکہ سچائی اور اصلاح کے پہلوﺅں کو نماےاں رکھنا ہے اور اس فرمان کی روشنی مےں وطن عزےز کے صحافےوں اور اخبار نوےسوں کا ےہ اولےن فرےضہ بنتا ہے کہ وہ اپنے قارئےن کو پوری طرح مسائل سے باخبر رکھنے کے ساتھ ان مسائل کی تعبےر و تشرےح کرتے ہوئے ان کے حل کے ضمن مےں ضروری مدد فراہم کرےں تا کہ غربت و افلاس اور ناداری جےسے سماجی و معاشی مسائل اور برائےوں کا جڑ سے خاتمہ ممکن بناےا جا سکے ۔برصغےر کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی مےں اسلامی صحافت کے کردار کو کون بھول سکتا ہے ۔خاندان مغلےہ کے زوال کے بعد جب مسلمانوں کے وجود کو مرہٹوں ،سکھوں ،جاٹوں اور انگرےزوں سے خطرات درپےش ہوئے تو شاہ ولی اﷲ نے خطوط کی ترسےل سے مسلمان حکومتوں سے رابطے قائم کےے اور اپنے قلم کی مدد سے پےش آمدہ خطرات سے کافی حد تک مسلمانوں کو سہارا فراہم کےا ۔تحرےک پاکستان کی کامےابی مےں اسلامی صحافت کا نماےاں حصہ کسی سے پوشےدہ نہےں اور اسلامی صحافت کی نشوونما مےں قائد اعظم کا کردار نہاےت نماےاں نظر آتا ہے ۔قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور علامہ اقبالؒ کی ذاتی دشوارےاں ان کے راہ عمل مےں حائل نہ ہو سکےں ۔قائد اعظمؒ کی انتھک کوشش سے کئی نئے اخبار جاری ہوئے جنہوں نے تحرےک پاکستان کا پےغام عوام تک پہنچاےا اور پوری ملت اسلامےہ مسلم لےگ کے جھنڈے تلے جمع ہو گئی ۔وطن عزےز مےں صحافت کی ترقی قائد اعظمؒ کی ہی مرہون منت ہے ۔ماضی مےں صحافتی حوالے سے کتنے نام ہےں جنہوں نے اپنے اخبارات اور رسائل کے ذرےعے نئی نسل کی نشوونما کی اور قومی ترقی کی راہ مےں اہم کردار ادا کےا ۔سر سےد احمد خان کے تہذےب الاخلاق کو کون بھول سکتا ہے ۔جب 1857ءکے انقلاب کے بعد اسلامی صحافت کا سورج غروب ہو گےا تو اس کا نئی بنےادوں پر استوار کرنے کا کرےڈٹ سرسےد احمد خان کو ہی جاتا ہے ۔انہوں نے تہذےب الاخلاق کے ذرےعے قوم کی اصلاح کا بےڑا اٹھاےا اور اس مےں بڑی حد تک کامےاب رہے ۔ان کے اخبار ” سائنٹےفک سوسائٹی“ نے مسلمانوں کی رائے عامہ کی ترجمانی کے فرائض انجام دئےے ۔ےہی اثر تھا کہ برصغےر کے طول و عرض مےں مسلمانوں کے اخبار و رسائل جاری ہوئے ۔لاہور کا ”پہلا اخبار“اور”وطن “ نماےاں تھے ۔ابوالکلام آزاد اور ظفر علی خان جےسی شخصےات نے اسلامی صحافت کو عظمت و رفعت عطا کی ۔تحرےک خلافت کے بعد مسلمانوں کے سےاسی حقوق کی جنگ مےں لاہور سے انقلاب اور سےاست ،دہلی سے ہمدرد ،وحدت او رالامان،لکھنو مےں حق اور ہمدم اور کلکتہ سے عصر جدےد نے علےحدگی کی تحرےک مےں اہم کردار ادا کرتے ہوئے اسے کامےابی سے ہمکنار کےا ۔اس دور مےں مسلمانوں کی سب سے بڑی پرےشانی ان کا انگرےزی کا کوئی معےاری اخبار نہ ہونا تھا ۔انگرےزی مےں مسلمانوں کے پاس دو تےن ہفت روزہ انگرےزی اخبار موجود تھے ۔انگرےزی مےں لاہور کا مسلم آﺅٹ لک 1932ءمےں بند ہو گےا ۔مسلمانوں کا ےہی کل اثاثہ تھا ،اس کے مقابلے مےں کانگرےس اور دوسرے غےر مسلم عناصر کے کئی کثےر الاشاعت اخبار تھے جن مےں ہندوستان ٹائمز ،نےشنل کال ٹرےپےون ،ہندو اور کرانےکل نماےا ں تھے ۔ان اخبارات کا مقصد اور منشور صرف اور صرف مسلم لےگ کا پروپےگنڈہ اور مخالفانہ کردار ادا کرنا تھا ۔دوسرے بڑے بڑے اےنگلو انڈےن اخبار جےسے سول اےنڈ ملٹری گزٹ ِسٹےٹس مےنِ،ٹائمز آف انڈےا موجود تھے لےکن ےہ اخبار مسلمانوں کا نقطہ نظر پےش کرنے مےں لےت و لعت سے کام لےتے ۔ملک کے دو بڑے خبر رساں اداروں اےسوسی اےٹڈ پرےس اور ےونائےٹڈ پرےس مکمل طور پر ہندوﺅں کی اجارہ داری اور تسلط مےں تھے ۔ صوبائی خود مختاری کی آمد پر صحافت کو مسلمانوں نے مضبوط بنےادوں پر استوار کرنے کی ضرورت کو محسوس کےا ۔چنانچہ کلکتہ سے سٹار آف انڈےا کے نام سے اےک انگرےزی روزنامے کا اجراءکےا ۔لاہور سے برکت علی مرحوم نے منٹو ٹائمز جاری کےا ۔جب 1940 ءمےں قراداد لاہور پاس کی گئی تو ہندو پرےس نے اسے طنزاً پاکستان کی قرار داد کا نام دےا جس کے جواب مےں قائد اعظمؒ نے اسلامی صحافت کو استحکام بخشنے کےلئے عملی اقدام اٹھاےا اور چندے کی مہم شروع کی ،جو سرماےہ فراہم ہوا اس سے ڈاﺅن ٹرسٹ قائم کےا ۔قائد اعظمؒ جانتے تھے کہ مسلمانوں کی آواز اس وقت تک موثر نہےں ہو سکتی جب تک ان کی کوئی خبر رساں اےجنسی نہ ہو ۔انہی کی کاوش سے بہار کے چند سرکردہ مسلمانوں نے اورےنٹ پرےس آف انڈےا کے نام سے اےک مسلم خبر رساں اےجنسی قائم کی جس کے دفاتر ہندوستان کے تمام بڑے شہروں مےں قائم کئے گئے جس سے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور ان کی سرگرمےاں منظم انداز مےں منظر عام پر آنے لگےں ۔دہلی مےں آل انڈےا مسلم لےگ کے زےر اہتمام روزنامہ ” منشور“ جاری ہوا اور کراچی ،بمبئی اور الہٰ آباد سے بھی ہفت روزہ انگرےزی اخبار شائع ہونا شروع ہوئے ۔اس دور مےں لاہور سے نوائے وقت کا اجراءہوا ۔ےہی نتےجہ تھا کہ مسلمانوں کی اےک پلےٹ فارم سے زوردار سنائی دےنے لگی ۔12اکتوبر 1943ءکو ڈان کی پہلی سالگرہ پر قائد اعظمؒ نے اپنے پےغام مےں کہا کہ ”قوم کی ترقی اور بہبود کےلئے صحافت اےک اہم ضرورت ہے کےونکہ زندگی کی تمام سرگرمےوں کو آگے بڑھانے کےلئے صحافت ہی وہ واحد ذرےعہ ہے جو قوم کی رہنمائی کرتا ہے ۔قائد اعظمؒ کے اس فرمان کی روشنی مےں قومی اور معاشرتی ترقی کےلئے کام کرنا اولےن فرےضہ ہے اور اس شعبے سے وابستہ افراد کو وطن عزےز مےں موثر اسلامی اور بامقصد روےوں کو فروغ دےنا قائد اعظمؒ کے راہنما اصولوں کی پےروی کرنا ہے ۔