کالم

قومی خزانے کی لوٹ مار

taiwar hussain

میر املک پاکستان جب آزاد ہوا تو اس وقت مقروض نہیں تھا ،جتنے بھی اثاثے ہندوستان سے منتقل ہوئے وہ ملک کی ضروریات کیلئے اگرچہ ناکافی تھے لیکن اللہ نے اس ملک کو مشکلات سے نکال کر آسودگی عطا فرمائی ۔ اس وقت کے رہنما مخلص تھے ، ایماندار تھے جائیدادوں کے مالک تھے لیکن پاکستان آنے کے بعد اکثریت نے کچھ کلیم نہ کیا ۔ اس ملک کی ترقی و خوشحالی اور لوگوں کی تکالیف کو ختم کرنے کیلئے دن رات کام کیا ۔ ادنیٰ سے اعلیٰ عہدوں پر فائز سرکاری ملازمین نے اپنی تمام تر صلاحیتیں ملک کی ترقی کیلئے صرف کیں ۔ 1952سے 1958تک سیاسی حالات کچھ اس طرح الجھتے رہے کہ جنرل ایوب خان نے مارشل لاءنافذ کردیا ، دس سال تک ملک ترقی کی راہ پر چلتا رہا ، دو بڑے ڈیم بنے تربیلا اورمنگلا ،وہاں کے لوگوں کو برطانیہ بھیجنے کیلئے بھی راہیں ہموار کی گئیں ، لہٰذا دس سالہ دور آج بھی ملک کی تاریخ کا گولڈن دور کہلاتا ہے ، سیاست اور جمہوریت نے ملک کے ماحول کو ایسا زہر یلا بنادیا کہ ذاتی دشمنیاں کھل کر سامنے آگئیں ، مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا ، ہندوستان نے مکتی باہنی کے ساتھ مل کر ملک کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی سازش کو کامیاب بنادیا ، ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ بھی سیاستدان اور سیاسی جماعت کی طرف سے لگا، بدقسمتی سے وقت نے اب ایسے لوگوں کو ملک کے رہنما بنادیا جو بدنیت ، بے ایمان اور قومی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے ہیں ، قوم کا پیسہ اتنی بےدردی سے اپنی جیبوں میں ڈالا کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا ، فوجی حکومتوں کے بعد باگ ڈور ایسے بزنس مینوں اور وڈیروں کے ہاتھ لگ گئی جو پیدائشی حریص تنگ نظر اور تنگ دل بے کردار تھے ، تعجب تو یہ ہے کہ سرکاری ملازمت میں اگر کسی ملازم کیخلاف کرپشن کے چار جز ثابت ہوجائیں تو اسے ملازمت سے برخاست کردیا جاتا ہے لیکن سیاسی لیڈر کرپشن کے چارجز سے پاک صاف ہوکر پھر اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہوجاتے ہیں، قوانین بنانےوالے بھی خود ان کو توڑنے والے بھی خود، قائد اعظم اور ان کے رفقاءتو سرکاری خزانے سے ایک پائی بھی نہیں لیتے تھے وہ تو قیام پاکستان کیلئے اور پھر اس کے وجود میں آنے کے بعد اسے مضبوط اور مستحکم کرنے کی کوششوں میں لگے رہے لیکن ان کے بعد آنےوالے حریفوں نے ملک کی دولت کو اباجی کا مال خوب سے خوب تر حربوں سے لوٹا، یہ حقیقت ہے کہ مختلف سیاسی ادوار میں ملک کہنیوں کے بل رینگ رینگ کر ترقی کرتا رہا اور وہ نام نہاد ترقی پائیدار ہونے کی بجائے سردیوں کی دھوپ کی طرح ثابت ہوتی رہی ، غضب خدا کا مراعات بھی انہوں نے اپنے لئے مختلف اوقات میں چٹ منگنی پٹ بیاہ کی طرح منظور کرائیں اور لاکھوں روپے لیکر جیبوں میں ڈال لئے ، سوکنوں کی طرح ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے گھٹیا زبان اور گھٹیا ترین اعمال کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سیاستدانوں نے بدنامیاں تو کمائیں لیکن قوم اور ملک کو گھر کے ملازمین کی طرح سمجھا ، ہر دور میں قومی خزانہ خالی ہوتاہے اور قرض کی درخواست کسی نہ کسی مالیاتی ادارے کے حضور پیش کی ہوئی ہوتی ہے ، قرض ملک ، قوم کے نام پر خود لیتے ہیں اور خود ہی اپنی آسانیوں کیلئے خرچ کرتے ہیں ، قوم تو مقروض رہنے کے مرض سے صحتیاب ہی نہیں ہوپاتی ، نئے نئے انداز اور طریقوں سے سیاستدانوں کی فیملیز بھی ماماجی کا مال سمجھ کر قومی دولت کو لوٹتی ہیں ، یہ ایسی جونکیں ہیں جنکا پیٹ قوم کا خون چوس چوس کر بھرتا ہی نہیں ، ملک کی یہ اعلیٰ ترین مخلوق ہیں عوام جن کی ووٹوں اور سپورٹ سے یہ عہدوں پر تخت نشین ہوتے ہیں وہ ان کیلئے صرف تالیاں بجانے اور ڈھول کی تھاپ پر ان کی کامیابیوں پر بھنگڑا ڈالنے والے اور سیاسی جلسوں میں شرکت اور زندہ آباد کے نعرے لگانےوالوں سے زیادہ نہیں ، اگر فائرنگ کا تبالہ ہو جائے تو بھی مرتا کسی غریب کا بچہ ہی ہے ، ان کی اولادیں ملک سے باہر رہتی ہیں اور اگر ملک میں آ بھی جائیں تو تخت اقتدار کے والے بن کر سامنے آتے ہیں ، ہمارے ملک کی سیاست چند مال دار گھرانوں کے تفریحی ماحول کے گرد گھوم رہی ہے ، باریاں لگی ہوئی ہیں ایک بار تم ار ایک بار ہم نہ تو عوام کی مشکلات کا پتہ اور نہ ہی ملک کی ترقی کا عزم بس اقتدار کے مزے لوٹنے کیلئے تمام ترطاقت خرچ ہوتی ہے ، علامہ اقبال ؒ نے بالکل صحیح کہا تھا کہ ”جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تو لا نہیں کرتے “ ووٹوں کی گنتی سے ان پڑھ ملزم مجرم اٹھائی گیر رسہ گیر ، سمگلر جرائم سے لت پت سبھی پر وقار شخصیتیں بن کر باوقار پوزیشنوں پر براجمان ہو جاتے ہیں ، نہ تو ووٹ دینے والے باشعور اور ان کے ساتھ کامیاب ہوانے باشعور اب ہمارے لیڈر وہ ہیںجن کے دو دھ کے دانت بھی نہیں گرے ، ملک کو سیاست کی اکیڈمی سمجھ کر ان بلونگڑوں کو اقتدار حاصل کرنے کے طور پر طریقے اور عوام کو دھوکہ اور فریب دینے کے انداز سکھائے جاتے ہیں جو دادکوں اورنانکوں کے نام ملاکر اپنی شناخت کروائیں بھلا وہ کیا ملک ، قوم کے مسیحا بنیں گے ، عوام مسلسل دھوکے میں آرہے ہیں جو ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا ڈراوا دیں ان کا یہ ریاست کچھ نہیں بگاڑ سکی ، جو اداروں کی تذلیل کریں ان پر پاتھ نہیں ڈالا جاسکا۔ پاکستانی قوم اب ٹکڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے ، یہ ن لیگ کے متوالے ہیں ، یہ پی پی کے جیالے ہیں ، یہ پی ٹی آئی کے جانثار ہیں ، کچھ اداروں کو برا کہنے اور کچھ ان کے تقدس کیلئے ہیں ، کچھ مذہبی منافرتوں کو پھیلا رہے ہیں ، ہم کیا کررہے ہیں ، کوئی بھی ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں ، ہمارے لیڈر ملک ،قوم کی دولت لوٹ کھسوٹ کر علاج کرانے کے بہانے دیار غیر میں پناہ لینے چلے جاتے ہیں ، یہ بے ضمیر نام نہاد سیاسی لیڈر کیوں ایسا کرتے ہیں کیا پاکستان کے ڈاکٹرز اور ہسپتال ان کی بیماریوں کا علاج کرنے سے قاصر ہیں ، انہیں دیار غیر کی رہائش کو چھوڑ کر ملک کی سیاسی محاذ آرائی کی کیفیت کو سیاسی سوجھ سے حل کرنے کا عندیہ لے کر آنا چاہیے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے