کالم

قومی اسمبلی کی آئینی مدت کی تکمیل

idaria

جب یہ ان سطورآپ کی نظر سے گزر رہی ہوں گی قومی اسمبلی تحلیل ہو چکی ہو گی اور صدر نے مملکت سمری پر دستخط کر دئے ہوں گے۔اس بات کا بھی امکان ہے کہ نگران سیٹ اپ کی تشکیل کے خدوخال سامنے آچکے ہوں گے،کیونکہ گزشتہ روز راولپنڈی میں جنرل ہیڈ کوارٹرز میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے پر میں بدھ کو قومی اسمبلی کی تحلیل کےلئے صدر پاکستان کو سمری بھیج دوں گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ میری حکومت اپنی مدت پوری کر رہی ہے، آئینی تقاضے پورے کرنے کے بعد ہم اقتدار عبوری سیٹ اپ کے حوالے کر دیں گے۔جی ایچ کیو میں اپنی تقریر میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ حکومت کی مدت پوری ہونے سے قبل ہم خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے ذریعے اصلاحات اور پیش رفت کا ایک جامع نظام آنے والی حکومت کےلئے چھوڑ کر جارہے ہیں، یہ نظام وفاقی اور صوبائی حکومت کے اداروں نے مشترکہ طور پر تشکیل دیا ہے۔دوسری طرف میڈیا تنظیموں کے ساتھ ایک علیحدہ ملاقات میں وزیر اعظم نے کہا کہ اسمبلی کی تحلیل کے بعد انتخابات کے حوالے سے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کا اختیار چیف الیکشن کمشنر کو دیا گیا ہے،انہوں نے یہ بھی کہا کہ تمام جماعتیں متفق ہیں کہ انتخابات جلد سے جلد کرائے جائیں تاہم انہوں نے اس بات کا عندیہ نہیں دیا کہ الیکشن90 روز کے اندر ہوں گے،جس سے عوامی خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی طرح اسے بھی لٹکایا جائے گا۔اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ افسوسناک امر ہو گا اور آئین کی پامالی کی ایک اور مثال قائم ہو گی،یوں اگر یہ کہا جائے کہ الیکشن کے التوا کے پیچھے غیر جمہوری سوچ کارفرما نظر آتی ہے،جو جمہوریت کے استحکام کےلئے رکاوٹ تصور کی جا ئے گی۔ درایں اثنا توقع ہے کہ جلد وزیراعظم اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجا ریاض سے ملاقات کریں گے جس میں عبوری وزیراعظم کے تقرر کے حوالے سے مشاورت کی جائے گی۔اپوزیشن لیڈر کے مطابق انہوں نے اپنے اتحادیوں سے مشاورت کا عمل مکمل کر لیا ہے اور عبوری وزیر اعظم کےلئے 3نام فائنل کرلیے ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ ان میں کوئی سیاستدان شامل نہیں ہے لیکن ایک ماہر معاشیات کو شارٹ لسٹ کیا گیا ہے، اگر حکومت تجویز کرے تو ہم نگران وزیر اعظم کےلئے کسی سیاستدان کے نام پر بھی غور کر سکتے ہیں۔ انتخابات میں ممکنہ تاخیر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے راجا ریاض نے کہا کہ اصولا انتخابات 3 ماہ کے اندر کرائے جانے چاہئیں لیکن تازہ مردم شماری کی منظوری نے معاملات کو پیچیدہ بنا دیا ہے، میرے خیال میں انتخابات میں 6 ماہ کی تاخیر ہو گی۔ قبل ازیں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ 2023کی مردم شماری نوٹیفائی ہونے کے بعد حلقہ بندیوں کی وجہ سے عام انتخابات میں تاخیر ہو سکتی ہے، انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ انتخابات آئندہ برس مارچ تک ملتوی ہو سکتے ہیں۔ ادھر وزیراعظم نے کہا کہ ابھی کوئی نام فائنل نہیں ہوا۔ہم نے اپنے آئینی فرائض کی تکمیل کی ہے، نئی مردم شماری کو ٹیک اپ اور ڈسکس کرنے کا فیصلہ سی سی آئی کے پاس ہے، 2023 کی مردم شماری کو سی سی آئی میں لے کر جانا آئینی ضرورت تھی۔ وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ مردم شماری کو سی سی آئی میں متفقہ طور پر منظور کیا گیا، ان کا کہنا تھا کہ الیکشن میں تاخیر کا سبب ایسا بنتا ہے جو ناگزیر ہے تو ہم دیکھیں گے، ہم ابھی کیوں فرض کرلیں کہ الیکشن میں تاخیر ہوگی۔وزیراعظم شہباز شریف نے مزید کہا کہ میری حکومت نے کوئی سروے نہیں کرایا، الیکشن میں عوام جو فیصلہ کریں گے اس کو قبول کریں گے، یہ تاثر کہ اسٹبلشمنٹ مجھے پسند کرتی ہے یا میں ان کا آدمی ہوں، یہ بات 30 سال سے چل رہی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ بد قسمتی سے سول اور ملٹری تعلقات میں آئینی و قانون، معروضی حالات اس میں جو توازن ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہے۔وزیراعظم کی وضاحت اپنی جگہ لیکن حکومتی وزراع کے بیانات سے جو تاثر پختہ تر ہوتا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ الیکشن کو عمداً تاخیر کا شکا رکیا جائے گا۔اسی طرح نگران سیٹ کی غیر جانبداری پر پر بھی سوال اُٹھ رہے ہیں کیونکہ شنید ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کو عبوری سیٹ اپ میں وہی ذمہ داریاں مل سکتی ہیں جو اس وقت ان کے پاس ہیں۔
ہزارہ ٹرین حادثہ،ذمہ داروں کوسزاملنی چاہیے
ہمارے ریلوے کے نظام کے بہت سے سنگین مسائل ہیں جن پر توجہ نہیں دی جارہی اسی لئے آئے روزٹرین کے حادثات رونماہوتے رہتے ہیں۔کسی ایک حادثے میں ذمہ داروں کا تعین کرکے انکوسزا ضرور دیں تاکہ اس محکمے اور دیگر اداروں اور محکموں کے عہدیداران کو واضح طور پر یہ پیغام مل سکے کہ ایسے معاملات میں غفلت بالکل برداشت نہیں کی جائے گی۔ہزارہ ایکسپریس ٹرین حادثہ پر ریلوے حکام نے 6افسران اور ملازمین کو معطل کردیا، معطل ہونےوالوں میں گریڈ 18کے 2اور گریڈ 17کا ایک افسر شامل ہے،نوٹیفکیشن کے مطابق گریڈ 18کے معطل افسران میں ڈویژنل ایگزیکٹیو انجینئر سکھر حافظ بدرالعارفین اور ورکس منیجر ورکشاپ کراچی عاطف اشفاق شامل ہیں،اسسٹنٹ ایگزیکٹیو انجینئر نواب شاہ مشرف مجید، گریڈ 14کے پاور کنٹرولر بشیر احمد اور گریڈ 12کے وے انسپکٹر محمد عارف کو بھی معطل کردیا گیا ہے،یاد رہے اتوار کو کراچی سے راولپنڈی جانے والی ہزارہ ایکسپریس کی کئی بوگیاں نواب شاہ کے قریب پٹری سے اتر گئی تھیں جس کے نتیجے میں 35سے زائد مسافر جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔ہزارہ ایکسپریس کا حادثے کا شکار ہونا اور اس میں کئی افراد کا جان سے ہاتھ دھو بیٹھنا اور لوگوں کا زخمی ہوناتکلیف دہ بات ہے ۔دوسری جانب وفاقی وزیر ریلوے اور ہوا بازی خواجہ سعد رفیق نے ایک بیان میں کہا کہ پرمالی فش پلیٹس ہوتی ہیں جنہیں ہالینڈ اور جرمنی سے درآمد کیا جاتا ہے، میڈیا میں جہالت کی انتہا کرتے ہوئے اسے لکڑی قرار دیا گیا، پرمالی فش پلیٹس ریلوے آپریشنز کا حصہ ہیں یہ لکڑی کا ٹکڑا نہیں تھا۔ ایک لوکوموٹیو کے دو ٹائر جام تھے جنہیں لبریکیٹ کیا گیا، اسے آپریشن کا حصہ نہیں ہونا چاہیے تھا، ایک بنیادی وجہ اس حادثے کی یہ تھی جو بیان کی گئی، ایک ریل ٹاپ میں پرابلم آیا، دوسری بڑی وجہ یہ ہے، اس میں چھ لوگوں کو معطل کیا گیا، انکوائری کی جا رہی ہے، سرہاری کے شہریوں کیساتھ سندھ حکومت اور افواج پاکستان نے بہت کام کیا۔افسوس کی بات ہے کہ ریلوے کو چلانے کیلئے فنڈز دینا ہوں گے، سیلاب بھی اس حادثہ کی وجہ ہے کیونکہ ریلوے ٹریک ڈیڑھ سو سال پرانا ہے، اس حوالے سے وفاقی حکومت اگر 10 ارب روپے بھی دے تو ریل کا نظام بہتر ہو سکتا ہے۔
یورپ بھر میں بھارت کے خلاف مظاہرے
بھارت کو خارجہ محاذ پر کشمیر ایشو پر سخت سبکی کا سامنا ہے روز کسی نہ کسی ملک میں بھارت کےخلاف مظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔گزشتہ روز تحریک کشمیر یورپ کے زیر اہتمام اوسلو، روم ،میڈرڈ،لوٹن، مانچسٹر ، لندن، اور دوسرے شہروں میں بھارت کےخلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے ۔ برطانیہ اور یورپ کے مختلف ممالک میں کشمیری تارکین وطن نے5 اگست کو بھارت کے خلاف یوم سیاہ منایا گیا اس موقع پر زبردست احتجاجی مظاہرے کیے ۔جموں و کشمیر میںبھارتی مظالم کو بے نقاب کیا گیا ۔بھارت کے خلاف نعرے بازی کی گی۔ مظاہرین نے مختلف بیبرز اور کتبے آٹھائے ہوئے تھے۔ جموں وکشمیر سے بھارتی فوج کے انخلا اقوام متحدہ کی قرارداوں پر عمل درآمد کرانے مطالبہ کیا گیا۔ ان مظاہروں میں مردوں خواتین اور بچوں نے بھرپور شرکت کی۔ کشمیری، پاکستانی ، انسانی حقوق اور جمہوریت پسند عوام نے جس جوش اور جذبے سے بھرپور شرکت کر کے بھارت کو یہ پیغام دیا ہے کہ بھارت کے غیر قانونی حربے اور ہتھکنڈے کامیاب نہیں ہوسکتے کشمیری بھارت کے غاصبانہ قبضہ کو تسلیم نہیں کرتے کشمیریوں کی جدوجہد حق اور انصاف پر مبنی ہے اور اپنے حق خودارادیت سے دستبردار نہیں ہونگے۔ مسئلہ کشمیر ایک حقیقت ہے اس کا حل جب تک کشمیری عوام کی امنگوں اور خواہشات کے مطاق حل نہیں ہوتا نہ صرف خطے بلکہ دنیا کے امن کو شدید خطرہ ہے خطے دو ایٹمی قوتوں کے درمیان مسئلہ کشمیر کو حل کرنے پر توجہ دی ورنہ نتائج کی ذمہ داری عالمی امن کے علمبرداروں اور بھارت پر ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے